تھاجنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے
میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمند ر نکلا
احمد فرازؔ کا یہ شعر مرحوم سیفیؔ سوپوری کی علمی وجاہت ، ادبی قد اور ہرد لعزیز شخصیت کا احاطہ کرتا ہے ۔ نام سیف الدین تھا اور سیفیؔ تخلص ۔آپ۱۹؍ جنوری۱۹۲۲ء کو ایک بلند پایہ عالم دین مولانا غلام رسول مسعودی کے گھر پیدا ہوئے ۔ان کی جائے ولادت حاتی شاہ سوپور ہے ۔ اس محلہ میں ایک اچھی خاصی تعداد میں مسعودی خاندان کے چشم وچراغ مدتوں بودو باش کرتے ہوئے عوام الناس کو دینی تعلیم سے منور کرتے رہے ہیں، وہ بھی اُس زمانے میں جب مسلمانوں میں تعلیم کا کوئی چرچاتھا اور نہ حصول تعلیم کی طرف کوئی خاص توجہ تھی۔ سیف الدین نے لاہور سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبرات سے پاس کیا ، اس سے بآسانی یہ اندازہ آسانی ہوسکتاہے کہ وہ کتنے ذہین وفطین تھے ۔ ان کے والد صاحب بھی تعلیم کی اہمیت سے لازماً آشنا رہے ہوں گے۔ازاں بعد سیفیؔ صاحب نے تعلیم دین حاصل کر نے کے لئے مدرسۂ نصرت الاسلام کالج امرتسر میں داخلہ لیا جہاں عربی اور فارسی میں آنرز کر کے لاہور یونیورسٹی سے ۱۹۴۸ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی ۔ آپ محکمہ تعلیم میں استاد ہوئے ، پہلے ہیڈ ماسٹر ہائی سکول سوپور ، پھر پرنسپل ہائر سیکنڈری ہندوارہ، سوپور اور بانہال رہے۔ تحصیل ایجو کیشن آفیسر ہوئے اور جلد ہی ڈسٹرکٹ ایجو کیشن آفیسر ہوئے اور آخر پر ۱۹۷۷ ء میں بہ حیثیت ڈپٹی ڈائریکٹر نان فارمل ایجو کیشن ریٹائر ہوئے۔محکمہ تعلیم میں وہ ایک ٹیچر سے اعلیٰ عہدے تک منزلیں طے کرتے گئے ۔میرے خیال میں بہت سارے اور بھی استاتذہ یہ منزلیں طے کر چکے ہوں گے ۔ سوال یہ ہے کہ پھر سیف الدین سیفی ؔ مرحوم کو ان ہزار ہا اساتذہ سے کون سی چیز الگ کرتی ہے کہ آج ان کے انتقال کے مو قع پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ان کی وفات سے ایک درخشاں باب بند ہوا ۔ اس کی اپنی کوئی دلیل بھی ہونی چاہئے اور سچ یہ ہے کہ اس کے حق میں ایک نہیں سو دلیلیں ہیں ۔
سیفی ؔ شاعر تھے ، ان کے شعروکلام کی تعریف بھی ہوئی اور پذیرائی بھی ، کشمیر کے اچھے شاعروں میں بھی گنے گئے اور محقق اور تجزیہ نگار بھی کہلائے ۔ناقدین ادب اور فن کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھنے والے یقینی طور پر ان کے شعری مجموعے ’’صحرا صحرا ‘‘ کو وہ مقام دیںگے جس کی آپ کی شاعری مستحق ہے ۔ امید ہے کہ لوگ ان کی شاعری کو بھی یقینی طور پر ان کی ہمہ جہت شخصیت کا عکس ِ پرتو ہی مانیں گے ۔ یہ کشمیری زبان کے کسی بھی شاعر کے لئے ایک شان کی بات ہے اگر وہ اردو اہل زباں کے شعراء اور ادباء کا ہمرکاب ہوجائے ۔ اُس کے لئے یہ بھی ایک بڑا اعزاز سمجھا جائے گا اگر وہ اوریجنل شاعر کی حیثیت سے اہل زباں میں پہچانا جائے، اس لئے کہ کسی دوسری زبان میں ہم اپنے مافی الضمیرکے پیکر ا تنی آسانی ، اتنی فصاحت وبلاغت اور روانی وچاشنی کے ساتھ نہیں تراش سکتے ۔ سیفی ؔ کی عظمت اس بات میں تھی کہ وہ ایک حقیقی سکالر تھے ۔ جب میں انہیں سکالر کہتا ہوں تو میر ے نقطہ نگاہ سے سکالر ہوناکوئی اور چیز ہے اور ڈگری ہولڈر ہونا کوئی اور بات ہے ۔ آج کل ہر پی ایچ ڈی پر سکالر ہونے کا اطلاق ہوتا ہے لیکن میں دنیا کے ان سینکڑوں عظیم شخصیات کو یاد کرتا ہوں جو کہیں سے بھی سند یافتہ نہ تھے ، لیکن ان پر سینکڑوں آدمیوں نے پی ایچ ڈی کیا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ساری ہستیاں خود اپنی ذات میں اداروں اور دانش گاہوں کی حیثیت رکھتی تھیں ، ان کے اندر سے انوارِدانش اور علم و ادب کے چشمے پھوٹتے تھے ، وہ علم و آگہی کے ایسے گہرے سمندرتھے کہ ان کے جانے کے بعد بھی پیاسے ان سے بقدر ظرف و صلاحیت اپنی پیاس بجھاتے ہیں ۔ بہر حال میں بصد خلوص پروفیسر بشیرا حمد نحویؔ صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں جو انہوں نے اپنی بصیرت افروز تعزیتی تقریر میں سیفیؔ صاحب کے چہارم پرکی ، فرمایا کہ’’ علم کے چشمے سوکھ رہے ہیں‘‘۔سکالرس کے نام پر ایک عجیب سی، بے ہنگم سی اور علم و ادب سے تہی دامن ایک نرالی مخلوق مارکیٹ میں لائی جا رہی ہے جن سے علم وادب کی خدمت نہیں بلکہ بے خدمتی ہی ہورہی ہے ۔ ابھی حال ہی میں اردو ٹیچر کی اسامی کے لئے ایک پی ایچ ڈی صاحبہ بھی امیدواروں میں شامل تھیں جنہوں نے اپنے سات جملوں کی درخواست میں نو غلطیاں کی تھیں ۔ سوال یہ ہے کہ ایسے سکالرس کہاں سے ڈگریوں میںڈھل کر آجاتے ہیں ؟ وہ جہاں سے بھی آتے ہوں مگر یقیناً انہیں سیفیؔ جیسے کیمیاء گر اساتذہ کا تلمذ حاصل نہیں ، اس لئے کورے کے کورے ہیں ۔ میر ؔ و غالب کسی یونیورسٹی سے سند یافتہ نہیں تھے مگر ان پر دوسرے لوگوں نے تحقیق کرکے ان کا علمی تاج اپنے سر سجایا ۔ سیفیؔ صاحب بھی خود کوئی پی ایچ ڈی نہ تھے مگر اپنی ذات میں علم و فن کے انجمن تھے ۔ مر حوم کواردو ، عربی ، کشمیری زبانوں پر مکمل دسترس تھی لیکن حیرانگی کی بات ہے کہ انگریزی زبان میں وہ کسی بھی اہل زبان سے کم نہ تھے ۔انہوں نے انگریزی کی کئی بہترین کتب کا ترجمہ اردو میں کیا ۔ یہ تراجم اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ وہ دونوں زبانوں پر یکساں گرفت رکھتے تھے ۔ مزید برآں فلاسفی ان کا پسندیدہ مضمون تھا ۔ اپنی قلمی کاوشوں سے سیفیؔ صاحب کے علم و آگہی اور مطالعے کا عکس ہماری نظروں کے سامنے آجاتا ہے اور ان کے علمی قدوقامت پر دلالت کرتا ہے۔ ان کے سر پر سجا ایک علمی تاج یہ ہے کہ فارسی سے ’’کیمیائے سعادت‘‘ مصنفہ امام غزالی ؒ کا کشمیری زبان میں ترجمہ کیا ۔یہ سب تراجم ان کے عزیز برادران کے پاس موجود ہیں ،ماشاء اللہ اس علمی آفتاب سے سارا خانوادہ فیض یاب ہوریا ہے۔ شایدکسی کو انہیں یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ سیفی ؔ کے غیر مطبوعہ بیش بہا نسخوں کو زیور ِ اشاعت سے مزین کیا جائے تاکہ باقیات الصالحات کے طور عامتہ الناس میں ان کا علمی فیض بٹتا رہے۔
[email protected] con 9419514537