فہم وفراست
عابدحسین راتھر
انسانی شعور کی سب سے بنیادی اور فطری خوبی ‘سوال کرنا ہے۔ بچپن میں جب ہم پہلی بار دنیا کو دیکھتے ہیں، تو کمزور قوتِ استدلال کے باوجود ہمارا پہلا ردعمل حیرت، تجسس اور سوال ہوتا ہے۔ یہ کیا ہے؟ کیوں ہے؟کیسے ہے؟ ان سوالات کو ہم رونے کی شکل میں ظاہر کرتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی سوالات انسان کو علم کی طرف لے جاتے ہیں۔ مگر افسوس! جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے جاتے ہیں، معاشرہ ہمیں خاموش رہنے، نہ پوچھنے اور اپنی لاعلمی چھپانے کا سبق دیتا ہے۔ گویا سیکھنے اور سوال کرنے کی شرمندگی اٹھانے سے لاعلم رہنا بہتر ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں سوال کرنے والوں کو اکثر تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو ہماری انا اور جھوٹی خوداری ہمیں سوال کرنے سے روکتی ہے اور ہم نے بھی اَنا کو علم پر ترجیح دی ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ یہ سوال ہم نے خود سے کتنی بار پوچھا ہے کہ اگر میں نے یہ پوچھ لیا تو لوگ کیا کہیں گے؟ کہیں یہ سوال بچکانہ تو نہیں؟ کہیں لوگ میرا مذاق نہ اُڑائیں؟ اسی جھجک اور شرم میں ہم کتنی ہی بار اپنے علم کی کھڑکیوں کو بند کر بیٹھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سیکھنے کا پہلا زینہ ہی سوال کرنا ہے اور سوال کرنے میں شرمانا علم سے روگردانی کے مترادف ہے۔ امام غزالیؒ نے کیا خوب کہا ہے کہ علم کا طالب اگر سوال سے شرمائے تو وہ ہمیشہ جاہل رہے گا۔
یونانی فلسفی سقراط کا ایک مشہور قول ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ مجھے بس اتنا معلوم ہے کہ مجھے کچھ نہیں معلوم۔ یہ قول بظاہر سادہ لگتا ہے مگر اس میں علم کی گہرائی چھپی ہے۔ یہ جملہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ لاعلمی کا اعتراف کمزوری نہیں بلکہ علم کی طرف پہلا قدم ہے۔ سقراط جانتا تھا کہ علم کا سب سے بڑا دشمن خود کو علم والا سمجھنے کی غلط فہمی ہے۔ یہی وہ زہر ہے جو سوالات کے چشمے کو خشک کر دیتا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً سوال کرنے والے کو کم علم، ناسمجھ یا طفلِ مکتب سمجھا جاتا ہے۔ کلاس روم میں جو طالب علم سب سے زیادہ سوال کرتا ہے وہ اکثر طنزیہ نگاہوں کا شکار ہوتا ہے۔ علمی مجلسوں میں جو شخص بار بار استفسار کرتا ہے لوگ اس سے یہ کہہ کر جھڑک دیتے ہیں کہ بھئی! اتنا سادہ سوال؟ یہ تو سب کو پتہ ہے! مگر یہی ‘سب کو پتہ ہے والی باتیں اکثر ہماری لاعلمی کے سب سے بڑے ثبوت ہوتی ہیں۔
عربی کے مشہور فلسفی ابن رشد کہا کرتے تھے کہ سوالات وہ کنجیاں ہیں جو علم کے دروازے کھولتی ہیں۔ مگر افسوس! ہم نے اپنی کنجیاں خود ہی زنگ آلود کر رکھی ہیں۔ علم کا سفر ہمیشہ سوال سے شروع ہوتا ہے۔ نیوٹن اگر سیب کے گرنے پر سوال نہ اٹھاتا تو کششِ ثقل کی دریافت شاید صدیوں بعد ہوتی۔ آئن اسٹائن اگر ‘وقت اور ‘مکاں کی حقیقت پر سوال نہ اٹھاتا تو نظریۂ اضافیت ہماری کتابوں کا حصہ نہ بنتا۔ آج بھی ترقی یافتہ اقوام کی درسگاہوں میں طلباء کو سب سے پہلے ‘سوال کرنا سکھایا جاتا ہے۔ ان کی تربیت کا پہلا اصول یہی ہوتا ہے کہ ‘کبھی سوال کرنے میں شرم مت کرنا۔ وہ جانتے ہیں کہ نیا علم پرانے سوالوں کو نئے زاویوں سے دیکھنے میں چھپا ہے۔
