ڈاکٹر سید تابش امام
ملک کی سب سے بڑی عدالت، یعنی عدالت ِ عظمیٰ کے چیف جسٹس بی آر گوئی پر دورانِ سماعت ایک وکیل کی جوتا پھینکنے کی کوشش کو محض جنون یا پاگل پن تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واقعہ صرف ایک شخص کی غیر ذمہ دارانہ حرکت نہیں بلکہ عدلیہ کے وقار، آئین اور جمہوریت کے لیے ایک سنگین خطرے کی علامت ہے۔6اکتوبر کی صبح تقریباً 11:35 بجے، 71 سالہ وکیل راکیش کشور نے چیف جسٹس گوئی پر جوتا پھینکنے کی کوشش کی، مگر سیکورٹی اہلکاروں نے بروقت کارروائی کرکے اسے ناکام بنا دیا۔ عدالت سے باہر نکلتے ہوئے خاطی وکیل نے’’بھارت سناتن دھرم کا اپمان نہیں سہے گا‘‘ کے نعرے لگائے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے نہایت صبروتحمل سے مظاہر ہ کیا اور کہا،’’ان سب باتوں سے پریشان نہ ہوں، ہم پریشان نہیں ہیں، یہ چیزیں مجھ پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔‘‘
یہ جملہ دراصل اُس آئینی وقار اور شخصی متانت کی عکاسی کرتا ہے جو ہندوستانی عدلیہ کی روح میں پیوست ہے۔ مگر افسوس کہ یہ حملہ محض ایک شخص کا جنونی ردِعمل نہیں بلکہ اُس خطرناک رجحان کی کڑی ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے عدلیہ پر دباؤ ڈالنے اور آئینی اداروں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ 16 ستمبر کو چیف جسٹس گوئی نے کھجوراہو کے جاویری مندر میں بھگوان وشنو کی سات فٹ اونچی ٹوٹی ہوئی مورتی کی دوبارہ تنصیب سے متعلق عرضی مسترد کرتے ہوئے کہا تھا:’’جاؤ اور خود بھگوان سے کچھ کرنے کو کہو۔ تم کہتے ہو کہ تم بھگوان وشنو کے کٹر بھکت ہو، تو جاؤ عبادت کرو۔‘‘
چیف جسٹس نے اس عرضی کو “Publicity Interest Litigation” قرار دیا اور وضاحت کی کہ یہ مقام محکمۂ آثارِ قدیمہ کے زیرِ نگرانی ہے، اس لیے کسی بھی تعمیر یا تنصیب کے لیے باقاعدہ اجازت ناگزیر ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ اگر درخواست گزار کو شِو مت سے پرہیز نہیں تو وہ شیو مندر میں پوجا کرسکتا ہے۔
اسی فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر #ImpeachCJI کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ایک منظم مہم شروع ہوئی۔ کئی ہندو تنظیموں نے اسے’’مذہبی توہین‘‘ قرار دیا، جبکہ دائیں بازو کے یوٹیوبر اجیت بھارتی نے اشتعال انگیز انداز میں لکھا:’’یہ تو ابھی شروعات ہے، ایسے بزدل ججوں کے ساتھ سڑکوں پر بھی ایسا ہی ہوگا، اگر وہ ہندوؤں کی تذلیل کریں گے۔‘‘
اسی طرح کوشلیش رائے سمیت کئی عناصر نے چیف جسٹس اور اُن کے اہلِ خانہ کے خلاف کھلی دھمکیاں دیں، جن میں تشدد کے ذریعے’’سبق سکھانے‘‘ کی باتیں شامل تھیں۔
ترنمول کانگریس کی راجیہ سبھا رکن ساگریکا گھوش نے اس واقعہ کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا:’’آن لائن نفرت حقیقی دنیا میں پرتشدد کارروائیوں کو جنم دے رہی ہے۔‘‘
جبکہ کانگریس لیڈر سپریا شرینت کے مطابق,’’یہ مذہب کے خودساختہ ٹھیکیدار نہیں — زومبی ہیں۔‘‘سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے اسے عدالت کی توہین قرار دیتے ہوئے وکیل کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا، جبکہ سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا،’’سوشل میڈیا پر پھیلتی نفرت اور تشدد کو روکنے کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں، کیونکہ یہ جمہوریت اور عدلیہ دونوں کے وقار پر حملہ ہے۔‘‘حیرت انگیز امر یہ ہے کہ حملہ آور وکیل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا رجسٹرڈ رکن تھا اور عدالت کا پراکسی میٹی کارڈ بھی رکھتا تھا، جس سے عدالتی سیکورٹی میں موجود سنگین خامیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
چیف جسٹس گوئی کا تعلق اُس سماجی طبقے سے ہے جو تاریخی طور پر محرومی اور عدمِ مساوات کا شکار رہا ہے۔ اس پس منظر میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ آیا حملہ آور کے رویّے میں طبقاتی یا سماجی تعصب کا پہلو بھی موجود تھا؟چیف جسٹس بی آر گوئی پر جوتا پھینکنے کی کوشش محض ایک انفرادی حرکت نہیں بلکہ ایک خطرناک سیاسی و نظریاتی رجحان کا مظہر ہے —۔ وہ رجحان جو سوشل میڈیا کی نفرت انگیزی اور منظم سرپرستی کے ذریعے آئینی اداروں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ حملہ عدلیہ کی آزادی، آئین کی برتری اور جمہوری نظام کے وقار پر براہِ راست ضرب ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ خاطی کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے اور اُن تمام عناصر کو بے نقاب کیا جائے جو نفرت کو تشدد میں بدلنے کی سازش کر رہے ہیں — تاکہ ہندوستانی عدلیہ کا وقار اور آئینی نظام کی بالادستی برقرار رہ سکے۔تاہم افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مخصوص طبقے اور اس کے حامی میڈیا کے بعض حلقے خاطی وکیل کی ستائش کرتے ہوئے اس اقدام کو درست ٹھہرا رہے ہیں۔ نتیجتاً خاطی وکیل اظہارِ افسوس کے بجائے فخریہ انداز میں میڈیا کے روبرو پیش ہو رہا ہے — جو یقیناً جمہوری اقدار، سماجی ہم آہنگی اور عدالتی وقار، تینوں کے لیے باعثِ تشویش ہے۔
رابطہ۔9934933992
[email protected]