Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

سی پیک۔۔۔ جنوبی ایشیاء کی معاشی شہ رَگ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 16, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
16 Min Read
SHARE
شاہراہ ابریشم ایک ایسی واحد شاہراہ ہے جوبر اعظم ایشیا کو یورپ سے جوڑتا ہے۔ اس شاہراہ کے ذریعے کئی ایشیائی اور یورپی ممالک کے درمیان تین صدیوں تک نہ صرف کاروبار چلتا رہا بلکہ داعیانِ مذہب، پیشہ ور ماہرین اور دانشوروں کی بھی آمدو رفت ہوتی رہا۔کشمیر میں اسلام کے عظیم المرتبت داعی اسی شاہراہ سے واردِ کشمیر ہوئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا کلچر کئی وسطی ایشیائی ممالک سے بالکل ملتا جلتا ہے۔ اس شاہراہ پر کئی شہر اور بڑی بڑی منڈیاں آباد ہوئیںجن میں چین کے شہر ذیان، کینگڑو ، کنمنگ اور کاشغر، وسطی ایشیا کے شہر خوتان، سمرقند ، بخارا،الماٹا، مرو اور تاشقند قابل ذکر ہیں۔ پندرہویں صدی کے بعدسیاسی اور فوجی انتشارسے کئی ایشیائی ممالک برطانیہ کی کالونی بن گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ سمندری راستوں کی دریافت سے مغربی ممالک کا ایشیائی مارکیٹوں تک رسائی نے اس شاہراہ کی اہمیت ختم کر دی۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد چین ایک بڑی اقتصادی طاقت کے طور پر اُبھر رہا ہے۔امریکہ کے بعد چین دوسری بڑی معیشت ہے۔وہ دنیا کی منڈیوں پر چھا رہے ہیں۔ چین کی پیداوار ہر دن کے گزرنے کے ساتھ بڑھ رہی ہے جس کے لئے نئے مارکیٹوں کی تلاش اور وہاں تک پہنچنے کیلئے آسان راستے ڈھونڈلینا ناگزیر ضرورت بن گئی ہے۔ساتھ ہی ساتھ تیل اور گیس کی درآمد اس سے کئی زیادہ اہم بن گئی ہے۔۲۰۱۳ء میں چین کے صدر ،زائی زنپنگ نے قزاقستان میں ـ،ون بیلٹ ون روڑ،پلان کا اعلان کر دیا جس کے تحت دنیا کے ساٹھ ممالک براہ راست زمینی راستہ سے جڑ جائیں گے۔ ایشیا اور یورپ کے درمیان بری(شاہراہِ ابریشم) اور بحری (بحر ہند) راستوں سے جوڑنے کی بات کی گئی ۔ چین کے شہر  ذیان سے شروع ہونے والی یہ شاہراہ قزاقستان سے ہوتے ہوئے روس کے دارالخلافہ ماسکو  جائے گی ،جہاں سے یہ یورپ کے کئی شہروں تک پھیل جائے گی۔ اس شاہراہ کی کچھ شاخیں ایران اور ترکی بھی جائیں گی۔ ایک اہم شاخ  چینی شہر کاشغر سے بحر ہند کے ساحل پر واقع پاکستانی بندرگاہ گوادر جائے گی۔اس راہداری منصوبے کا نام سی پیک رکھا گیا ہے۔
سی پیک کیا ہے؟
چین پاکستان اقتصادی راہداری ، چین پاکستان اکنامک کوریڈور یا سی پیک ایک ایسے بڑے منصوبہ کا نام ہے جس سے چین کے مغربی حصہ کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع گہری سمندر والی بندرگاہ کے ساتھ جوڑ ا جار ہا ہے۔ ۴۶؍ ارب ڈالر(جو کہ اب بڑھ کر ۵۶ ارب ڈالر ہو گئی ہے) کی خطیر مالیت کے اس منصوبے کے تحت چین کے مغربی شہر کاشغر سے پاکستان کی گوادر بندرگاہ تک شاہراہیں، سڑکیں، پُل، سرنگیں، اور ریلوے تعمیر ہو رہی ہیں۔تین ہزار کلومیٹر کے اس فاصلے پربہتر ترسیل کی لئے فائبر آپٹکس بچھائی جارہی ہے، کئی پاور پراجیکٹ تعمیر کئے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ تیل اور گیس کی ترسیل کی لئے بڑی بڑی پائپیں بچھائی جا رہی ہیں۔ کئی تجارتی منڈیاں تعمیر ہو رہی ہیں۔اس منصوبے میں توانائی، صنعت و حرفت، زراعت ،سیاحت اور دوسرے متعدد شعبے شامل ہیں۔
