سرینگر// ریاست میںاشیاء و خدمات ٹیکس(جی ایس ٹی) قانون کی موجودہ ہیت میں اطلاق کو براہ راست ریاستی آئین پر حملہ قرار دیتے ہوئے سیاست دانوں، صنعت کاروں،قانون دانوں، ماہرین مالیات، تاجروں اورمتحرک سیول سوسائٹی کارکنوں نے یک زباں میں متبادل راستوں کا انتخاب کرنے کا مشورہ دیا۔گول میز کانفرنس کے دوران اس بات پراتفاق رائے پایاگیا کہ اگر جی ایس ٹی کو موجودہ صورت میں لاگو کیا گیا تو سیول نافرمانی کی تحریک شروع کی جائے گی اور اس کے جو نتائج برآمد ہونگے اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔انہوں نے واضح کیا کہ آئین ہند کی 101ویں ترمیم لاگو کرنے سے نہ صرف ریاست کی سیاسی اور مالی خود مختاری کو دائو پر لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ یہ عمل ریاست کی خصوصی پوزیشن مسخ کرنے کی سازش ہے۔ متحرک سیول سوسائٹی ’’کشمیر سینٹر فار سوشیل اینڈ ڈیولپمنٹ اسڈئز‘‘کی طرف سے منعقدہ گول میز کانفرنس میں مین اسٹریم سیاسی جماعتوں اور تاجرں و صنعت کاروں کی انجمنوں کے نمائندوں نے ریاستی سرکار پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر خزانہ فریقین کو سرسری لئے رہے ہیں۔جسٹس(ر) حسنین مسعودی نے جی ایس ٹی کے قانونی اور آئنی پہلوں کو اجاگر کرتے ہوئے اس قانون کو نافذ کرنے کو’’ سرجیکل اسٹریک ‘‘سے تعبیر کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ قانون کے اطلاق کیلئے ریاست میں اتفاق ہونا چاہے،مشاورت سے ہی کام نہیں چلے گا۔جسٹس(ر) حسنین نے کہا کہ یکساں سیول کوڈ اور اب یکساں ٹیکس کا اطلاق صرف بالادستی قائم کرنے کا ایک منصوبہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر جی ایس ٹی کو موجودہ صورت میں لاگو کیا گیا تو یہ ریاست کی مالی اور سیاسی خود اختیاری کیلئے ایک بڑا دھچکہ ثابت ہوگا۔سابق جج نے واضح کیا کہ ریاست میں268Aلاگو نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے سوالیہ انداز میں حکومت سے پوچھا کہ269Aکی کس طرح ترمیم کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ سرکار ریاست میں وہ چیزیں فروخت کرنا چاہتی ہے،جو اس کے حد اختیار میں ہی نہیں۔متواتر حکومتوں پر چوٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دفعہ370بھارت اور ریاست کے درمیان پل میں ایک سرنگ کی حییثت رکھتا ہے،جس کا دوروازہ حصول اقتدار کیلئے بار بار سیاسی جماعتوں نے کھول دیا۔ جسٹس(ر) حسنین مسعودی نے کہا’’ ریاست کے پاس کیا بچے گا،انہیں ٹیکس لگانے،کسی چیز کو مستثنیٰ رکھنے اور ٹیکس کی شرح طے کرنے کا بھی اختیار نہیں ہوگا۔ فیڈریشن آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کشمیر کے سابق صدر شکیل قلندر نے کہا کہ ریاستی سرکار کو شائد جی ایس ٹی کو موجودہ حالت میں لاگو کرنے کے نتائج کا انداہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا’’1865میں شالبافوں نے ٹیکس میں اضافے کے خلاف ہی احتجاج کیا تھا ،جس کے دوران راج کاک دھر کی ہدایت پر پولیس ایکشن میں درجنوں کشمیری شالباف جان بحق ہوئے تھے،اور اب راج دھر کاک کا صرف چہرہ بدل گیا ہے اور جی ایس ٹی کے اطلاق کے بعد ان اشیاء پر ٹیکس ادا کیا جائے گا جو اس سے مستثنیٰ تھیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ دست کاری اور سوکھے میوہ جات جن میں اخروٹ،بادام اور خوبانی جیسی اشیاء شامل ہیں، پھر سے ٹیکس کے دائرے میں آئے گی،جس کی وجہ سے یہاں کی معیشت کو ضرب لگ جائے گی۔شکیل قلندر نے کہا کہ دیگر ریاستوں میں پھیری والوں کے کام پر بھی پابندی ہوگی اور انہیں رجسٹریشن کرنی ہوگی جبکہ ریاست میں قریب7لاکھ50ہزار لوگ غیر منظم شعبے میں کام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک ماہ سے خفیہ طور پر رجسٹریشن کا کام شروع کیا گیا ہے اور صرف5ہزار کی رجسٹریشن ہو پائی ہے۔ انہوں نے سوالیہ اندازمیں کہا کہ ساڑھے7لاکھ لوگوں کی رجسٹریشن میں کتنا وقت لگ جائے گا۔ شکیل نے کہا کہ نہ ہی اب سرکار کے ہاتھوں میں ٹیکسوں میں چھوٹ کا اختیار ہوگا اور نہ ہی کسی شئے یا اشیاء کو ٹیکسوں سے مستثنیٰ رکھنے کا اختیار ہوگا۔