مشتاق مہدی
کالی گول کوٹھری کے اندر جو سیوچ بوڈ لگا ہوا ہے۔اُس پر مختلف قسم کے نشان اور نمبر ہیں ۔برابر نو سیوچ ہیں اور نو ہی نمبر بھی
پتہ نہیں۔۔۔۔۔۔کون ہے وہ ؟اُس سیاہ کوٹھری کے اندر بیٹھا ۔۔۔جو یہ نمبر تبدیل کردیتا ہے اور نمبر تبدیل ہونے کے ساتھ ہی سامنے کا منظربھی بدل جاتا ہے ۔چند لمحے پہلے میرے کانوںمیں ہلکی سی آواز آئی۔۔۔کرچ ۔یہ جان لینے میں دیر نہیں لگی کہ کوٹھری کے اندر بیٹھا کوئی سیوچ بوڈ کے ساتھ چھیڑ خوانی کررہا ہے۔ پھر اُس نے سیوچ بوڈ کا نمبر تبدیل کیا ۔نمبر تبدیل ہوا تو میری آنکھوں کے سامنے کا منظر بھی بدل گیا ۔
دھوپ جو ابھی مجھ سے لپٹی تھی ۔سیاہ بوجھل رات میں تبدیل ہوگئی ۔اور ساری کہانیاں ،میرا ساراگیان ۔۔۔۔ہوا کے شکم میںگم ہوکے رہ گیا۔پھر ایسا ہوا ۔ شہر کی تاریک گلیوں سے عجیب سا لباس پہنی پرچھائیاں باہرنکل آئیں۔وہ دیر تک چیخنے اورچلانے لگیں۔۔۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے اونچی آواز میں گانا شروع کیا ۔
ہو۔۔۔ہے ۔۔۔ہا۔۔۔ہانگلہِ ہو
چھے۔۔۔چھو ۔۔۔چھا۔۔۔چھانگرِ چھو
ہانگلہِ ہو چھانگرِ چھو ۔۔ہانگلہِ ہو۔۔۔۔ گانے کے ساتھ بے ڈھنگا رقص بھی تھا اور شور بھی۔۔۔۔۔۔
میرا سر چکرانے لگا۔ایسا لگا بے ہوشی طاری ہونے والی ہے۔میں نے جلدی سے کانوں میں انگلیاں بھر دیں۔خوف اور بے چینی کے عالم میں اچانک ہی اس احساس نے گرفت ِ بلاکردیا کہ شک کے پیڑ کا پھل پوری طرح پک چکا ہے ۔سیاہ گاڑھا پانی ہر شاخ سے رِس رہا ہے ۔پھر وحشت اور برہنہ دیوانگی کی حالت میں یہ زہرمیں نے کس کس پیالے میں بھر دیا۔کس کس کو اس کی تلخیوں میں ڈبو دیا۔مجھے یاد نہیں۔۔۔جانتے ہیں تو صرف وہ جن کے ہاتھوں میں خالی پیالے تھے ۔جن سے میرا معاملہ چل رہا تھا۔اسی کیفیت واضطراب میں ایک عرصہ گزرگیا۔مجھ پر غنودگی چھاگئی تھی۔
کرِچ کی آواز سنائی دی تو میں بیدار ہوگیا۔
نہیں نہیں ۔ تم جو سوچ رہے ہو ۔۔۔۔۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔۔۔
سب تیرا وہم ہے
بدگمانی پھیلانا لہو میںدوڑتے دشمن کا کام ہے
سب لوگ ایک ہی شراب نہیں پیتے ۔۔۔۔۔
ایک ہی درد کو لے کر نہیں جیتے ۔۔۔۔۔
شرابیں مختلف ہیں۔۔۔درد ا لگ الگ ہیں اور کتابیں جدا ۔۔۔۔۔
اب میں دوسری قسم کی آوازیں سن رہا تھا۔ٹھنڈی میٹھی اور حوصلہ بخش۔۔۔۔۔میں چونک پڑتا ہوں۔
سوچتا ہوں۔موسم بدل گیا ہے۔سیوچ بوڈکا نمبر تبدیل کیا گیا ہے۔یکایک ہی روشنی کا ایک ہالہ سا میرے اندر باہر پھیل جاتا ہے۔ خوشبوئیں میری سانسوں کو مہکانا شروع کرتی ہیںاور روٹھے ہوئے پرندے واپس لوٹ آکر ایک نیا گیت شروع کرتے ہیں
ایک تھا باغ۔۔۔تھے وہاں پھول۔۔۔تتلیاں اوربے شمار گُل ۔۔۔۔۔۔تاج پہنے خوش بلبل
چاہتیں تھیں۔۔۔راحتیں بھی ۔۔۔اور رنگین ساعتیں بھی ۔۔۔۔
موت موسم کی آہٹیں بھی ۔۔۔
اب میں خود کو کسی قدر مطمین اور مسرور پاتا ہوں ۔لیکن میں جانتا ہوں۔
اجنبی ہاتھ اس نمبر کو بدل دیں گے ۔پھر دوسرے نمبر کی نئی راگ ہوگی۔
پھر تیسرے اور چوتھے نمبر کی ۔۔۔۔۔نواں نمبر آخری ہوگا۔پھر کہانی دوبارہ ایک سے شروع ہوجائے گی۔ اجنبی ہاتھوں نے شاید ایک ہی کے نمبر کوچُھوا ہے۔کوئی کہتا ہے مجھے۔۔۔۔۔
جب کچھ بھی نہیں تھا۔تب بھی میں تھااور یہ سب کچھ جو تیرے سامنے پھیلا ہوا منظر نامہ ہے ۔میرا ہے۔۔۔
یہ سن کے میری سانسیںاندر ہی اندر مہکنے مچلنے لگتی ہیں۔میں بے تاب سا ہوجاتا ہوں۔یکایک سارے منظروں کو ۔۔۔سارے رنگوں کو اور ساری سیاہیوں کو ایک ساتھ پی لیتا ہوں۔ تمام مورتیوں کو دیوانہ وار چومتا ہوں۔اور پھر بے خود سا ہوجاتا ہوں۔
ہوش آتا ہے تو کیا دیکھتا ہوں۔دو لمبے سیاہ ہاتھ سفید مورتیوں میں سے (جو اُس کی تخلیقات ہیں)
باہر نکل آتے ہیں۔اورمجھ پر سنگ باری شروع کردیتے ہیں۔
میرا انگ انگ خون میں تر بہ تر ہوجاتا ہے
میں چیختا۔۔۔چلًاتا ۔۔۔چکراتا ہوا گِر جاتا ہوں
اور پھرپتھر کے روپ میں ڈھل جاتا ہوں۔کچھ ہی وقفہ بعد ایک آواز ہوا میں گونجتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ
نمبر بھی تبدیل ہوگا۔اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے ۔کچھ دیر بعدنمبر تبدیل ہوتا ہے !
���
مدینہ کالونی، ملہ باغ حضرت بل سرینگر،موبائل نمبر؛9419072053