مولانا محمد نعمان علیمی
حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ بن عثمان بن عمر بن عمر القرشی التمیمی تھا اور آپ کی کنیت ابوبکر تھی۔ آپؓ کے والد ابوقحافہ کا تعلق قریش کی معزز ترین شاخ بنو تمیم سے تھا، جو شجاعت، سخاوت، مروّت اور بہادری جیسی صفات سے متصف تھے۔ آپ کے القاب صدیق اور عتیق قرار پائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت اور سفرِ معراج کی بلا چوں چرا سب سے پہلے تصدیق آپؓ نے کی، اسی بنا پر نبی کریمؐ نے آپؓ کو حق و صداقت کے لقب (صدیق)سے سرفراز فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ، حضور نبی اکرمؐ کے یارِ غار اور وہ خوش نصیب صحابی ہیں جن کے بارے میں حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ ابوبکر کے مال نے مجھے جتنا نفع دیا ہے اتنا کسی کے مال نے نفع نہیں دیا۔
سیدنا صدیق اکبرؓ کی وفات بھی حضور اکرمؐ کے وصال کے دو سال چند مہینے بعد ۲۲ـجمادی الآخرہ کو مدینہ شریف میں ہوئی،پھر وفات کے بعد اپنے محبوب کے جوارِ رحمت ہی میں مدفون ہوئے۔گویا حضرت صدیق اکبر ؓ کا جینا، مرنا، رہنا، سہنا اور زندگی کے ایام گزارنا سب میں حضو رصلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق خاص رہے۔
حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ زمانہ جاہلیت ہی سے حضور اکرمؐ کے سچے اور مخلص دوست تھے، یہی وجہ ہے کہ حضور اکرمؐ نے اپنی زوجہ حضرت خدیجہ ؓ کے بعد سب سے پہلے حضرت صدیق اکبرؓ پر اسلام پیش کیا اور حضرت صدیق اکبرؓ نے بلا تردد فوراً ہی اسلام قبول کر لیا۔ کیوں کہ حضرت صدیق اکبرؓ بچپن ہی سے عالم خواب و بیداری میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے آثار دیکھتے رہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت صدیق اکبر ؓ نے کبھی بُت کی پرستش نہیں کی، کبھی شراب نہیں پی اور زمانہ جاہلیت کی تمام گندگیوں سے بچتے ہوئے ہمیشہ مجبوروں اور غریبوں کی مدد کرتے رہے۔ (ماخوذ: تاریخ الخلفاء۔ از علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ)
یارغار مصطفی کا بے مثال عشق :
مشہور واقعہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں تشریف لاکر کفار کو دین ِمبین کی دعوت دینے لگے تو کفار نے جواباً گردن مبارک میں کپڑا ڈال کر حضور نبی اکرمؐ پر تشدد کرنا شروع کر دیا، اسی دوران حضرت صدیق اکبرؓ کو معلوم ہوا توآپ آئے اور کفار سے مخاطب ہوکر گویا ہوئے کہ کیا تم ایسے فرد پر ظلم وستم ڈھا رہے ہو جو تمہیں اللہ کے علاوہ باقی معبودوں کی عبادت کرنے سے منع کرتا ہے اور صرف ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلاتا ہے۔ یہ کہنا تھا کہ کفارِ مکہ حضور نبی اکرمؐ کو چھوڑ کر آپ پر حملہ آور ہوگئے۔ کفار نے حضرت صدیق اکبرؓ کو اتنا مارا کہ آپ بے ہوش ہوگئے۔ حضرت صدیق اکبرؓ کو اس حالت میں گھر لایا گیا۔ گھر پہنچ کر جب آپ کو ہوش آیا تو سب سے پہلا سوال حضور نبی اکرمؐ کی خیریت دریافت کرنے سے متعلق تھا۔ والدہ دودھ کا پیالہ لے کر سرہانے کھڑی تھیں کہ آپ دودھ نوش فرمائیں، مگر آپ نے حضور نبی اکرم ؐسے متعلق بارہا استفسار کیا تو والدہ نے امِ جمیل کو طلب کیا، باوجود ام جمیل کی جانب سے مطلع کرنے کے کہ حضور نبی اکرمؐ بخیر و عافیت ہیں،پھر بھی آپ کو تسلی نہ ہوئی تو اسی حالت میں حضور نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہاں پہنچ کر حضور نبی اکرمؐکی جانب سے حوصلہ ملنے پر آپ جیسی اولوالعزم شخصیت نے اپنے دکھ دردو تکلیف کو بھلا کر اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بھرپور وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے حضور نبی اکرمؐ سے درخواست کی کہ دعاکریں میری والدہ اسلام قبول کرلے۔ حضور نبی اکرمؐنے اس گزارش پر ہاتھ اُٹھا کر اپنے رب کے حضور دعا مانگی، جس کے نتیجہ میں آپ کی والدہ محترمہ مشرف بہ اسلام ہوئیں۔
شانِ عبد اللہ بزبان کتاب اللہ :
