عظمیٰ نیوزسروس
گاندربل// مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے ہفتہ کو اس بات پر زور دیا کہ یونیورسٹیوں کو محض تعلیمی مرکز بننے کے بجائے اختراع، سماجی تبدیلی، اور تہذیبی تجدید کے ادارے بننے کیلئے تیار ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا ،’’یونیورسٹیاں صرف عمارتوں کا مجموعہ نہیں ہیں، بلکہ ثقافتوں، روایات اور جذبات کی جڑیں ہیں، جو ہندوستان کے تاریخی اور فلسفیانہ اخلاقیات میں پیوست ہیں۔‘‘ دھرمیندر پردھان جموں و کشمیر اور لداخ کی سینٹرل یونیورسٹی کے زیر اہتمام’این ای پی 2020 نفاذ: حکمت عملی، ہم آہنگی، اور پائیدار ایکشن کنکلیو سے خطاب کررہے تھے۔
کشمیر کو’تہذیبی حکمت کی نشست‘ قرار دیتے ہوئے، انہوں نے خطے کے تاریخی ورثے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا،’’قدیم علمی نظام اور فلسفے میں اس کی شراکت سے لے کر تصوف، بدھ مت اور اسلامی ثقافت پر اس کے اثرات تک، اس سرزمین نے انسانیت کو روحانی اصلاح اور فلسفیانہ سفر کا تحفہ دیا ہے۔‘‘سماجی ضروریات کے ساتھ تعلیم کو ہم آہنگ کرنے کے لیے یونیورسٹیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے، انہوں نے ایک مقامی سکول کے لڑکے کی ایک متاثر کن مثال بیان کی، جس نے کشمیر میں کانگری صارفین کیلئے کاربن مونو آکسائیڈ سینسر تیار کیا۔ اگر ایک سکول کا لڑکا اپنے مقامی حالات کیلئے اختراعات کر سکتا ہے، تو یونیورسٹی کا پروفیسر کیوں نہیں کر سکتا؟ انہوں نے یونیورسٹیوں پر زور دیا کہ وہ خطے کے لیے مخصوص حل تیار کریں اور تحقیق میں مشغول ہوں جس سے معاشرے کو واضح طور پر فائدہ ہو۔ پردھان نے بین ادارہ جاتی تعاون تعاون پر زور دیا کہ وہ بہترین طریقوں کا اشتراک کریں، مشترکہ تحقیق کریں اور کثیر الشعبہ اختراع کی سمت کام کریں۔ انہوں نے اس اہم تقریب کی میزبانی کیلئے سینٹرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر رویندر ناتھ کی کوششوں کو سراہا۔قبل ازیں شانت مانو، فائنانشل کمشنر اور ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری نے اپنے خطاب میں قومی تعلیمی پالیسی کے تحت اعلیٰ تعلیم کو از سر نو تشکیل دینے میں خطے کی ترقی پسند کوششوں کا ایک جائزہ پیش کیا۔ وزیر تعلیم نے سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے نئے لوگو کی نقاب کشائی بھی کی۔سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے وائس چانسلر پروفیسر اے رویندر ناتھ نے اپنے خطاب میں منصوبہ بندی، ادارہ جاتی ہم آہنگی، اور پائیدار کارروائی کے ذریعے ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی ماحولیاتی نظام کی بحالی کے لیے ایک جامع خاکہ پیش کیا۔