گوادر بندرگاہ گرم پانیوں کی منفرد بندرگاہ ہے جو بحیرہ ٔعرب کے ساحل پر واقع ہے۔ یہ بندرگاہ وسطی ایشیا، عرب ممالک اور افریقی ممالک سے کاروبار کیلئے ایک مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ ۲۰۰۷ء میں چین کے مالی اور تکنیکی تعاون سے یہاں ایک بڑی بندرگاہ کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا۔گوادر کو ایک پورٹ سٹی کے طور پرترقی دی جا رہی ہے۔کئی بڑے بڑے صنعتی کارخانے بنائے جا رہے ہیں۔ یہاں ایک بین الاقوامی ائرپورٹ، ہسپتال،یونورسٹی، کالج، اسکول ،رہائشی عمارتیںاور بڑی بڑی تجارتی عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔اندازہ ہے کہ آنے والےبرسوں میں گوادر کی آبادی  اسی ہزار سے بڑھ کر بیس لاکھ ہو جائے گی۔ 
پاکستان کو سی پیک سے ہونے والے فوائد: سی پیک سے پاکستان کو کئی فوائد ہوں گے۔پاکستان وسطی ایشیا، یورپ،مشرق وسطیٰ، افریقی ممالک اور چین کے درمیان کاروبار کو مرکز بن سکتا ہے۔فی الوقت ملک بھر میں سڑکیں، شاہراہیں اور ریل کی پٹریاں بچھائی جا رہی ہیں۔پشاور کراچی ریلوے لائن، کراچی سرکیولر ریلویز، ہرریاست کے دارالالخلافہ میں آرینج لائن ٹرین اس منصوبہ کا نیا حصہ ہیں جس سے نہ صرف عوام کو نقل و حمل کی سہولت نصیب ہوگی بلکہ پاکستان کے اندر کاروبار میں وسعت پیدا ہوگی۔ سی پیک منصوبے کے تحت ملک بھر میں پانی،کوئلہ، شمسی توانائی اور ہوا سے پیدا کی جانے والے بجلی کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ ان منصوبوں سے پاکستان کو ۲۰۲۱ء تک ۱۷۰۰۰ میگاواٹ بجلی فراہم ہوگی  جس سے ملک کو درپیش بجلی کی قلت ختم ہوگی۔بہاولپور میں قائد اعظم سولرپارک کو کام مکمل کیا گیا ہے اور اس پارک سے ایک ہزار میگاواٹ شمسی توانائی ملنا شروع ہو گئی ہے۔پاکستان میں بجلی کی قلت ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔اس قلت سے پاکستان کی معیشت کو خالص داخلی پیداوار(جی ڈی پی)میںچھ فیصدکے نقصان سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔بڑے بڑے شہروں میںبجلی کی کٹوتی ہوتی ہے جس سے عوام کو گونا گوں پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔جون ۲۰۱۵ء میں کراچی میںگرمی کی لہر سے ایک ہزار لوگ لقمۂ اجل بن گئے تھے جس کی بڑی وجہ بجلی کی کٹوتی بتائی گئی تھی۔
 سی پیک سے ۲۰۳۰ء تک قریباََ سات لاکھ ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ سی پیک سے چین کی پاکستان میںسرمایہ کاری بڑھ گئی ہے اور مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ پاکستان کا چین اور دوسرے ممالک کے ساتھ کاروبار بڑے گا۔ پاکستا ن کو یہ اُمید ہے کہ باقی ممالک بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کریںگے۔سی پیک کے مکمل ہونے کے بعد جی ڈی پی دو سے ڈھائی فیصد بڑنے کا امکان ہے۔ساتھ ہی ساتھ پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر سیاسی اہمیت میں اضافہ ہوگا اورملک میں شورشوں میں کمی آسکتی ہے ا ور پاکستان کا’’ـوژن۔۲۰۲۵ ‘‘ پروگرام کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے جس کے تحت  ۲۰۲۵ء تک  پاکستان کا شمار دنیا کی ۲۵؍ویں بڑی معیشتوں میں ہوگا اور فی کس سالانہ آمدنی  ۱۲۹۹ ڈالر سے بڑھ کر  ۴۲۰۰ ڈالر ہوجانے کا امکان ہے۔
