رضوان رشید کھانڈے
سید غلام رسول غیور اندرابی ۲۲ ؍اگست ۱۹۴۲ ءکو ضلع پلوامہ کے ایک مشہور گاوں رتنی پورہ میں پیدا ہوے۔غیور صاحب ایک اعلی پایہ کے مفکر،مدبر،ماہر تعلیم،مذہبی سکالر،سیاستدان اور انسان دوست شخصیت کے مالک تھے۔اس کے علاوہ آپ ایک باضمیر صحافی اور قلمکار بھی تھے۔پروفیسر رحمان راہی نے انھیں صوت کشمیر کا لقب دیا ہے۔اردو،انگریزی،اور فارسی زبان پر دسترس ہونے کے ساتھ ساتھ عربی زبان سے بھی آشنا تھے۔غیور صاحب عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور دینی و دنیاوی علم و تواریخ پر انھیں پورا عبور حاصل تھا۔غیور صاحب اولیاء کرام کے مشن کے علمبردار اور فلسفہ تصوف کے دلدادہ تھے۔علامہ اقبال علیہ رحمہ اور امام غزالی علیہ رحمہ سے بےحد متاثر تھے۔غیور صاحب ایک شعلہ بیاں مقرر بھی تھے۔انھوں نے اپنی عمر لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کی تھی۔غیور صاحب اعلی تعلیم یافتہ ہونے کی بنا پر دیگر سیاستدانوں سے بالکل منفرد تھے۔آخرکار ۲۲ ؍اکتوبر ۲۰۰۵ ءکو غیور صاحب نے جام شہادت نوش کیا۔بقول میر تقی میر ؔ ؎
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
غیور نے اپنی شاعری کی ابتدا کشمیری رباعیات سے کی۔غیور کے کلام کے دو اردو مجموعے ’’رزم گاہ حیات‘‘ اور’’سنگ و سمن‘‘ کے نام سے شایع ہوچکے ہیں۔اس کےعلاوہ کشمیری نعتوں کا مجموعہ’’ڈآلی‘‘ اور ایک کتاب’’فکری زاویے نثری خاکے‘‘ منظر عام پر آچکی ہیں۔غیور کی کتاب سنگ و سمن کی اکثر غزلیں چھوٹی بحر میں ہیں۔زبان میں شیرینی اور روانی پایی جاتی ہے۔شاعر نے بے ڈھنگ لفظی ترکیبوں کا استعمال نہیں کیا ہے۔غیور کے بیشتر اشعار انقلابی نوعیت کے ہیں ۔سنگ و سمن پر تبصرہ کرنے والوں نے ان اشعار کو نظر انداز کیا ہے۔کشمیر کے بیشتر اردو شعرا کے کلام کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے یہی اخذ کیا کہ ان کے اندر انقلابی شاعری کا فقدان ہے۔جبکہ غیور کے یاں اکثر شعروں میں حبیب جالب کی شاعری کا رنگ نمایاں ہے۔ان کے بعض شعروں میں تلوار جیسی کاٹ موجود ہے۔چند اشعار ملا حظ فرماے
سر دار بھی عاقبت ہے سنورتی
نہ الزام دو بےنیازوں کو یارو
ترتیب بھی میںدے نہ سکا آرزئوں کو
یہ درد بھی کچھ اور تھا زخم جگر کا
ہم کو کہاں فرصت ہے کہ ہم اپنی خبر لیں
مانوس چمن ہوکے بھی محروم چمن ہیں
آشوب شہر میں مرا قاتل حسین تھا
اور اس کی آبرو کی جواں داستاں ہوں میں
اگر لالے کے دل میں داغ ہے احساس فرقت کا
اسے صحن چمن میں ہی وہی خونیں قبائیں دو
تقدیس عشق کرتے ہیں نیلام بولہوس
ڈھونڈیں کہاں خلوص محبت شعار کو
بہت ساری مثالیں اور بھی ہیں لیکن مضمون کو طول دینے کی بنا پر ان ہی شعروں پر اختصار کرتا ہوں۔میرے ایک بزرگ استاد اسداللہ اسد نے کیا ہی لاجواب خراج عقیدت غیور صاحب کو پیش کیا ہے۔
اَز رفتن غیور دل رنجور شُد
ہایِ اُز بزمِ ادیبان دور شُد
آن سخن سنجی و اُستادِ ذہین!
وایِ اَز دستِ اجل مجبور شُد
رابطہ ۔7051832663