گریجویشن کا آخری سال تھا۔ ادیبہ زندگی کے اس مقام پر کچھ زیادہ ہی شوخ اور بیباک ہوئی جا رہی تھی۔ ویسے ادیبہ کی بیباکی نے اصل میں شوخی کو بھی پیچھے چھوڑ دیاتھا۔آج ایجوکیشنل ٹور کا آخری دن تھا۔ ادیبہ کے کالج کا گروپ رائے گڑھ کے قلعے پر موجود تھا۔ ادیبہ اور خیام ہمیشہ کی طرح سب سے پیچھے چل رہے تھے۔ خیام خوبصورت ، دبلا پتلا لیکن تندرست نوجوان تھا۔ ادیبہ ناگپور کے سنترہ ایکسپورٹرکی اکلوتی لڑکی ہے۔ خیام کے ہمراہ چلتے چلتے ادیبہ قلعے کے ایک خوبصورت محراب کو دیکھ وہیں رک گئی۔
"خیام ذرا ٹھہر جاؤ، مجھے ایک سیلفی لینی ہے۔"
محراب کو دیکھتے ہوئے ادیبہ نے کہا اور نظریں بنا محراب سے ہٹائے ہاتھوں کے اشارے سے موبائل مانگتی ہے۔
"ادیبہ، ادیبہ! کتنی مرتبہ میں نے سمجھایا کہ یہ سب مت کیا کرو۔۔۔ مگر تم ہو کہ نہیں مانتی۔۔۔! ماننے کا جذبہ پیدا کرو ادیبہ۔۔۔ نہیں تو کم از کم گود ہی لے لو، مجھ سے۔ "یہ کہتے ہوئے خیام کے لبوں پر مسکراہٹ صاف دیکھی جا سکتی تھی۔
"اوہو! کیا کہنے ہیں ماننے کے ننھے منے جذبوں کے والد محترم"۔ اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر ادیبہ بول اٹھی۔
"جی! ضد، ہٹ دھرمی اور من مانی کی امی جان، فرمائیں" دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر خیام نے کہا۔
"مجھے اس محراب کے ساتھ ایک سیلفی لینی ہے۔"
"کتنی مرتبہ کہا ہے یوں تصویریں مت کھینچا کرو"
"تم ایسے بھڑک کیوں جاتے ہوخیام، سیلفی کے نام پر تصویر ہی کھینچ رہی ہوں کوئی تمہارے کان نہیں کھینچ رہی۔۔!"
"یہ لو! سیلفی کوئین۔۔۔ کھینچ لو میرے کان مگر موبائل فون کو بخش دو پلیز "
"خیام ! تم ہر وقت مجھے اس طرح کیوں روکتے ہو؟ مجھے یہ تمہاری ساسو ماں ٹائپ روک ٹوک بالکل پسند نہیں۔"
"اف! ادیبہ جب ان تصویروں میں جان ڈالنی ہو گی تو کہاں سے لاؤگی جان۔"
"ہاہاہا او گاڑ ! مجھے تم سے اتنے پرانے اور دقیانوسی ایکسکیوزکی قطعی امید نہ تھی۔"
"میری بات، میری خواہش کو تسلیم نہیں کرنا۔۔۔ تو نہ کرو! مگر اسے دقیانوسی مت کہو۔۔۔ پلیز۔"
"او۔خیام ! تم سمجھتے کیوں نہیں، کیا آئینہ دیکھنا غلط ہے؟ نہیں نہ۔۔۔ تو سیلفی بھی ایک قسم کا آئینہ ہی سمجھو۔ ہم کیسے نظر آ رہے ہیں؟ ہمارے چہرے پر کوئی داغ تو نہیں؟ ہمارے بال سلیقے سے ہیں یا نہیں؟ بس ان تمام باتوں کا جائزہ ہے سیلفی، اور کیا ہے؟"
"اوکے! لے لو سیلفی۔۔۔ مگر اسے برائے مہربانی کسی سوشل سائٹ پر اپلوڈ مت کرنا۔"خیام قلعے کی دیوار کی دوسری جانب گہری کھائی کو دیکھتے ہوئے کہتا ہے اور بیگ میں موبائل ڈھونڈنے لگتا ہے۔
"اف یہ بندشیں ، یہ بندھن یہ روک ٹوک ، میں تو پریشان ہو گئی ہوں خیام! تم کون سی دنیا کے آدمی ہو؟"
خیام ادیبہ کے بیگ سے موبائل فون نکال کر دیتا ہے، ادیبہ موبائل لے کر سیلفی لینے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ اپنے گالوں کو کھینچ کر ہونٹوں کو سیلفی کے مخصوص انداز میں تبدیل کرتی ہے اور مختلف زاویوں سے سیلفی لیتی ہے۔ ادیبہ کی آنکھوں میں ڈھیروں لائکس اورکمنٹس تیرتے ہوئے، خیام کسی بت کی مانند دیکھتا ہے۔ ادھربے خبر ادیبہ خوبصورت محراب اور موبائل اسکرین کے درمیان شاد و شاداب ہوئی جاتی ہے۔ تبھی اچانک خیام اپنے بیگ سے ایک ایئررنگ نکالتا ہے اور سامنے قلعے کی منڈیر پر اپنا اور ادیبہ کا بیگ رکھ کر کچھ سوچتا ہے۔ یہ ایئررنگ دراصل سمندر کے دو خوبصورت سیپوں سے بنے منفرد انداز کے تھے جسے وہ ادیبہ کے کانوں میں جھولتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔ خیام دوبارہ ادیبہ کی جانب مڑتا ہے اور کہتا ہے۔