فرانس کے فلسفی رینی ڈیکارٹ نے اپنی ایک مشہور تصنیف (جس کا اردو ترجمہ ‘طریق اور تفکرات کے زیر عنوان عبدالباری ندوی صاحب نے کیا ہے) میں لکھا ہے کہ اگر آپ واقعی سچائی کے متلاشی ہیں تو کم از کم زندگی میں ایک بار ہر چیز پر شک کرنا ضروری ہے۔ یہ شک، یہ سوالات، یہ تجسس یہی تو علم کی کھاد ہیں۔ مگر ہم تو سوال سے پہلے ہی شرمندگی کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ سوال کرنا کم علمی کی علامت نہیں بلکہ عقلِ سلیم کی دلیل ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں جو شخص زیادہ سوال کرتا ہے اسے بےادب، باغی یا بیوقوف سمجھ لیا جاتا ہے۔ اسی لیے ہمارے بچے میکانکی انداز میں رٹے رٹے سبق دہرا دیتے ہیں، مگر جب زندگی انہیں کوئی نیا سوال دے دیتی ہے تو وہ الجھ جاتے ہیں۔ ایک مشہور جاپانی کہاوت ہے کہ جو سوال کرتا ہے وہ صرف پانچ منٹ کے لیے بے وقوف کہلاتا ہے لیکن جو نہیں کرتا وہ ہمیشہ کے لیے بے وقوف رہتا ہے۔ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ڈر اور خوف کی وجہ سے ہم کلاس روم میں اکثر خاموش رہتے تھے۔ ہم سوال کرنے کو بے ادبی کے مترادف سمجھتے تھے لیکن ہمارے ایک محترم پروفیسر صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ جب تک آپ کے پاس سوال نہیں آپ کے پاس علم بھی نہیں۔ کیونکہ سوال ہی علم کی ابتدا ہے۔ ان کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔ اگر ہم اپنے تعلیمی نظام، سماجی رویوں اور گھریلو تربیت میں ‘پوچھنےکی حوصلہ افزائی کریں تو بچے نیا سوچیں گے، نئی راہیں کھولیں گے۔ لیکن اگر ہم نے انہیں خاموش رہنے، صرف سننے اور سر ہلانے کی مشق کروائی تو ہم ایک مطیع مگر بےعلم نسل تیار کریں گے۔
معروف فلسفی کارل پوپر کہتے ہیں کہ حقیقی جہالت علم کی کمی نہیں، بلکہ اس سے حاصل کرنے سے انکار ہے۔ یہ انکار کبھی ہماری انا سے، کبھی شرم سے اور کبھی معاشرتی دباؤ سے جنم لیتا ہے۔ یہاں پر میں ایک واقعہ درج کرنا چاہوں گا۔ آج سے دو سال پہلے میرے ایک فیس بُک دوست نے اپنے تقریر کی ایک ویڈیو فیس بک پر شئیر کی ،جس میں اس نے ایک شعر کو علامہ اقبال سے منسوب کیا تھا جب کہ وہ شعر اصل میں کسی دوسرے شاعر کا تھا۔ جب میں نے اس بارے میں اس کو انباکس میں مسیج کرکے حقیقت سے آشنا کرانا چاہا تو اس نے وہاں سے مجھے بلاک کیا اور آج تک میرے اس عزیز دوست کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ شاید میری تصحیح سے اس کی انّا کو ٹھیس پہنچی۔ یہی حال ہم سب کا ہے۔ جب بھی کوئی ہمیں نئی چیز سکھانے کی کوشش کرتا ہے یا ہمارے غلط ہونے پر ہماری تصحیح کرنا چاہتا ہے یا تو ہمیں شرم آتی ہیں یا پھر ہماری انا کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ کیونکہ ہماری تربیت ایسے ماحول میں ہوئی ہے جہاں سیکھنے کو معیوب اور باعثِ شرم سمجھا جاتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ اپنے گھروں میں بچوں کو سوال کرنے کی آزادی دیں۔ کلاس رومز میں اساتذہ طلباء کے ہر سوال کو خوش آمدید کہیں۔ مجالس میں نوجوانوں کے استفسارات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور سب سے بڑھ کر ہمیں اپنے آپ میں بھی اپنی عمر، عہدہ اور رتبہ بھول کر، اپنی اَنا کے قلعے کو منہدم کرکے اور جھجھک کی زنجیروں کو توڑ کر سوالات پوچھنے کی عادت پیدا کرنی چاہیے۔ لیکن یہاں پر میں ایک بات عرض کرنا چاہوں گا کہ کچھ سیکھنے کیلئے سوالات پوچھتے وقت ہمارا مقصد دوسرے کے علم کا امتحان کرنے کے بجائے دوسرے سے علم حاصل کرنا ہونا چاہیے۔ کیونکہ کچھ سیکھنے کے لیے نیت کی درستگی بنیادی شرط ہے۔ سوالات ہمیشہ ادب واحترام سے کرنا چاہیے اور سوالات ہمیشہ واضح، مختصر اور مربوط ہونے چاہیے۔ سوال کا جواب ہمیشہ توجہ اور اطمینان سے سننا چاہیے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جواب دینے والے کا ہمیشہ شکر گزار رہنا چاہیے۔ آخر میں سقراط کے ایک اور قول کے ساتھ اپنا مضمون اختتام کرنا چاہوں گا۔ بقول سقراط حیرت ہی دانائی کی ابتدا ہے۔ تو آئیں! حیرت کریں،سوال کریں،اور سیکھنے کے اس عظیم سفر پر شرم کا بوجھ اتار کر نکل پڑیں۔ کیونکہ پوچھنے اور سیکھنے میں بھلا کیسی شرم؟
رابطہ ۔7006569430
[email protected]