جزیرہ نما عرب کے قبائلی ماحول کے ہر قبلے کا مخصوص تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی کلچر تھا ۔ ہر چند کہ ہر قبیلہ اپنی اہمیت کا حامل تھا مگر قبائل کی اس دنیا میں اس وقت کی تجارتی شاہراہ پر واقع شہرمکہ کا ایک قبیلہ’’ قریش‘‘ جو اپنی حشمت ، ہیبت ، تجارتی سطوت اور قوت کی بدولت تمام قبائل عرب میں خاص قدر وقیمت رکھتا تھا ، اسی قبیلے کی ایک نمایاں شاخ ’’ بنی اُمیہ‘‘ اپنے دانشوروں کی فکر رسائی ، زیر کی ،معاملہ فہمی، جوانوں کی بہادری ، بے مثال فصاحت وبلاغت کی بدولت کوئی دوسرا ان کی ٹکرکا نہیں تھا۔۔۔ قریش کا قومی پرچم’’ عقاب‘‘ بنوامیہ ہی کی تحویل میں تھا۔ البتہ کعبہ اللہ کی تولیت کی وجہ سے قریش کے سرمایہ فکر ومباہات قبیلہ بنو ہاشم کوجزیرہ نما عرب میں تقدیس وکریم کا رتبہ حاصل تھا ۔ بنی امیہ کے ایک سردار عفان کے ہاں6؍عام الفیل(576ء) کی ایک مبارک ساعت میں ایک خوش نصیب بچہ پیدا ہواجس کا گھروالوں نے ’’ عثمان‘‘ نام رکھا ۔ نومولود کی والدہ اردیٰ بنت گریز تھیں۔ یہ بچہ جوانی کی دہلیزپر انتہائی حلیم، نرم خو ، منکسر المزاج، سلیم الفطرت نوجوان تھا۔34؍سالہ عثمان جب مشرف بااسلام ہوئے تو شخصی اوصافِ جمیلہ میںمزیدنکھارآگیا۔حق شناسی سے حق گو ئی ،سخاوت، غنا، ، فیاضی ،ہمدردی اورغمگساری سے جلّا ملی جب کہجود وسخا ،شرم وحیا اور حسن کردار کے آپؓ شاہکار تھے ۔ شب زندہ دار اور کاتب ِوحی کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معتمدٹھہرے۔آپ ؓ کی کنیت ابو عبداللہ اور لقب غنی و ذوالنورین ہے، ، ذریعہ معاش تجارت تھا،رئیس وصاحب ِ ثروت ہونے کے باوجود سادہ غذا تناول فرماتے اور عموماً سادہ لباس زیب تن کرتے تھے۔
سیدناابوبکر صدیق کی دعوت پرفوراََحلقہ بگوش اسلا م ہوئے ،آپ ؓسے قبل صرف تین مقدس نفوس حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے۔آپؓ فرماتے ہیںکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمہ شہادت کے یہ سادہ اور پر اثرمبارک الفاظ میرے قلب پر اثر انداز ہوئے کہ میں نے بے اختیار کلمہ شہادت پڑھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔پانچویں پشت پر آپ کا شجرہ نسب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے ۔بچپن میں ہی پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا ۔آپؓ کا شمار قریش کے ان چند لو گو ں میں ہو تا جو پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔آپ ؓکا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا ،کم عمری میں والد کے وصال کی وجہ سے آپ ؓنے تجارت خود ہی سنبھال لی تھی۔آپؓ کا مقام اور مرتبہ اس قدر عظیم اور بلند تر ہے کہ فرشتے بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حیا کرتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی سیدہ رقیہ کا نکاح آپؓ سے کردیا ۔پہلے ہجرت حبشہ اور پھر ہجرت مدینہ کی سعادت بھی آپ ؓکے حصے میں آئی ۔