آج ہمارے معاشرے میں بے شمار برائیاں رائج ہوچکی ہیں۔ظلم و تشدد عام ہو چکا ہے۔ بڑے چھوٹوں پہ شفقت کرنا بھول گئے ہیں، چھوٹے بڑوں کا ادب ترک کرچکے ہیں۔لڑائی جھگڑے ہمارے معاشرے کا شیوہ بن چکا ہے۔بھائی بھائی کا دشمن بنا ہوا ہے۔کہیں باپ بیٹے کو گھر سے بے گھر کررہا ہے تو کہیں نئی لائف پارٹنر پہ فریفتہ بیٹا اپنے والدین کو انہیں کی جائداد سے بے دخل کررہا ہے۔ الغرض ہر چہار جانب سے گناہوں کی تاریکیاں پھیل رہی ہیں۔ ہر شخص غلط کا ری کے لئے ہر لمحہ تیار بہ رہتا ہے۔عفو ودر گذر کا پیغام اسلام ہمارے معاشرے سے معدوم ہوچکا ہے۔گویا ہماری سوسائٹی عرب کی وہ تاریخ دہرا رہی ہے جب اہل عرب بات بات پہ تلوار میان سے باہر کرلیتے تھے۔چھوٹی سی بات پہ ایک دوسرے کے خون کے ایسے پیاسے ہوتے کہ جنگ کا سلسلہ کئی کئی پشتوں تک جاری رہتا۔فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں یہ جنگ دو قبیلوں کے مابین ہوتی تھی، اور ہمارے یہاں بھائی بھائی اور باپ بیٹے کے درمیان ہوتی ہے۔زمانہ جاہلیت میں تلواریں چلتی تھیں اور آج ہماری سوسائٹی میں گولیاں چلتی ہیں۔عفو و در گذرکا تصور جہلائے قدیم میں معدوم تھا اور یہاں بھی کالعدم ہے۔
اللہ رب العزت نے اپنے پیارے حبیب مصطفیٰ جان ِرحمت ﷺکو ایسے ظالمانہ ماحول میں مبعوث فرمایا جہاں عفو ودرگذر کا دور دور تک کوئی تصور نہ تھا،معافی تلافی کا جذبہ کسی بھی سینے میں رتی بھر موجود نہ تھا۔ایسے ہی وحشی عالم میں آقائے نامدار ﷺ نے دنیا کے سامنے معافی اور انصاف کی ایسی روشن ترین مثالیں قائم فرمائیں کہ رہتی دنیا تک جس کی نظیر نہیں مل سکتی۔امت کو عفو و در گذر کا ایسا پیغام دیا کہ جس پہ ہم عمل کرلیں تو دنیوی و اخروی کامیابی کی ضمانت طے ہے۔ آپ ؐ نے قدم قدم اپنی سیرت پاک میں عفو و در گذر کے ایسے روشن نقوش چھوڑے کہ جس پہ اہل دنیا عمل کرلیں تو پوری دنیا میں امن و شانتی عام ہوجائے، دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے، بدامنی امن وشانتی میں بدل جائے۔نمونے کے طور پر سیرت مصطفیٰ جان رحمت ﷺ سے عفو و در گذر کے چند واقعات قارئین کی نذر ہیں:
مصطفی جان رحمت ﷺ کے عفو و در گذر کے حوالے سے یہ پہلو نہات ہی روشن و تابناک ہے کہ جب آپ ﷺ نے کفار و مشرکین کو اسلام کی دعوت دی تو وہ لوگ نہ صرف آپ کی دعوت کے منکر ہوگئے بلکہ آپ ﷺ کو تکلیفیں دینا شروع کردیا۔ ان لوگوں نے سجدہ کی حالت میں آپ ﷺ کی پشت انورپہ مردہ اونٹ کی اوجھڑیاں رکھ دی مگر آپ ﷺ نے اُف تک نہ کہا۔آپ ﷺ کے دشمنوں میں ایک ضعیف عورت بھی تھی جو نفرت کے اظہار میں آپ ﷺ پر کوڑا پھینکا کرتی تھی، آپ ﷺ نے نہ صرف اسے معاف کردیا بلکہ جب وہ بیمار پڑ گئی تو آپ ﷺ نے اس کی عیادت بھی کی۔یونہی جب آپ ﷺ نے اہل طائف کو دعوت حق دی تو انہوں نے آپ ﷺ کا مذاق اڑایا، مظالم ڈھائے اور کچھ بدمعاشوں کو آپ ﷺ کے پیچھے لگادیا جنہوںنے آپ ﷺ کو لہو لہان کردیا۔ اگر آپ ﷺ چاہتے تو پہاڑ وںکافرشتہ حکماً چند لمحوں میں انہیں تباہ وبرباد کرنے کے لئے حاضر تھا ، مگر آپ ﷺ نے انہیںبھی معاف فرمادیا۔
