سید علی گیلانی کی گراں قدر تصنیف ’’اقبالؒ روح دین کا شناسا‘‘ اس کتابی سلسلے کی تیسری قسط ہے۔ جہاں تک گیلانی صاحب کی ادبی صلاحیتوں کا تعلق ہے تو کہاجا سکتا ہے کہ اگر گیلانی صاحب اس بد نصیب قوم کی رہبری کے فرائض نبھانے میں مشغول عمل نہ ہوتے تو بھی اُن کا شمار عصر حاضر کے صف اول کے ادیبوں میں ہوتا ۔البتہ ناقابل تردیدسچ تو یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی ادبی صلاحیتوں کو بھی اِس قوم کی رہنمائی میں صرف کیا اور ایسا کرتے ہوئے اُنہوں نے علامہ اقبالؒ کی بھر پور تقلید کی ہے ۔ظاہر ہے علامہ اقبالؒ کے باطن میں قوم کے تئیں وہی بے قراری کا عالم تھا جس کا مظاہرہ آج سید علی شاہ گیلانی صاحب کی تصانیف میں نظر آتا ہے بلکہ میں یہاں تک کہنا چاہوں گا کہ جو عالم اسلام کے حالات و واقعات کے تئیں عموماََ اور کشمیر کے حالات کے تئیں خصوصاََ علامہ اقبالؒ کی تڑپ اُنکے شاعرانہ مجموعے میں عیاں ہے وہی تڑپ گیلانی صاحب کی تصانیف میں بھی نظر آتی ہے اسلئے گیلانی صاحب اپنی تحریر و تقریر کو ہمیشہ ہی علامہ اقبالؒ کے افکار کی تشریح سے سنوارتے ہیںاِس اضافے کے ساتھ کہ عصر حاضر کے حالات و واقعات میں علامہ اقبالؒ کے افکار کو کیسے پرویا جا سکتا ہے اور اِس قابل تحسین عمل کا مدعا و مقصد اُن مشکلات کا حل ہے اُس درد کا مداوا ہے جن سے عالم اسلام گذر رہا ہے ۔یہ درد سب سے زیادہ اور طویل عرصے سے فلسطین و کشمیر میں اپنی تمام تر شدت سے موجود ہے اور پچھلے کم و بیش دو دَہائیوں سے عراق،شام،لیبیا اور یمن عالمی سازشوں کا شکار ہوا ہے اور اِن سازشوں کا مقصد توانائی کے اُن ذخیروں پہ مغرب کا تسلط قائم کرنا ہے۔شام کے سبزہ زاروں سے عراق کے ریگزاروں تک ایک ایسی آگ لگی ہوئی ہے جو بجھائے نہیں بجھتی۔جہاں مسلہ کشمیر لائنحل رہا وہی فلسطین کا درد بھی سوہاں روح بنا ہوا ہے بنابریں عصر حاضر میں جس حد تک اقبال شناسی کی ضرورت ہے شاید ہی کسی اور دور میں رہی ہو کیونکہ اقبالؒ کے ہاں جہاں درد کا بیاں ہے وہی مداوا کی صورت بھی ہے۔ اِس نظریے سے دیکھا جائے تو سید علی گیلانی صاحب بھی زیر نظر تصنیف وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔کتاب کا پیش لفظ ’عکس دروں‘ کے عنواں سے رقم کرتے ہوئے محترم شفیع شریعتی اسیر تا عمر فرماتے ہیں:
’’سید علی شاہ گیلانی کا فکر اقبال کا جنون کی حد تک متاثر ہونے کا راز اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ دونوں کے سینوں میںملت اسلامیہ کی خستہ حالی ،پسماندگی ،مظلومیت،بے حسی ،بیہوشی،بے بسی، خدا فراموشی،منزل نا شناسی اور خود فراموشی کے گہرے زخم اُبل رہے ہیں! ملت اسلامیہ کے امراض کہن کا چارہ جو اقبالؒ جس درد کی وجہ سے بیقرار اور بیمار ہے ،فکر اقبال ؒ کا سودائی سید علی گیلانی بھی اسی کرب و کسک کی بدولت بے سکون و بے آرام ہے ،اقبالؒ کے ساتھ آپ کی عقیدت و محبت کی جڑیں بھی ان ہی زمینوں میں تلاش کی جا سکتی ہیں!