چین کے فوائد: سی پیک سے چین کو سیاسی اور اقتصادی سطح پر اہم فوائد ہیں۔چین کے لئے اس منصوبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان میں ۵۶؍ ارب ڈالر رمالیت کی خطیر سرمایہ داری کر رہے ہیں،وہ بھی اس وقت جب کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کئی اطراف سے سیاسی دبأو میں ہے اور ملک بھر میں دہشت گردی کے کئی واقعات وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ بلوچستان ، جہاں گوادر کی بندرگاہ واقع ہے، میںحکومت کو ان بیرونی ممالک کی شہ پر چلنے والی بلوچ علیحدگی پسند تحریک کا سامنا ہے جو سی پیک منصوبے کی مخالفت اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ ان کی اپنی معیشتیں روبہ زوال ہیں۔ مئی ۲۰۰۴ء میں بلوچ شدت پسندوں نے دو چینی انجینیروںکو ایک کار بلاسٹ میں مار ڈالا تھا۔اب سی پیک منصوبوںکی حفاظت کیلئے پاکستانی فوج نے دس ہزار فوجی جوانوں پر مشتمل ایک ڈویژن کومامور کیا ہے۔اس سال کے اوائل میں چین نے پاکستان کو گوادر بندرگاہ کی حفاظت کیلئے دو بڑے آبدوز مہیا کئے جب کہ دو اور آبدوز زیر تعمیر ہیں۔
 جیسا کہ اوپر کی سطور میں ذکر کیا گیا،ملک بھر میںاُفق تا اُفق صنعتیں پھیل رہی ہیں جن کو رواں دواں رکھنے کیلئے تیل اور گیس کی خاصی ضرورت ہے۔چین تیل کو مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے درآمد کرتا ہے۔ اس کیلئے چین کے آئل ٹینکربحیرۂ عرب سے ۱۶۰۰۰ کلومیٹر کابحری سفرمہینوں میں طے کرتے ہوئے چین کے مشرقی ساحل تک پہنچ جاتے ہیں،جس سے تیزی سے پھیل رہی صنعتیں متاثر ہو رہی ہیں۔ علاوہ ازیں، جنوبی چین کا سمندراور آبنائے ملکہ، جہاں سے یہ آئل ٹینکر گزرتے ہیں، متنازعہ بنتے جا رہے ہیں اور ان پر امریکہ کا اثرا رسوخ بڑھ رہا ہے،جس سے چین کو تیل کی سپلائی خطرہ سے خالی نہیں۔اس صورت حال میں سی پیک چین کیلئے اب شاہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔اب گوادر بندرگاہ سے ذخیرہ کیا ہوا تیل پاکستان کے زمینی راستے سے چنددنوں میں چین پہنچ سکتا ہے۔ ۱۶۰۰۰؍ کلومیٹر کا بحری سفر اب صرف  ۴۰۰۰؍ کلومیٹر کے زمینی راستے میں سمٹ جائے گا جس سے چین کونہ صرف درآمدی خرچہ میں کافی بچت ہوگی بلکہ بحری راستہ کے سیاسی خطروں خاص کر امریکہ کی ممکنہ بلیک میلنگ سے آزاد ہو جائے گا۔سی پیک راہداری سے چین کو روزانہ چھ ملین ڈالر کی بچت ہوگی ۔ایران ۔پاکستان ۔چین گیس پائپ لائن سے چین کے لئے یہ مسئلہ اور بھی آسان ہو جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیااورافریقہ سے تجارت کا آسان راستہ کھل جائے گا۔چین اپنی پیداوار کم مدت میں ان ممالک میں پہنچا سکتا ہے۔اس سے چین کی تجارت ان ممالک سے کئی گنا بڑے گی۔
سی پیک اور کشمیر:   چین کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے والی شاہراہ کو شاہراہ قراقرم کے نام سے جانا جاتا ہے۔شاہراہ قراقرم پاکستان کے گلگت بلتستان میں کھلتی ہے۔ گلگت بلتستان کشمیر کا ایک تاریخی حصہ  رہاہے۔ سی پیک کے تحت یہاں اکنامک زون زیر تعمیر ہے، بہتر ترسیل کیلئے فائبر آپٹکس بچھائی جا رہی ہے، دائیمر ڈیم پر کام جاری ہے جس سے ۱۸۰؍ میگاواٹ بجلی فراہم ہوگی اور انجینیرنگ یونیورسٹی و میڈکل کالج بھی زیر تعمیر ہیں۔