محمد تسکین
مرگی واڑون// ضلع کشتواڑ کی تحصیل واڑون کے مرگی گاؤں میں 26اگست کی شام بادل پھٹنے کے واقع کے بعد مرگی گاؤں میں داخل ہوئے سیلابی ریلوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی ہے اور گاؤں کے سینکڑوں مکان اور مکانوں میں موجود زندگی کے تمام سامان سمیت ملبے کے نیچے آگئے ہیں ۔اس قدرتی آفت نے فصلیں و کھیت کھلیان بھی تباہ کئے ہیں اور 26اگست کی سیلاب کی تباہ کن شام نے چند منٹ کے اندر اندر اپنی جان بچا کر بھاگ نکلے لوگوں کا سب کچھ نگل لیا اور یہ لوگ اب بے آسرا ہوگئے اور سرکاری اور عوامی مدد کے محتاج ہوگئے ہیں ۔سیلاب سے ہوئی تباہی کے فورا بعد تحصیل انتظامیہ واڑون اور ضلع انتظامیہ کشتواڑ کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیمیں سرگرم ہوگئیں اور انہوں نے سیلابی ریلوں کیوجہ سے تباہ ہوئے مرگی گاؤں میں امدادی کاروائیوں کیلئے کمر کس کر راحت رسانی کی کاروائیوں کا آغاز کیا جو ابھی تک جاری ہے ۔سرکاری انتظامیہ کے علاؤہ وادی چناب کے ضلع کشتواڑ اور ضلع ڈوڈہ میں کام کرنے والی رضاکار تنظیمیںجن میں ابابیل ، طارق میموریل چیئرٹیبل فاؤنڈیشن ، چنار انٹرنیشنل سرینگر ، ہلال ہیلتھ کئیر سوسائٹی کشتواڑ اور انتظامیہ کمیٹی جامع مسجد انشن واڑون کی ٹیمیں شامل متحرک ہوگئیں اور سیلاب سے ہوئی تباہی کی زد میں آئے مرگی گاؤں میں امدادی سامان پہنچانا شروع کر دیا ۔ 26اگست کی شام مرگی گاؤں میں پیش آئی اس تباہی کو یاد کرتے ہوئے انشن واڑون کے سماجی و سیاسی کارکن اور صدر مرکزی جامع مسجد کمیٹی انشن حاجی غلام محی الدین مہرو نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ بادل پھٹنے اور سیلابی ریلوں نے انشن اور مرگی کے درمیان رابط سڑک کو آدھ درجن سے زائد مقامات پر نقصان پہنچایا تھا اور ملبے کے نیچے مکانوں کے آنے کے بعد گھروں سے بھاگ نکلے لوگوں کیلئے کھانا پینا پہنچانا ضروری تھا اور مسلسل بارشوں نے اس عمل کو مزید دشوار بنایا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جامع مسجد انشن واڑون کی انتظامیہ کمیٹی نے سڑک کے بجائے بسمینہ گاؤں سے گھوڑوں کے زریعے مرگی گاؤں تک راشن پہنچانے کی کوشش کی لیکن دریائے چناب سے جا ملنے والے مڑو صدر میں بھی سیلابی صورتحال کی وجہ سے پانی کی سطح بہت اونچی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بادل پھٹنے کے واقع کے تیسرے دن محکمہ پی ڈبلیو ڈی اور پی ایم جی ایس وائی کی مشینری نے روڈ صاف کیا اور ہم سڑک کے زریعے چاول اور دیگر چیزوں کی پہلی مدد لیکر مرگی پہنچنے میں کامیاب ہوئے جہاں سیلاب نے اندازے سے زیادہ نقصان پہنچایا تھا اور بارشوں کے باوجود پولیس اور انتظامیہ کے افسروں اور اہلکاروں کے ساتھ ساتھ نزدیکی علاقوں کے لوگ راحت رسانی کے کام میں لگے تھے۔ کشتواڑ سے سنتھن ٹاپ اور وہاں سے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع مرگن ٹاپ کے راستے دور افتادہ مرگی گاؤں میں امدادی سامان لیکر پہنچے طارق میموریل چیئرٹیبل فاؤنڈیشن کے رضاکاروں نے پرائمری سکول لونپورہ مرگی کے احاطے میں کشمیر عظمیٰ سے بات کی۔ فاؤنڈیشن کے نواجوان رضاکار برہان ڈار نے بات کرتے ہوئے کہا کہ مرگی میں سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچادی ہے اور تن پر لگے کپڑوں کو چھوڑ کر ان لوگوں کا سب کچھ مکانوں میں آئے سیلاب کی وجہ سے سیلاب کے ملبے میں دب گیا ہے یا پانی کے ساتھ بہہ گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہاں سرکاری اور عوامی فلاحی تنظیموں کیطرف سے بڑے پیمانے سے مدد کی ضرورت ہے یہاں بچوں اور خواتین کو پہننے کیلئے کپڑے تک موجود نہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا یہاں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور بڑے پیمانے پر مدد کی بھی ضرورت ہے اور اس کیلئے جموں وکشمیر کی سرکار اور تمام رضاکار فلاحی تنظیموں کو مدد کیلئے سامنے آنا چاہئے ۔انہوں نے انہوں نے کہا کہ یہاں لوگوں کے مکان اور مکانوں میں رکھا سامان تباہی سے دوچار ہوئے ہیں جبکہ اس برفیلے علاقے میں بننے والے آلو ، راجماش ، مکئی وغیرہ کی فصلوں کو سیلابی ریلوں نے نگل لیا ہے اور یہ سب دردناک مناظر ہیں اور یہاں کی تباہ حال زندگی کی بحالی کا انحصار سرکاری اور عوامی مدد پر منحصر ہے ۔ طارق میموریل چیئرٹیبل فاؤنڈیشن کے ایک عہدیدار طاہر غنی نے بتایا کہ کہ جب 27 اگست کو انہیں مرگی گاؤں میں بادل پھٹنے سے ہوئی تباہی کی خبر ملی تو ہم نے فاؤنڈیشن کی طرف سے مدد کی ٹھان لی ۔ انہوں نے کہا شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال کی وجہ سے مواصلاتی نظام ، بجلی اور سڑکیں بند تھیں اور کوئی رابطہ نہ تھا ۔ انہوں نے کہا کہ بعد میں معلوم ہوا کہ بڑے پیمانے کی تباہی ہوئی ہے اور پہلے ہم نے سوچا تھا کہ فاؤنڈیشن اپنے ہی فنڈس سے مدد کرے گی لیکن جب پتہ چلا کہ بڑے پیمانے کی تباہی ہوئی ہے تو ہم نے لوگوں سے مدد کی اپیل کی اور لوگوں نے مدد کرنا شروع کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ساتھ چاول ، آٹا ، تیل ، چائے ، ہلدی ، مرچ اور کمبل اور بسترے لائے ہیں اور انہیں لوگوں میں تقسیم کیا گیا ۔چنار انٹرنیشنل سرینگر کی ایک ٹیم بھی ضروری سامان لیکر جمعہ کو مرگی پہنچی اور انہوں نے یہاں کھانے پینے کی اشیاء بشمول چاول ، آٹا ، تیل ، چائے ، کھانڈے ، نمک ، کمبل اور تمام قسم کے برتن متاثرین میں تقسیم کئے۔ چنار انٹرنیشنل کے ایک عہدیدار جاوید احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ چنار انٹرنیشنل سرینگر پچھلے قریب آٹھ برسوںسے واڑون میں تعلیمی شعبے کو بہتر کرنے اور بچوں کو جدید تعلیمی نظام سے متعارف اور ہم آہنگ کروانے کیلئے کام کر رہی ہے اور چنار انٹرنیشنل واڑون کی پسماندگی اور وہاں کے غریب مگر دل کے بڑے لوگوں کے حالات زندگی سے پہلے ہی جانکاری رکھتی ہے۔جاوید احمد نے کہا کہ چنار انٹرنیشنل سرینگر اس بات پر غور کر رہی ہے کہ کب دوبارہ مرگی گاؤں کا رخ کیا جائے تاکہ وہاں لوگوں کیلئے جلد از جلد ایک مفت میڈیکل کیمپ اور ادویات تقسیم کی جائیں۔