آپؓ نے بد رکے سواتمام غزوات میں شرکت کی ۔غزوہ بد ر کے موقع پر آپ ؓ اہلیہ محترمہ دختررسول سیدہ رقیہ ؓعلیل تھیں جس کی وجہ سے آپ شریک نہ ہو سکے لیکن آپ کو بد رمیں شمولیت کی فضیلت عطا کی گئی ۔سیدہ رقیہ کے وصال کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام کلثوم کا نکاح بھی آپ سے کردیا ۔ آپ ؓکے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی تھی کہ جنت میں ہر نبی کے ساتھ اس کی امت سے ایک رفیق ہوگا اور عثمان میرے رفیق ہیں، (ترمذی حدیث ،3698)وہ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے(ترمذی)۔ نو ہجری میں جب آپ ؓ کی زوجہ دختر رسول سیدہ ام کلثوم کا بھی وصال ہو ا توآپ کاحیااورآپ ؓ کاحسن سلوک دیکھ کررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میری ’’چالیس‘‘ بیٹیاں ہوتیں تو یکے بعد دیگرے میں ان کو عثمان کے عقد میں دے دیتا ۔امیرالمومنین سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی ، صائم الدھر ، اور عشرہ مبشرہ میں شامل ہو نے کی فضیلت حاصل ہے ۔آپ نے’’ بئر رومہ ‘‘جومدینہ طیبہ میں’’میٹھے پانی کامشہورواحدچثمہ‘‘تھا20یا30ہزاردرہم کے عوض خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کیا۔ اس کے علاوہ آپ ؓ نے مدینہ طیبہ اورمضافات میں متعددکنوئیںبنوائے جن میں ’’بئرسائب ،بئرعامر،اوربئراریس ‘‘ بہت مشہورہیں ۔آپ ؓہی وہ برگذیدہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے’’جیش العسرہ‘‘ غزوہ تبوک کے موقع پر ہزراوں صحابہ کے خوردو نو ش کا ذمہ اٹھا یا ۔ ایک ہزار اونٹ ،سترگھوڑے اورایک ہزارسرخ دینار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کئے ۔اسی موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے حق میںقابل صدہزاررشک تعریفی کلمات فرمائے ’’کہ آج کے بعدعثمان کاکوئی عمل قابل ضررنہ ہوگا‘‘(سنن ترمذی حدیث 3700)خدمت اسلام کے حوالے سے آپ ؓ کے مالی ایثارکاپلہ ہمیشہ بھاری رہا۔ خلیفہ راشدامیرالمومنین سیدنافاروق اعظم ؓ کی شہادت کے 3 دن بعدسیدناعثمان غنیؓ پر فرائض خلافت کی بجا آوری کی ذمہ داری ڈال دی گئی ۔ آپ ؓ کا تقریباً12 سالہ دور تاریخ کا منفرد دور ہے ۔ خصوصاً فتوحات کا عالم یہ تھا کہ انسانی تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے کی فتوحات کا کہیں ذکر نہیں،آپؓ کے دور میں طرابلس المغرب، تیونس ، الجزائر ، مراکش ، قفلس، خراسان ، بطرستان ، جرجان ، سوات ، کابل ، بحستان ، نیشاپور ، تخارستان، کرمان ، کوہ قاف، ہند میں گجرات کے ساحلی علاقے ، بحیرہ اسود کے ساحلی علاقے اور اندلس کے بعض حصے جزوی طورفتح ہوئے ۔ ان فتوحات کے طفیل آپ نے 44لاکھ مربع میل میں خلافت کے امور سرانجام دیئے ۔
