بالآخر مرکزی حکومت کی جانب سے ماہ رمضان کی آمد پر شروع کئے گئے سیز فائر کے خاتمے کا اعلان ہوا اور کچھ تجریہ نگاروں کے وہ انداز ے درست ثابت ہوگئے جنکے مطابق جموںوکشمیر کے اندر جوں کی توں صورتحال کے حامی حلقے اس اقدام سے خوش نہیں تھے، کیونکہ اس طرح انکے مفادات پر ضرب پڑتی تھی۔ حالانکہ سیاسی صف بندیوں کے آر پار اس اقدام کا نہ صرف خیر مقدم کیا گیا تھا بلکہ اسے رمضان سے آگے بھی بڑھانےکے مطالبات ہو رہے تھے۔ سیز فائر کے اعلان سے یہ اُمید بھی پیدا ہو چکی تھی کہ اس عمل کو تقویت دے کر بات چیت کے ذریعے صورتحال کی شدت میں کمی لانے کی کوشش کی جائے گی ۔ لیکن مرکز کے تازہ اعلان سے یہ سبھی انداز ے غلط ثابت ہوگئے او ر تشدد ہلاکتوں اور تباہی کے اُس خون آشام انداز ، جو گزشتہ پون صدی سے جموںوکشمیر کے لوگوں کا مقدر بن چکا ہے، میں مزید شدت پید اہونے کے امکانات کو مسترد نہیں کیاجاسکتا ہے، کیونکہ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے توسط سے دائیں بازو عناصر کی طرف سے اس فیصلے پر مرکزی حکومت کو پشت بہ دیوارکرنے کی کوششوں کا سلسلہ شدت کے ساتھ جاری تھا۔ اب جبکہ سیز فائر کا خاتمہ ہوا ہے، تو ظاہر بات ہے کہ کاسو کے نام سے جاری فوجی آپریشنوں کا سلسلہ پھر شروع ہوگا اور ایام گزشتہ کے تجربات کی روشنی میں شہری ہلاکتوں کے نئے خدشات پیدا ہونایقینی ہے۔ خاص کر ایسے حالات میں جب کئی حلقوں کی جانب سے آمادہ بر احتجاج لوگوں اور پتھرائو کے واقعات کے دوران کھلم کُھلا بندوقوں کے دہانے کھولنے کی وکالت ہو رہی ہے۔ اسکے جو بھی نتائج برآمد ہونگے وہ بہر حال کسی کےلئے بھی فائدہ مند نہیں ہوسکتے، سوائے ایسے حلقوں کے جنکے مفادات تنازعات کی توسیع سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اگر موجودہ مرحلے کو سیاسی حلقوں کے لئے ایک چلینج قرار دیا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا ، کیونکہ ان حلقوں کی تشکیل و ترتیب کا مقصد ہی عوام الناس کے مفادات ، خواہ وہ جانی ہوں یا مالی، کے تحفظ سے عبارت ہوتا ہے، جسکا تقاضہ یہ ہے کہ مسائل کا حل تلاش کرنے کےلئے اس کے تمام پہلوئوں کا باریک بینی کے ساتھ تحلیل و تجزیہ کرکے دائرہ عمل ترتیب دیاجائے۔ موجودہ صورتحال میں بیان بازیوں کی سطح پر جس شدت پسندی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ صورتحال میں مزید بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسے حالات میں حکمران طبقوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مجموعی صورتحال پر ہمدردانہ انداز میں غور و خوض کرکے ایسے ماحول کو پروان چڑھانے کے جتن کرے جو عوام الناس کے مصائب اور مشکلات میں تخفیف کا سبب بن سکے۔عوامی حلقوں کی جانب سے جس جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ کیا جارہا تھا، اُس کو خیال میں رکھتے ہوئے امن و شانتی کی کوششوں کو یکسر اور یکلخت نظر انداز کرنے کی روش کو فروغ پذیر نہ ہونے دیا جانا چاہئے تھا۔مگربدقسمتی کی بات ہے کہ حکمران طبقوں نے پھر سے ہتھیار ڈال دینے کا عندیہ دیا ہے، جو کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ ظاہر بات ہے کہ غیر موافق صورتحال سے باہر نکلنے کےلئے بولڈ اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ، جو جب تک نہیںکئے جاتے بہتر نتائج کی توقع ر کھنا عبث ہے۔ بہر حال سیز فائر کا خاتمہ موجودہ نازک حالات میں ایک المیہ سے کم نہیں، جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