قلند نے اعدادو شمار ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برس ریاست کو 1560روپے سروس ٹیکس جبکہ700کروڑ گزر(چنگی) ٹیکس حاصل ہوا،جبکہ وزیر خزانہ کی دلیل ہے کہ1500کروڑروپے کا ٹیکس جی ایس ٹی سے حاصل ہوگا،جو اس ٹیکس سے کم ہے جو فی الوقت ریاست حاصل کر رہی ہے،نیز جی ایس ٹی کے ٹیکس میں مرکز کی حصہ داری بھی ہے۔ ممبر اسمبلی کولگام محمد یوسف تاریگامی نے جی ایس ٹی کو موجودہ ہیت میں لاگو کرنے کے عمل کو آئین کی بنیاد پر حملہ قرار دیا۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ ستمبر2016میں جی ایس ٹی کونسل کی پہلی میٹنگ منعقد ہوئی،اور تب سے ریاستی حکومت کو اپوزیشن اور دیگر فریقین کی یاد نہیں آئی اور اب سب کچھ تیزی کے ساتھ نپٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔سی پی آئی ایم لیڈر نے جی ایس ٹی کونسل کے قیام پر سوال پیدا کرتے ہوئے کہا کہ آہستہ آہستہ ریاست کے مالی اختیارات کو محدود کیا جا رہا ہے۔ تاریگامی نے کہا’’لوگ مرگئے،لوگ مر رہے ہیں،اور اب ان کو کیا تحفہ پیش کیا جا رہا ہے‘‘۔ سابق وزیر غلام حسن میر نے کہا کہ سرکار اب تک ترمیم شدہ جی ایس ٹی مسودہ پیش کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں،جس کی وجہ سے لوگوں اور فریقین میں خدشات ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر ترمیم شدہ جی ایس ٹی مسودہ ریاست کی مالی اور سیاسی خود مختاری کے حق میں ہوگا،تو اس کو لینے میں کوئی بھی قباحت نہیں۔،تاہم انہوں نے واضح کیا کہ موجودہ صورت میں جی ایس ٹی کے اطلاق سے جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو زک پہنچنے پر بحث ہی نہیں کی جاسکتی،کیونکہ یہ عیاں ہے کہ ریاست کے آئین پر ضرب لگ جائے گی۔انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ جلد بازی سے قانون کو نافذ کرنے کے بجائے اس پر ماہرین سے مشورہ لینے اور فریقین کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔انجینئر رشید نے منفرد انداز میں کہا کہ وزیر خزانہ شائد وزیر اعلیٰ کو نظر انداز کر رہے ہیں،کیونکہ وزیر اعلیٰ نے کل جماعتی میٹنگ کے دوران اس پر بحث کرنے اور فی الحال التواء میں رکھنے کی بات کی تھی۔انہوں نے الزم عائد کرتے ہوئے کہا’’ وزیر خزانہ شاید کسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں‘‘۔انجینئر رشید نے کہا کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ جب ریاستی پرچم کو لہرانے کی بات کی گئی تھی تب بھی اسی طرح کی صورتحال پیش آئی تھی،اور لوگ بھی سامنے نہیں آئے۔ ’’کشمیر سینٹر فار سوشیل اینڈ ڈیولپمنٹ اسڈیز‘‘ کی سربراہ پروفیسر حمیدہ نعیم نے کہا ’’ ماضی میں جب آئین کو مسخ کیا گیا تو اس وقت متحرک سیول سوسائٹی نہیں تھی،اور ان حکومتوں کو جو مرضی ہوا وہ کیا،تاہم آج سیول سوسائٹی متحرک ہے‘‘ اور ریاستی آئین کو زک پہنچانے کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔عبدالمجید زرگر نے کہا کہ2010میں جب جموں کشمیر بنک کو ریزرو بنک کے حوالے کیا گیا تو اس وقت بھی سابق حکومت نے اس کے فائدے گنوائے تھے تاہم ان فائدوں کو لوگوں نے نہیں دیکھا،مگر نقصانات سے دو چار ہوئے۔زرگر نے کہا کہ اسی طرز پر اب موجودہ حکومت بھی جی ایس ٹی کی قصیدہ خوانی کر رہی ہے،تاہم اس سے مالیاتی اختیارات کا سرنڈر کرنے پڑے گا۔گول میز کانفرنس میں نیشنل کانفرنس کے صوبائی سیکریٹری شوکت احمد میر، کشمیر اکنامک الائنس دھڑے کے ترجمان اعلیٰ سراج احمد سراج،زیڈ جی محمد اور محمد شفیع پنڈت نے بھی اپنے تاثرات پیش کئے۔کانفرنس میںگول میز کانفرنس میں ہوٹلرس کلب،متحرک شہری گروپ،آر ٹی آئی مومنٹ،کولیشن آف سیول سوسائٹز، نیشنل کانفرنس،سی پی آئی ایم،عوامی اتحاد پارٹی، کشمیر چیمبر آف کامرس ایند انڈسٹریز، فیڈریشن چیمبر آف انڈسٹرز کشمیر،کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرس فیڈریشن،کشمیر اکنامک الائنس،چیمبر آف کامرس انڈسٹریزکشمیر،ئنگ انٹر پرینرس فورم،قلمکار،قانون دان اور ماہرین تعلیم موجود تھے۔