اللہ کے پیارے رسول مصطفی جان رحمت ﷺ نے کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیابلکہ آپ ﷺ نے ہمیشہ اپنے دشمنوں اور مخالفین کو معاف کردیا۔چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ جب ہجرت نبوی ﷺ کے بعد ۲ھ میںمسلمین اور کفار و مشرکین کے مابین حق و باطل کی پہلی جنگ یعنی جنگ بدر میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو فتح و نصرت عطافرمائی تو اسیرانِ بدر کو مصطفی جان رحمت ﷺ نے نہ صرف معاف فرمادیا بلکہ انہیں اپنے صحابہ کرام ؓ میں ان قیدیوں کی آسائش و آرام کی خاطر تقسیم فرمادیا۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان کا اس قدر خیال فرمایا کہ خودبھوکے رہتے مگرانہیں اتنا کھانا کھلاتے کہ وہ شکم سیر ہوجاتے۔جب غزوہ احد کے موقع پہ اللہ کے پیارے رسول مصطفی جان رحمت ﷺ کے دندان مبارک شہید کردئے گئے تو کچھ صحابہ کرامؓ نے مشرکین کے خلاف دعا کرنے کی خواہش ظاہر کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں کسی پہ لعنت بھیجنے لئے نہیں پیدا کیا گیا،نیز اسی جنگ میں آپ ﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والے حبشی غلام کو بھی آپ ﷺ نے معاف فرمادیا۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ حنین کے بعد جب آپ ﷺ لوگوں میں مال تقسیم فرما رہے تھے ،اتنے میں ایک شخص آیا اورمجمع عام میں ترش لہجے میں کہنے لگا:اے محمد (ﷺ) انصاف کرو! آپ ﷺ نے تعجب سے فرمایا میں انصاف نہیں کروںگا تو کون کرے گا؟اگر میں نے انصاف نہیں کیا تو میں خسارے میں رہوں گا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ !آپ اجازت دیں تو اس منافق کی گردن اُڑادوں، آپ ﷺ نے فرمایا چھوڑ دو، ورنہ لوگ کہیں گے ورنہ لوگ کہیں گے محمد (ﷺ)اپنے ہی اصحاب کو قتل کرتے ہیں۔
اس عبارت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مجمع عام میں اس شخص نے آپ ﷺ کی ذات پہ کیسے کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی تھی، آپ ﷺکے نظام عدل کو کس طرح چیلنج کیا تھا ، مگر مصطفی جان رحمت ﷺنے اسے معاف فرمادیا۔اہل مکہ کے ظلم و ستم سے بھلا کون ناواقف ہوسکتا ہے،اعلان ِنبوت سے پہلے جو آپ ﷺ کو صادق و امین کہا کرتے تھے ،دعوت حق کے بعد آپ ﷺ کو خاکم بدہن نہ جانے کیا کیا کہنا شروع کردیا(العیاذ باللہ)۔ان کے مظالم یہیںپہ ختم نہ ہوئے بلکہ وہ آپﷺ کے جانی دشمن ہوگئے،راہوں میں کانٹے بچھانے لگے،جسم اطہر پہ گندگی پھینکنے لگے اور جب آپ ﷺ ان کے جور و جفا سے تنگ آکر اللہ کے حکم سے آپ ؐ مدینہ منورہ ہجرت کرگئے تو ان بد بختوں نے وہاں بھی چین سے جینے نہیں دیا اورجنگیں شروع کردیںمگر جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیارے مصطفی جان رحمت ﷺ کو اہل مکہ پہ فتح عطا فرمائی تو آپ ﷺ نے عفو ودر گذر کا اعلان عام فردیا۔ابو سفیانؓ جو فتح مکہ سے پہلے دامن اسلام سے وابستہ نہیں ہوئے تھے اور اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف ہر جنگ میں شریک تھے،نبی معظم ﷺ قتل کی ہر سازش کے مشیر تھے، مصطفی جان رحمت ﷺنے نہ صرف انہیں معاف فرمادیا بلکہ فرمایا کہ جوشخص ان کے گھر میں چھپ جائے اس کے لئے بھی امان ہے۔
یہ ہے مصطفی جان رحمت ﷺکا عفو و درگذر کہ اپنے خون کے پیاسے کو بھی معاف فرمادیامگر آج انہیں کا کلمہ پڑھنے والا اپنے ہی بھائی ،بہن اور ماں،باپ کی چھوٹی بات بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں،اپنے والدین کی باتوں کو صرف اس لئے ٹھکرادیتا ہے کہ وہ اس کے مزاج اور مرضی کے مخالف ہے،اور انہیں گھر سے بے گھر اس لئے کردیتا ہے کہ وہ اس کی لائف پارٹنر کو پسند نہیں۔ کاش ہمارے نوجوان سیرت مصطفی جان رحمت ﷺ کے گوشۂ عفو ودر گذرکا مطالعہ کرتے اور اس کا عملی نمونہ پیش کرتے تو ان کے دنیا وآخرت کی نیا پار لگ جاتی!
رابطہ :ریسرچ اسکالر البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ Mob: 7275709094
E-mail:[email protected]