"ادیبہ میں تمھیں کچھ دینا چاہتا ہوں۔"
" فرمائیے جناب۔۔۔!، ہاں مگر پلیز کچھ اوٹ پٹانگ مشورہ مت دے دینا۔۔۔! وہ بھی فری میں۔"
"ادیبہ یہ ایئررنگ کیسا ہے؟"
"ہاہاہاہا خیام یہ موہنجوداڑو کے زمانے میں پہنے جانے والے ایئررنگ کس کے لیے لائے ہو؟ اپنی رمشا کے لیے۔"
"میں نے کتنی بار کہا ہے۔۔ رمشا کے بارے میں ایسا مت کہا کرو،ہم صرف دوست ہیں اور کچھ نہیں۔۔۔ یہ تو میں نے تمہارے لئے خریدا ہے، لونا۔۔۔ ذرا پہن کر دکھاؤ۔"
"کیا کہا دوست ہو تم دونوں؟ ارے جس طرح بابا آدم کے زمانے کے خیالات ہیں تمہارے، اس حساب سے تو وہ رمشا ہی ٹھیک ہے تمہارے لئے۔"
"نہیں ادیبہ میں نے یہ تمہارے لئے ہی لیا ہے اسے قبول کر کے مجھے بے پناہ خوشیاں دے دو، میں تم سے۔۔۔۔"
"خیام آگے کچھ نہ کہو ہم دونوں دوست ہیں صرف دوست، جیسے تم اور رمشا صرف دوست ہو۔۔۔ ویسے ہی دوست ہیں دوست۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو۔اوکے۔"
خیام، ادیبہ کی ان باتوں کی الجھن میں اس طرح الجھتا ہے کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آتا۔ ادیبہ اوپر کی طرف اور وہ نیچے کی طرف جانے لگتا ہے۔ اس کے خیالات کے آسمان پر بے شمار سوالات ٹمٹمانے لگتے ہیں۔ان سوالوں کے جواب ڈھونڈتے ہوئے نیچے بس میں جا کر سامنے والی سنگل سیٹ پر جا کر بیٹھ جاتا ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے امتحانات بھی ہو جاتے ہیں اور آخری سمیسٹر کے نتائج بھی اعلان کر دیے جاتے ہیں۔ کالج کے سیمینار ہال میں کامیاب طلبہ و طالبات کو ڈگریاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ امتیازی نمبروں سے کامیابی کے لیے خیام اور رمشا کا شاندار استقبال کیا جاتا ہے۔ الوداعی تقریب کے بعد خوب سیلفی کے دور چلتے ہیں۔ ایک آخری اور یادگار سیلفی کے لیے ادیبہ خیام کو بے صبری سے چاروں طرف ڈھونڈتی ہے مگرخیام نہ جانے کہاں تھا، ادیبہ کو نظر نہیں آتا۔ خیام کی تلاش میں ادیبہ جب سیمینار ہال کے زینوں سے اتر کر نیچے آتی ہے تو اسے وہاں رمشا نظر آتی ہے۔ رمشا اس سال کی ٹاپر تھی اس لیے سارے اس کے ساتھ سیلفی لینے میں مشغول تھے تبھی ادیبہ بھی رمشا کے ساتھ ایک سیلفی لیتی ہے۔ دھیرے دھیرے سب اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں۔ ادیبہ کی خیام کے ساتھ آخری سیلفی لینے کی حسرت اس کے سینے میں دبی رہ جاتی ہے۔
رات کو موبائل پر الوداعی تقریب کی تصویریں دیکھتے دیکھتے ادیبہ کی نگاہیں اچانک اس سیلفی پر رک جاتی ہے جس میں اس کے ساتھ رمشا تھیں۔ تصویر دیکھ کر وہ حیران رہ جاتی ہے۔ بار بار زوم کر کر کے تصویر کو دیکھنے لگتی ہے۔ رمشا کے کانوں میں سیپ کے وہی ایئررنگ بہت خوبصورت نظر آرہے ہیں جو خیام نے ادیبہ کے لیے خریدا تھا۔ ادیبہ کے ہاتھ سے موبائل نیچے زمین پر گر جاتا ہے وہ بدحواسی میں اٹھتی ہے اور آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے خالی کانوں کو نہارتی رہتی ہے اور اس کے بے رنگ کانوں میں اسی کی آواز گونجتی ہے۔
"او۔خیام ! تم سمجھتے کیوں نہیں، کیا آئینہ دیکھنا غلط ہے؟ نہیں نہ۔۔۔ تو سیلفی بھی ایک قسم کا آئینہ ہی سمجھو۔ ہم کیسے نظر آ رہے ہیں؟ ہمارے چہرے پر کوئی داغ تو نہیں؟ ہمارے بال سلیقے سے ہیں یا نہیں؟ بس ان تمام باتوں کا جائزہ ہے سیلفی، اور کیا ہے؟"
٭٭٭
ڈاکٹر شیخ بنکر کالونی ، کامٹی ۴۴۱۰۰۱ضلع ناگپور
، موبائل : 09326669893