آمدم بر سر مطلب! زیر نظر کتاب میں مطالب کو بڑی دقت سے چنا گیا ہے ۔صنف شاعری میں سید علی گیلانی نے علامہ اقبالؒ کی رباعیات کو چنا ہے ۔رباعی کی خصویت یہ ہے کہ یہ نظم و غزل کے برعکس کم بیانی پہ اکتفا کرتی ہے لیکن اُس کے باوجود وسیع المعنی ہے ۔رباعی جو چہار ہم آوزاں مصروں پہ مشتمل ہوتی ہے کی بندش میں جو حسن ہے وہ شاعری کی کسی اور صنف میں شاز و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔مطالب کی ابتدا ’حضور حق‘ سے ہوئی ہے اور حق تعالے کی بارگاہ میں حضور کو سب ہی امور حیات پہ فوقیت دی گئی اور اِس مطلب کی تشریح جہاں گیلانی صاحب کلام پاک کی آیات سے کرتے نظر آتے ہیں وہی اقبالیات میں موجود دوسرے دقت طلب شاعرانہ مطالب سے کی گئی ہے۔اقبالیات کے ایک ماہر علامہ احمد پرویز کا یہ ماننا ہے کہ اقبالیات میں کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تو کلام پاک کی طرف رجوع کرتا ہوں اور قران پاک میں کوئی آیت طلب تشریح رہتی ہے تو اقبالیات کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔سید علی شاہ گیلانی کی زیر نظر تصنیف میں یہ عمل عیاں ہے۔وہ رباعیات کی تشریح میں کہیں کلام پاک میں رجوع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کہیں حدیث شریف میں مطالب کی تشریح تلاش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں بہ اضافہ اینکہ وہ اقبالیات کی وسعت میں ہی ڈوب کے مطلب کے ساتھ اُبھرتے نظر آتے ہیںمثلاََ:
سخن با رفت از بود و نبودم
من از خجلت لب خود کم کشودم
سجود زندہ مرداں می شناسی
عیارکار من گیر از سجودم!
میرے وجود و عدم وجود پر بہت بحث ہوتی رہی ہے ۔میں نے مذامت و شرمندگی کی وجہ اس بحث و مباحثہ میں کوئی حصہ نہیں لیا۔میں نے لب کشائی ہی نہیں کی۔زندہ بندگان خدا کی کے سجدوں کی کیفیت،سوز و گداز،عجز و انکساری سے آپ بخوبی واقف ہیں ۔اِن اللہ علیم بذات الصدور(آل عمران:۱۱۹)اللہ دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔میرے سجدوں سے آپ میرے عمل کو پرکھ سکتے ہیں ۔میرے سجدے کسوٹی اور پیمانہ ہیں۔اگر ان سجدوں میں خلوص ،خشوع و خضوع ،آہ وزاری،رقت قلب ہوتو عمل کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ عمل کیا ہو گا:ان اللہ لا ینظرُ الی صورکم و اموالکم و لکن ینظر الی قلوبکم و اعمالکم: اللہ تمہاری صورتوں اور تمہارے مال و اسباب کو نہیں دیکھتا تمہارے دلوں کی کیفیت و تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔
حضور حق کے بعد تصنیف کا دوسرا باب حضور رسالت ؐسے متعلق ہے،جہاں حب رسولؐ کی اہمیت و افادیت عیاں ہے:
سحر بہ ناقہ گفتم نرم تر رو
کہ راکب خستہ و بیمار و پیر است
قدم مستانہ زد چنداں کہ گوئی
بپایش ریگ ایں صحرا حریر است
دوراں سفر علامہؒ اونٹنی سے کہتے ہیں کہ تمہارا سوار بد حال،تھکا ہوا،بوڑھا و بیمار ہے لہذا آہستہ سے چل مگر اونٹنی خود بھی دربار اقدس کی پا بوسی کیلئے بے چین ہے اور اُس کے لئے ریگزار کی ریت ، ریت نہیں بلکہ ریشم کا بچھا ہوا فرش ہے ۔کامیابی و کامرانی مقصود ہو تو محمدؐ سے وفا اُس کی شرط اولین ہے:
کی محمد ؐ سے وفا تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
عشق کی گوناگوںمنازل کا گیلانی صاحب نے اپنی تصنیف کے اُن ابواب میں ذکر کیا ہے جو حق تعالے و سرور کائنات آنحضور ؐ کے دربار اقدس میں حضور سے متعلق ہیں ۔ عشق کی اِن منازل کو طے کرنے کا مدعا اُن مقاصد کی تکمیل تھی جن کی نشاندہی جہاں کلام پاک میں منعکس ہے وہی رسول اللہ ؐ کی اسوہ حسنہ میں عیاں ہے ۔گیلانی صاحب یہی مطالب لئے حضور حق میں میں علامہ اقبال ؒ کے دیگر اشعار کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے نظر آتے ہیںجہاں مسلمین کے تنزل مقام کی جانب واضح اشارات ہیں:
چہ گویم زاں فقیرے درد مندے
مسلمانے بہ گوہر ارجمندے
خدا ایں سخت جاں را یار بادا
کہ افتاد است از بام بلندے!