آپ ؓ کوجامع القرآن کاعظیم اعزاز بھی حاصل ہے ۔آپ ؓوہ مبارک شخصیت ہیں کہ جس کے ذریعے اللہ تعالی نے امت پر یہ احسان فرمایا کہ پوری امت کو ایک مصحف پر مجتمع اور متفق کردیا۔ آج ہم جس قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں وہ امت تک بہ کمال و تمام صحت کے ساتھ حضرت عثمان ہی کی بدولت منتقل ہوا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ آرمینیا اور آذربائیجان کی فتح کے بعد جو دور عثمانی میں ہوئی تھی’’ مدینہ طیبہ ‘‘ تشریف لائے تو انہوں نے خلیفہ راشد امیرالمومنین سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ سے عراق و شام میں قرات قرآن کے اندر مسلمانوںکے اختلاف کا ذکر بڑی تشویش کے ساتھ کیا اور کہا یا امیرالمومنین! یہودو نصاریٰ کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف ہونے سے پہلے اس کا تدارک کر لیجیے۔ امیرالمومنین سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے ام المومنین سیدہ حفصہ بنت امیرالمومنین سیدنافاروق اعظم سے صدیق اکبر کے دور میں جمع کیا ہوا مصحف منگوا بھیجا اور آپ نے اس مصحف کو قریش کی زبان کے موافق لکھوایا، اس لئے کہ قریش کی زبان ہی میںقرآن حکیم نازل ہوا تھا، اور اس مصحف کی نقول تمام بلاد اسلامیہ میں بھیج دیں۔آپ ؓ نے اپنے عہد خلافت میں سب سے پہلے لوگوں کے لئے جاگیریں مقرر فرمائیں ،آپ نے جانوروں کیلئے چراگاہیں قائم کیں، آپ ہی نے حکم دیا کہ تکبیر میں آواز تھوڑی نیچی رکھیں۔ (اذان کی طرح آواز بلند نہ ہو)۔ جمعہ کے دن اذان اول دینے کا حکم صادر فرمایا ائمہ مساجد کی تنخواہیں مقرر فرمائیں ،سب سے پہلے آپ ہی ہیں جو اپنی والدہ کی حیات میں خلیفہ منتخب ہوئے ، آپؓ ہی نے سب سے پہلے محکمہ پولیس کے عہدیدار مقرر فرمائے مسجد نبویؐ میں عبادت گزاروں اعتکاف کرنے والوںمسافروںاور مساکین وغیرہ کے لئے عام دستر خوانوں بچھوایا مملکت کے مختلف حصوں میں کنویں کھدوائے جس سے زراعت میں بھی اضافہ ہوا۔ مدینہ منورہ اور دوسرے کئی مقامات کو سیلاب سے محفوظ رکھنے کے لئے آپ نے بند بنوائے چنانچہ مدینے سے سیلاب کا رخ موڑنے کے لئے ایک بند بنوایا، مسافروں کی آسائش کے لئے مختلف قسم کی سرائیں اور چوکیاںایک باغ جو جنت البقیع کے مشرقی جانب تھا ، آپ ؓنے اسے خرید کر جنت البقیع کے قبرستان میں شامل کر دیا مسجد الحرام کی توسیع فرمائی اور ارد گرد کے مکانات خرید کر انہیں مسجد میں شامل کیا ۔ آپ نے محکمہ قضاء کو بھی ترقی دی ۔ جس سے لوگوں کو حصول انصاف میں آسانی ہوئی۔مسجد نبوی کی توسیع فرمائی ۔مساجد میں خوشبوئیں بکھیر دیں اور انہیںسجانے کا اہتمام فرمایا ۔محکمہ احتساب قائم فرمایا ۔ سیدناعثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے نہ صرف اندرون ملک رفاعی اور فلاحی اور استحکام کے لئے بہترین توجہ دی بلکہ مملکت اسلامیہ کے دفاع اور استحکام کے لئے بہترین عسکری نظام قائم فرما کر ملکی دفاع کو مضبوط اور مستحکم کیا مال و دولت کی فروانی نے بیت المال کو بھر دیا تھا جہاں آپ نے عوام الناس کو مالا مال کیا وہاں فوجیوںکو بھی اس دولت سے ایک خاص حصہ دیا اور ہر سپاہی کی تنخواہ میں سو درہم کا اضافہ کیا جہاد فی سبیل اللہ میں استعمال ہونے والے گھوڑوں اور اونٹوں کی پرورش کے لئے چراگاہوں کی اشد ضرورت تھی ۔ آپ نے مملکت اسلامیہ میں ان کی پرورش کے لئے نہایت وسیع و عریض چراگاہیں تعمیر کروائیں ۔ دار الخلافہ مدینے کے اطراف میں متعدد چراگاہیں تھیں ۔ خلیفہ رسول امیرالمومنین سیدناعثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے بری فوج کو اسی تربیت سے ترقی دی۔
جامع القرآن ، داماد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تاریخ اسلام کی ایک بے مثال اور عہد آفریں شخصیت ہیں ،جن کے امت مسلمہ پر ان گنت احسانات ہیں ۔ ان کی حیات پاک کا ہر لمحہ اور ہر لحظہ اطاعت خداوندی اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عبارت ہے۔ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کا اصل مشن اور مقصد سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور فروغ و اشاعت دین مبین تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تمام تر زندگی ملت اسلامیہ کے اتحاد، سلامتی اور خوش حالی کے لئے صرف کی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لانے سے قبل بھی مروجہ غیر اخلاقی باتوں سے اجتناب فرماتے تھے، غریب پروری آ پؓ کی فطرت ثانی تھی ۔ ان کی دل جوئی اور حاجب روائی فرما کر اللہ کا شکر بجا لاتے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان ہی خوبیوں اور بلند پایہ کردار کی بدولت غنی کہا جاتا ہے۔ آپ ہر ایک کے ساتھ انتہائی خندہ پیشانی اور بہترین اخلاق سے پیش آتے ، جس کی وجہ سے ہر فرد آپؓ کا گرویدہ ہو جاتا۔جامع القرآن ، فرزند نسبتی ٔرسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار عشرہ مبشرہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں ہوتا ہے۔
امیرالمومنین سیدنا فاروق اعظم ؓ کے بعد بعض مقامات پر بغاوتیں ہوئیں ،آپ ؓ کے عہد میں اگرچہ ان بغاوتوں کو ناکام کیا گیا ان شورش زدہ ممالک میں اسکندریہ ، آذربائیجان ، آرمینیا، انطاکیہ اور طرطوس کے درمیان واقع رومی قلعے بغاوت کچل کر دوبار زیرنگیں لائے گئے تاہم بدقسمتی سے’’دارالخلافہ‘‘ مدینہ منورہ میں باغیوں کی طرف سے درپردہ سازشیںپروان چڑھتی رہیں آپ ؓ کے دور خلافت کا ابتدائی تقریباً نصف زمانہ نہایت پرسکون ، سماجی ، معاشی ، معاشرتی ترق وفراوانی کا زمانہ تھا لیکن اس دوران بدقسمتی سے آپؓ کی خلافت کے خلاف سازشیں سراٹھانے لگیںبالآخرباغیوں کی سازشیںاس وقت انتہاپرپہنچ گئیں کہ جب انہوں نے خلیفہ راشدکے کاشانہ خلافت کومحاصرے میں لے کرخلیفہ راشدامیرالمومنین سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کومحصوربنادیااوریہ محاصرہ پچاس یوم تک جاریہ رہا اس دوران پانی اورخوراک روک دیاگیا،باغیوں نے جب محاصرہ تنگ کرڈالاتوام المومنین سیدہ ام حبیبہ ؓ اورنواسہ رسول سیدناحسن اور سیدنا حسین باغیوں کے محاصرے میں آئے ہوئے امیرالمومنین کوپانی کامشکیزہ پہنچانے کی کوشش کی لیکن بلوائیوں نے ان کے ساتھ گستاخانہ سلوک کیااورمشکیزے نیزوں سے پھاڑ ڈالے۔