کپوارہ// عوامی اتحاد پارٹی صدر اور ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے ریاست میں آفات سماوی سے نپٹنے والے نظام(ڈیزاسٹر منیجمنٹ) کے بدتر ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ رشوت ستانی،غیر قانونی قبضہ اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے معمولی بارشوں سے کشمیر میں تباہ کن سیلاب آجاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف جہاں سیلاب یا کوئی دوسری آسمانی آفت لوگوں کے لئے تباہی کا پیغام بن کر آتی ہے اور وہ بد ترین مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں وہیں دوسری جانب بعض راشی افسروں و اہلکاروں اور حکام کے منظور نظر ٹھیکیداروں کے لئے گویا سونے کی کان کھل جاتی ہے۔کپوارہ کے مختلف علاقوں کے تفصیلی دورے کے دوران انجینئر رشید نے کہا کہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ سرکار،عوامی نمائندگان اور منصوبہ ساز منصوبہ سازی کے عمل پر نظر سازی کریں اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ مناسب منصوبہ سازی کے بغیر کئے جارہے ترقیاتی کاموں کے نام پر کہیں سرمایہ ضائع تو نہیں ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ منصوبہ سازی کے دوران اس بات کو ذہن میں رکھنا بلکہ یقینی بنانا لازمی ہے کہ عوام کو سرکاری منصوبوں کا عملی طور فائدہ ملے۔انہوں نے کہا کہ اگر گذشتہ تیس سال کے دوران سیلاب اور دیگر آفات کے تدارک کے لئے بنائی گئی یا شروع کی گئی اسکیموں کی معتبر انداز سے تحقیقات کرائی جائے تو یہ بات سمجھنے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیئے کہ جونئیر انجینئر وںسے لیکر چیف انجینئر وںتک اور کمشنر سکریٹریوں سے لیکر وزراء تک ان کاموں میں شامل رہے اسی فیصد لوگ سلاخوں کے پیچھے پہنچ جائیں گے۔انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ فلڈ کنٹرول ،یو ای ای ڈی اور دیگر متعلقہ محکمے یہ وضاحت کیوں نہیں کرینگے کہ اگر محض دو دنوں کی بارشیں اہلِ کشمیر کو سیلاب کے خطرے سے دوچار کرکے انکی نیندیں حرام کرتی ہیں تو پھر سالانہ اربوں کھربوں روپے کیوں اور کس لئے خرچ کئے جاتے رہے ہیں اور اس زرِ کثیر کے خرچ کرنے کا فائدہ کیا ہے؟انہوں نے ناپسندیدگی کے ساتھ کہا کہ یہ سچ کہنے سے درد ہوتا ہے کہ نام نہاد سسٹم ایک طرف لوگوں کا خون چوستا آرہا ہے اور دوسری جانب انجینئر،بیوروکریٹ اور سیاستدان عوامی سرمایہ کا غلط استعمال کرکے اپنے محلات تعمیر کرتے ہیں۔انجینئر رشید نے کہا کہ کئی جگہوں پر لوگوں کو انتہائی حد تک خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دریا کناروں،ندی نالوں یہاں تک کہ سڑکوں پر غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور قبضہ کرتے دیکھا جاسکتا ہے اور بد نصیبی یہ ہے کہ جب کبھی سرکاری انتظامیہ کہیں یہ قبضہ ہٹانے کی زحمت اٹھائے بھی تو لوگ خود کو متاثرین و مظلومین کے بطور پیش کرنے لگتے ہیں۔