سرینگر//آفات سماویٰ کیلئے رقومات میں سے 25فیصد فنڈس غیر ضروری کاموںکو منتقل کرنے کا انکشاف کرتے ہوئے کمپٹولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا نے2014کے تباہ کن سیلاب کے دوران ریلیف اور معاونت کی تقسیم کاری پر بھی سوالات کھڑے کئے ہیں۔ آفات سماویٰ سے نپٹنے کیلئے محکمہ ڈیزاسٹر منیجمنٹ کی مایوس کن تصویر پیش کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ’’سٹیٹ ڈئزاسٹر منیجمنٹ ریسپانس فنڈ‘‘ سے 2010 سے 2015تک ایک ہزار369 کروڑ16لاکھ روپے میں سے25فیصد رقومات یعنی 342 کروڑ 43 لاکھ روپے کو غیر ضروری کاموں کیلئے منتقل کیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تصرف کو یا تواضافی ادائیگی کھاتے میں دکھا کر خرچ کی گئی،یا تو اعلیٰ قیمتوں پر خریداری کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماضی قریب میں خطرناک صورتحال اور آفات سماویٰ کے کئی واقعات کے باوجود ریاستی حکومت کی طرف سے تیار رہنے اور ان کے اثرات کو کم کرنے کیلئے جو کام ہاتھوں میں لئے گئے وہ اصل سے مطابقت نہیں رکھتے۔ آڈیٹر جنرل آف انڈیا کا کہنا ہے کہ تیاری اور عمل میں کمی کے علاوہ اندرونی کنٹرول و نگرانی نظام ضروری ہے تا کہ آفات سماویٰ بشمول2014کے تباہ کن سیلاب کے بعد بروقت ریلیف و بازآبادکاری فراہم کی جائے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ کنبوں کیلئے ریلیف میں تاخیر اور سیلاب ریلیف فنڈس کی منتقلی کیلئے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کیگ نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ خصوصی پلان معاونت کے تحت2014کے سیلاب سے متاثرہ ڈھانچے کی تعمیر نو کیلئے ایک ہزار کروڑ واگزار کیا گیا،تاہم اس میں سے4کروڑ66لاکھ روپے سپیشل پلان کے ضوابط کے خلاف تصرف میں کیا گیا جبکہ37کروڑ58لاکھ روپے کی رقم غیر تعمیری کاموں میں خرچ کی گئی۔رپورٹ کے مطابق ایس ڈی آر ایف کا27کروڑ36لاکھ رپے کی رقم غیر اہم کاموں اور مرمت کیلئے تصرف میں لایاگیا،جبکہ آڈٹ کے دوران یہ بھی پایا گیا کہ31کروڑ44لاکھ روپے کی رقم7محکموںکو واگزار کی گئی،جو ایس ڈی آر ایف کے ضابطے میں نہیں آتے ۔ آڈیٹر جنرل کا کہنا ہے کہ اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ14کروڑ97لاکھ روپے کی رقم ان اشیاء پر خرچ کی گئی جو سیلاب کے نقصان کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ12کروڑ25لاکھ روپے کی رقم ایک ہزار28کاموں پر سیلاب سے قبل خرچ کی گئی جبکہ10کروڑ21لاکھ روپے کی رقم ضوابط کے برعکس خرچ کی گئی۔کیگ رپورٹ میں سیلاب سے متاثرہ افراد کے بروقت انخلاء اور ریلیف میں کوتاہی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ نوڈل ایجنسی کی طرف سے موثر تعاون اور نگرانی میں کمی کے علاوہ خریداری،نقل و حمل اور امدادی سامان کی تقسیم کاری میں کوتاہی کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی اور مابعد جائزوں میں11فیصد سے137فیصد تک فرق سامنے آیا،جس سے سامان کی خریداری اور فراہمی میں تاخیر ہوئی،اور اس کے نتیجے میں متاثرہ لوگوں کی بروقت امداد پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔کیگ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ2014کے تباہ کن سیلاب کے بعد رقومات میں بد انتظامی کے علاوہ2010سے2014تک ریاستی آفات سماوی منیجمنٹ پالیسی کے ضوابط کے تحت’’آفات سماویٰ‘‘ کا اعلان کئے بغیر26کروڑ52لاکھ روپے و اگزار کئے گئے۔آڈیٹر جنرل نے ریاستی سرکار کو تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ ایس ڈی آر ایف‘‘ رقومات کی ماقبل جانچ اور مابعد نگرانی کے نظام کو مستحکم کیا جائے،تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سیلاب متاثرین کیلئے فنڈس کی واگزاری اور استعمال کو کسی دوسرے کام میں منتقل نہ کیا جائے۔