پچاسویں روز باغیوں نے محاصرہ جاری رکھابالآخیرامیرالمومنین اورخلافت سے بدترین قسم کی بغاوت کرکے کاشانہ خلافت کوچھت سے حملہ کیا، بشیر بن کنانہ کی ضرب،اور سودان بن حمران کے حملے کے نتیجے میں نہایت ہی مظلومیت کے عالم میںتلاوت قرآن کریم کرتے ہوئے امیرالمومنین سیدناعثمان غنیؓنے جام شہادت نوش فرمایا۔ یہ سانحہ 18 ذوالحجہ 36 ہجری کوپیش آیا۔ آپ ؓ کی شہادت کاواقعہ امت کے لئے ایک سانحہ عظیم ثابت ہوئی،ایسا سانحہ عظیم کہ اس سانحہ کے بعدامت نے آپس میں لڑتے ہوئے اپنی توانائیاں رائیگان کردیں ۔ حضرت عثمان نے تخت خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حالات پر پوری طرح قابو پالیا تھا بلکہ داخلی امن و امان اور استحکام کے ساتھ تمام شورشیں اور بغاوتیں نہ صرف فرو کر ڈالیں بلکہ فتوحات کادائرہ وسیع تر ہونے لگا تھامگراب یہودی سازشی ذہن اور آگے بڑھا۔ اس نے اپنی وہ خفیہ کارروائیاں تیز کردیں جن کی داغ بیل عبداللہ بن سبا دور صدیقی ؓمیں ڈال چکا تھااوریہ سازش خلیفہ راشد امیرالمومنین سیدناعثمانؓ کی شہادت پرمنتج ہوئی ۔ اس سانحہ عظیم سے امت بکھرگئی امت کابکھرجانایہ درحقیقت حضرت عثمان کی مظلومانہ شہادت کا خمیازہ تھا۔
تاریخ کامطالعہ بتاتاہے کہ خلیفہ راشدامیرالمومنین سیدناعثمانؓ کی شہادت کے بعد عالم اسلام میںایک تلاطم پیداہوا۔صورت حال پرقابوپانے کے لئے خلیفہ چہارم سیدناعلیؓ نے کوششیں کیںمگراس کے باوجود صورت حال بے قابوہوتی چلی گئی ۔ شہادت عثمانؓ کے سانحے بعدچوراسی ہزار مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں شہید ہوئے، خون کی ندیاں بہہ گئیں ، فتوحات کا سلسلہ رک گیا اور فتنہ و فساد بھڑک اٹھا،مسلمانوں میں ایسا تفرقہ پڑاکہ چودہ سو سال بھی اس کو پاٹ نہ سکے بلکہ وہ ہر دور میں وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔خلیفہ راشد امیرالمومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے پورے پونے پانچ برس باہم خانہ جنگی میں گزرے جنگ جمل ، جنگ صفین، جنگ نہروان جیسے سانحات پیش آئے جن میں مسلمان کے ہاتھ میں مسلمان کا گریبان تھا اور مسلمان کی تلوار مسلمان ہی کا خون بہا رہی تھی اور مسلمان کا نیزہ ہی مسلمان کے سینے کے پار ہو رہا تھا اور اس بیچ حضرت طلحہ ؓ ، حضرت زبیر ؓ حضرت عمار بن یاسرؓ شہید ہوئے پھر حضرت علی کرم ا للہ تعالیٰ وجہہ شہید ہوئے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر حملہ ہوا لیکن ان پروار کاری نہ پڑا اور وہ بچ گئے، حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ پر حملہ ہوا لیکن وہ اس روز کسی وجہ سے نماز فجر کے لئے نہ آئے تھے، اس لئے ان کے مغالطے میں ان کے قائم مقام شہید ہوئے۔ پھر نہ جانے ان کے علاوہ کیسے کیسے مخلص اور شجاع مسلمان ان جنگوں میںشہیدہوگئے۔