ملک بھرمیں شہراہوں کی تعمیرو ترقی سے گلگت بلتستان میں سیاحت بڑنے کا امکان ہے۔ گلگت بلتستان کو کوہ پیماوں کی جنت کہا جاتا ہے۔یہاں پر ۷۰۰۰؍ میٹر پر پھیلے رقبے پر پچاس سے زیادہ پہاڑ ہیں جن میں دو چوٹیاں کے ٹو اور ننگا پربت خاصے مشہور ہیں۔ساتھ ہی ساتھ عطا آباد جھیل کو ترقی دی جا رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں خوبانی کی کافی فصل ہوتی ہے۔ یہاں لگ بھگ خوبانی کے تیس لاکھ پیڑ ہیں جن سے سالانہ ۱۱۴۲۸۶؍ ٹن خوبانی کی پیداوار ہوتی ہے جسے یا تو ملک کے اندر ہی فروخت کیا جاتا ہے یا ہوائی جہازوں کے ذریعے دبئی برآمد کیا جاتا ہے۔سوکھی خوبانی کو اب روس برآمد کرنے کا منصوبہ ہے۔ روس خوبانی کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک ہے۔ اس کے علاوہ یہاں چار ہزار ٹن گلاس اور بیس ہزار ٹن سیب کی پیداوار ہوتی ہے جن کو کم مدت میں شاہراہ قراقرم کے ذریعے چین برآمد کرنے کا پلان ہے۔چین میں میوہ جات کی کافی مانگ ہے۔ ان سب پروجیکٹوں سے گلگت بلتستان میں خاصا جو ش و  خروش ہے ۔  
۱۹۴۷ ء سے پہلے کشمیر شاہراہِ ابریشم سے جڑا ہوا تھا۔کرگل تجارت کا ایک اہم مرکز ہوا کرتا تھا۔سرینگر سے کرگل، کرگل سے اسکردو، اسکردو سے گلگت اور وہاں سے شاہراہ قراقرم کے ذریعے چین کے شہر کاشغر جو شاہراہ ابریشم کا اہم مرکز ہوا کرتا تھا۔کرگل سے اسکردو صرف ۱۷۳ ؍ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اور یہ سفر صرف پانچ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ ۱۹۴۸ ء کی ہندو پاک جنگ کے بعد سے یہ راستہ بند ہے۔ کرگل، سرینگر،بلتستان اور لہیہ سے لگ بھگ ایک ہی دوری پر واقع ہے اور بٹوارے سے پہلے  تجارت کا ایک اہم مرکز ہوا کرتا تھا۔ 
کشمیر میں سیب، خوبانی، چیری، بادام اور اخروٹ کی خاصی پیداوار ہوتی ہے۔ کشمیری زعفران سے کون واقف نہیں؟کشمیر کے قالین اور پشمینہ شال بہت مشہور ہیں۔کشمیر کے کرکٹ بیٹ کھیل کی دنیا میں نہایت عمدہ مانے جاتے ہیں۔ بین الاقوامی مارکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے کشمیر کی انڈسٹری کو بہت نقصان اُٹھانا پڑتا رہاہے اور کھوٹے پیسوں میں بھارتی ریاستوں میں بیچنا  پڑتا ہے۔ کرگل۔اسکردو راستہ کھل جانے سے کشمیر کی اقتصادیات کو کافی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ کشمیر کا مال دنیا کی بڑی بڑی منڈیوں میں کم مدت میں پہنچ سکتا ہے جس سے کشمیر کی اقتصادیات میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے اور سسکتی ہوئی جان بلب صنعتوں کا احیاء کیا جاسکتا ہے۔ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے حال ہی میں یہ راستہ کھولنے کی بات کی تھی، حالانکہ اُنہوں نے سی پیک کے راستے کے استعمال کی نفی بھی کی تھی۔مسئلہ کشمیر حل ہونے سے نہ صرف یہ کہ انسانی جانیں بچ سکتی ہیں بلکہ کشمیر کی صنعتوں کیلئے دنیا کے بڑے بڑے مارکیٹ کھلیں گی جس سے اس خطے میں خوشحالی  اور مالی خود انحصاری آئے گی۔ اس اقتصادی ترقی کا فیضان پورے خطے کو پہنچ سکتا ہے ۔اس ضمن میں اگر ہند پاک دوستی کی فضا میں مسئلہ کشمیر کا حل کشمیر یوں کی آرزؤں اور امنگوں کے مطابق منصفانہ بنیادوں پر ہوتا ہے تو جنوبی ایشیاء میں تعمیروترقی اور خوش حالی کے نئے باب رقم ہو ں گے ۔
 