قرآن میں سیدنا عبداللہ ابن عثمان الملقب بہ صدیق اکبرؓ کا تذکرہ سورہ آل عمران، سورۃ اللیل، سورۃ التوبہ، سورۃ الزمر اور سورۃ الفتح میں ہوا ہے، جن میں آپ کے مناقب بیان ہوئے ہیں کہ سفرِ ہجرت کے موقع پر آپ دشمنوں کے غارِثور کے دہانے پر پہنچنے کی وجہ سے رنجیدہ و غمگین ہوئے اور کہنے لگے کہ: اگر دشمن نے ہمارے قدموں کے نشانات کو دیکھ لیا تو پہچان لیں گے، تب حضور اکرم ؐنے ارشاد فرمایا: ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے؟ تعجب خیز امر یہ ہے کہ مفسرین نے لکھا ہے کہ صدیق اکبر ؓ کو اپنا خوف اور اپنی فکر نہیں تھی بلکہ پریشان تھے تو رسول اللہؐ کی خاطر تھے کہ کہیں دشمن آپؐ کو نقصان نہ پہنچا دے۔ آپ کی جانب سے راہِ خدا میں صدقہ و خیرات کی گواہی سورۃ اللیل میں دی گئی۔ سورۃ الزمر میں آپؓ کے صدیق ہونے کو بیان کیا گیا۔ سورۃ الفتح میںحضرت ابو بکرؓ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت و صحبت کا تذکرہ فرمایا گیا ہے۔
صدیق اکبر کی شان بزبانِ خیرالانام ؐ :
رسول اکرم ؐ پر سب سے پہلے مردوں میں ابو بکر صدیقؓ ایمان لائے۔ سیدنا صدیق اکبرؓ نے از قبولِ اسلام تادمِ زیست خود کو اور اپنے اہل خانہ کو اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دیا، اسی کا ثمرہ ہے کہ قرآن کریم میں جہاں عظمتِ صدیقی کے تذکرے ملتے ہیں، وہیں رسول اللہ ؐکی احادیث میں آپ کے فضائل و مناقب بیان ہوئے ہیں۔
حدیث نبوی ہے کہ رسول اللہؐ ایک مرتبہ اُحد پہاڑ پر صدیق اکبرؓ، عمر فاروقؓ اور عثمان غنیؓ کے ہمراہ موجود تھے، پہاڑ لرزنے لگا تو آپ ؓفرمایا: ’’تھم جا! تجھ پر نبی و صدیق اور دو شہید موجود ہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبرؓ کے مقامِ امتیازی کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: ’’صدیق ؓ سے محبت مومن کرے گا جبکہ نفرت منافق رکھے گا۔‘‘ نبی اکرم ؐ نے یہ بھی فرمایا کہ: ’’میں نے دنیا میں تمام محسنوں کے احسانات کا بدلہ چکا دیا، جبکہ صدیقِ اکبرؓ کے احسانات کا بدلہ اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا۔ احادیث میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ: ’’آپ کی موجودگی میں کسی بھی شخص کے لیے روا نہیں کہ وہ منصب امامت پر فائز ہو۔‘‘ نبی مکرمؐ کے مرض الوفات میں ۱۷ نمازوں کی امامت سیدنا صدیق اکبرؓ نے کی اور یہی وجہ ہے کہ رسول محتشمؐکی لختِ جگر سیدہ فاطمۃ الزہراءؓکی نمازِ جنازہ حضرت علیؓ نے خود پڑھانے کے بجائے ابو بکر صدیقؓ کو پڑھانے کا شرف دیا۔ نبی اکرم ؐ سے ایک بار ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے استفسار کیا کہ آسمان کے ستاروں کے بقدر کسی کی نیکیاں ہیں؟ تو آپ ؐنے فرمایا کہ: ہاں! سیدنا عمر فاروقؓ کی۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ خاموش ہوگئیں توآپ ؐنے پوچھا کہ آپ کے سوال کا کیا مطلب تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا یہ خیال تھا کہ اس قدر نیکیاں میرے والد ماجد حضرت ابو بکرؓ کی ہوں گی تو آپؐ نے فرمایا: ’’غمگین کیوں ہوتی ہو؟ اتنی نیکیاں آپ کے والد ماجد کی تو صرف سفرِ ہجرت کی تین راتوں کی ہیں۔‘‘
سیرتِ صدیقی پر عمل کی ضرورت:
سیدنا صدیق اکبر ؓ نے اپنی زندگی اور اپنے دورِ خلافت میں پر خطر حالات کے باوجود تنہا جس بے باکی، شجاعت وبہادری اور پختہ عزم کا مظاہرہ کیاتاریخ میں اس کی مثال ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتی۔ یقینا ًیہ جانشینِ رسولؐ کی فطری شجاعت تھی، جس کے نتیجے میں دین ِ مصطفویؐ کو وہ عروج ملا، جس کا اعلان نبی اکرمؐ اپنی زبانِ مبارک سے کر گئے تھے۔ آج جبکہ اُمت مسلمہ ہر چہار جانب سے اغیار کی سازشوں کا شکار ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمتِ مسلمہ کے حکمران، علماء اور عوام ان سخت حالات کا مقابلہ سیرتِ صدیق اکبرؓ کی روشنی میں اسی ایمانی بصیرت و شجاعت کے ساتھ کریں، جیسے صدیق اکبرؓ نے اپنی مکمل زندگی میں بالعموم اور جیشِ اسامہ ؒ کی روانگی، منکرینِ زکوٰۃ و مدعیانِ نبوت کی سرکوبی جیسے اہم امور کو بالخصوص حرزِ جان بنایا اور تمام نام نہاد اسلام دشمن طاقتوں کو مغلوب کر کے محمدی پرچم کو سر بلند کردیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سیرتِ سیدنا صدیق اکبرؓ سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل میں پر عزم ہو کر اسلام کی سر بلندی کے لیے جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
[email protected]>
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)