اسلام آباد //پاکستان نے امریکہ کی طرف سے پاکستان کو درپیش اقتصادی مشکلات کی ایک وجہ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک قرضوں کو قرار دینے کے بیان کو مسترد کرتے ہوے کہا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کیونکہ چین سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی تین سے چار سالوں کے بعد شروع ہو گی۔امریکہ کے محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نیوئٹ نے جمعرات کو پریس بریفنگ کے دوران پاکستان کی طرف سے اپنی معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے سے باضابطہ طور پر قرض فراہم کرنے کی درخواست دینے سے متعلق پوچھے گئے سوا ل کے جواب میںکہا تھا کہ پاکستان کے اقتصادی مشکلات کی ایک وجہ چینی قرض ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے پاکستان کے لیے کسی بیل آؤٹ کے بارے میں چند ماہ پہلے بات کر چکے ہیں۔امریکہ کے محکمہ خارجہ کی ترجمان نے مزید کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کی طرف سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لیے دی گئی درخواست کا جائزہ میرٹ پر لے گا۔انہوں نے کہا کہ" ہم تمام کیسوں بشمول پاکستان کے قرضے کی صورت حال کا تمام پہلوں سے نہایت باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں۔ "ترجمان نے مزید کہا کہ "پاکستان کو اس وقت جس صورت حال کا سامنا ہے اس کی ایک وجہ چینی قرض ہے اور یہ حقیقت ہے کہ قرض حکومتوں نے شاید یہ سوچ کر حاصل کیا کہ اس قرض سے نکلنا اتنا مشکل نہیں ہو گا تاہم یہ مشکل ہوگیا ہے۔"اقتصادی امور سے متعلق پاکستان حکومت کیترجمان فرح سلیمکا کہنا ہے کہ پاکستان کے اقتصادی مشکلات کا تعلق چین پاکستان اقتصادی رہداری سے منسلک قرض نہیں ہیں کیونکہ ان کے بقول ان کی فراہمی کو فوری واپسی کاپاکستان کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے بلکہ اس قرضکی واپسی آئندہ تین سے چار سال کے بعد شروع ہوگی۔ فرح سلیم نے کہا کہ پا کستان کی مو جودہ معاشی مشکلات کا تعلق پاکستان کی توانائی کی شعبے سے متعلق گردشی قرضے ہیں جن میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران مسلسل اضافہ ہوتارہا ہے اور یہ قرضے ان کے بقول اب 13 سو ارب رپے تک پہنچ چکے ہیں۔دوسری طر ف امریکہ کے محکمہ خارجہ کی ترجمان کے بیان پر تاحال چین کا ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم چین قبل ازیں یہ وضاحت کر چکا ہے کہ پاکستان میں برھتے ہوئے قرضوں کا مسئلہ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کی وجہ سے نہیں ہے، اس کے تحت شروع کئے جانے والے تمام منصوبے پاکستان کی مسلسل ترقی کی بنیاد پر دو طرفہ سمجھوتوں کے تحت شروع کئے گئے ہیں۔واضح رہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ نے اگست میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے کہا تھا کہ وہ پاکستان کو کوئی ایسا قرض نہ دے جس کی رقم پاکستانی حکومت چین سے لیے گئے قرض اتارنے کے لیے استعمال کرسکتی ہو۔
پاکستان کو گزشتہ تمام قرضوں کی شفاف تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی، آئی ایم ایف
جکارتہ//عالمی مالیاتی فنڈ کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ نے کہا ہے قرضہ منظور کرانے سے قبل پاکستان کو اپنے گزشتہ تمام قرضوں سے متعلق شفاف تفصیلات مہیا کرنا ہوں گی۔اطلاعات کے مطابق انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ نے پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کی قیادت میں آنے والے وفد سے بات چیت کے دوران کہا ہے کہ نیا قرضہ لینے سے قبل ہر ملک کو گزشتہ برسوں میں لیے گئے اپنے قرضوں کے استعمال سے متعلق شفاف معلومات فراہم کرنا ہوتی ہے۔کرسٹین لیگارڈ نے مزید کہا کہ پاکستان کو بھی اس مرحلے سے گزرنا ہوگا اور چین سمیت جو بھی قرضے لیے ہیں ان کی تفصیلات بتانا ہو گی اور یہ شرط اس لیے رکھی جاتی ہے تاکہ قرضوں کے استعمال اور ادائیگی میں مکمل شفافیت برقرار رکھی جا سکے۔عالمی مالیاتی فنڈ کی مینیجنگ ڈائریکٹر کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کو قرض دینے سے قبل ملک کے مجموعی قرض اور اْن کی نوعیت کو بھی دیکھا جاتا ہے اور گزشتہ قرضوں کی جانچ پڑتال سے تقابل کر کے دیکھا جاتا ہے کہ آیا قرض لینے کا خواہاں ملک مزید قرض کا بوجھ برداشت کرنے کی سکت رکھتا ہے یا نہیں۔کرسٹین لیگارڈ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے یہ کڑے اصول اور ہدایات ہر صارف ملک کے لیے ہیں تاکہ قرضے کا بری طرز حکمرانی، کرپشن، جنگجوئوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کی نذر ہوجانے کا احتمال نہ رہے اور یقین کرلیا جائے کہ یہ قرض عوام کی بہبود اور بحرانی کیفیت سے نکلنے میں ہی استعمال ہوگی۔واضح رہے پاکستان کی نئی حکومت نے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان تیزی سے دیرپا امن کے قیام کی جانب گامزن : پاک آرمی چیف
راولپنڈی: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ پاکستان تیزی سے دیرپا امن کے قیام کی جانب گامزن ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے برطانوی چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل نکولسن سے ملاقات کی جس میں خطے کی سیکیورٹی صورتحال اور باہمی تعاون کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے برطانوی سیکرٹری دفاع گیون ولیئم سن سے بھی ملاقات کی، اس موقع پر برطانوی قومی سلامتی کے مشیر مارک سیڈویل اور برطانوی وزیراعظم کے خصوصی نمائندے برائے پاکستان اور افغانستان بھی موجود تھے۔ترجمان پاک فوج کے مطابق برطانوی حکام سے وفد کی سطح پر امن وامان سے متعلق دوطرفہ تعاون کیلیے مذاکرات بھی ہوئے، اس موقع پر برطانوی لیڈرشپ نے پاکستان میں قیام امن، سلامتی کی صورتحال اور خطے میں قیام امن کے لیے پاکستان کے کردار کی بھی تعریف کی۔