 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

لورن میں آسمانی بجلی گرنے سے 10بھیڑیں ہلاک
پیر پنچال
بغیر اجازت انشورنس کٹوتی و صارفین کیساتھ مبینہ غیر اخلاقی رویہ بدھل میں جموں و کشمیر بینک برانچ ہیڈ کے خلاف لوگوں کاشدیداحتجاج
پیر پنچال
انڈر 17کھیل مقابلوں میں شاندار کارکردگی | ہائرسیکنڈری اسکول منڈی نے کامیاب کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی
پیر پنچال
نوشہرہ سب ڈویژن میں پانی کی شدید قلت،لوگ محکمہ کیخلاف سراپا احتجاج شیر مکڑی کے لوگوں نے ایگزیکٹیو انجینئر کے سامنے شکایت درج کروائی
پیر پنچال

Related

کالممضامین

سیدالسّادات حضرت میرسید علی ہمدانی ؒ ولی اللہ

June 2, 2025
کالممضامین

شاہ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ کا عرسِ مبارک | الہامی نگرانی اور احتساب کی ایک روحانی یاد دہانی عرس امیر کبیرؒ

June 2, 2025
کالممضامین

شام میں ایک نئی صبح ندائے حق

June 1, 2025
کالممضامین

تمباکو نوشی مضرِ صحت ،آگہی کے ساتھ قانونی کاروائی کی ضرورت سالانہ ایک کروڑافراد لقمۂ اجل اوربے شمار مہلک بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں

June 1, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?