کیا کہوں اِس درد مند فقیر (مسلمان) کے بارے میںمسلمان جو لعل و گوہر کی مانند بلند مرتبہ رہا ہے۔خدایا اِس سخت جان کو دست گیری فرما چونکہ وہ اُس بلند مقام سے گر چکا ہے جو کبھی اُس کے نصیب میں آیا تھا۔ایسا کیوں ہوا اِس کی نشاندہی بھی علامہؒ نے کی ہے جس کی جانب تذاکرات زیر نظر تصنیف میں منعکس ہیں:
ہنوز ایں چرخ نیلی کج خرام است
ہنوز ایں کارواں دور از مقام است
ز کار بے نظام او چہ گویم
تو می دانی کہ ملت بے امام است
ابھی بھی آسمان کج خرام یعنی نا مہرباں ہے چونکہ اُس کے نیچے جو کارواں ہے وہ اپنے مقام سے دور ہے ۔آپ رسولؐ کے حضور میں بے نظم کام کے بارے میں کیا کہوں آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ ملت بے امام ہو چکی ہے۔بے امامی کی اِس کیفیت کے بارے میں اگلے ہی باب میں یہ کہا گیا ہے کہ نہ ہی صوفی میں نہ ہی ملا میں وہ آب و تاب ہے جو ملت کے کھیون ہار بن سکیں کیونکہ جو اُن کی دین یا فرمان الہٰی کے بارے میں تاویلات ہیں اُسے سن کے تو اللہ تبارک تعالے، مصطفیؐ و حضرت جبرئیل ؑ بھی حیرت زدہ ہو جاتے ہیں:
ز من بر صوفی و ملا سلامے
کہ پیغام خدا گفتند ما را
ولے تا ؤیل شان در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفی را
صوفی و ملا کو میرا سلام ہو چونکہ ہمارے کو پیغام خدا سنا گئے البتہ اِن کی تاؤیل خدا و جبرئیل و مصطفی صلعم کو حیرت زدہ کر گئی۔کلام اقبالؒ و گیلانی صاحب کی تفسیر بر وقت ہے جس سے بے امامی کی کیفیت مشخص ہو گئی۔اِس بے امامی کی کیفیت میں جہاں نہ ہی ملا نہ ہی صوفی ملت از بام افتادہ کے کام آرہا ہے، کیا کیا جائے بقول علامہ اقبال ؒـ’’ پس چہ باید کرد‘‘یہ علامہ ؒ کے ایک فارسی شاعرانہ مجموعے کا نام ہے، چہ باید کرد؟علامہؒ جوانوں کو فرزنداں صحرا کو سامنے آنے کا پیغام دیتے ہیں چونکہ خیمے باندھنے کا وقت آ چکا ہے ،کارواں کو حرکت میں لانے کی گھڑی آ چکی ہے، بانگ درا کا سماں بندھ چکا ہے، یاد رہے کہ بانگ درا وہ بانگ ہے جو کارواں کو حرکت میں لانے کیلئے دی جاتی ہے:
سحر گاہاں کہ روشن شد در و دشت
صدا زد مرغے از شاخ نخیلے
فرو بل خیمہ اے فرزند صحرا
کہ نتواں زیست بے ذوق رحیلے
صبح درخشان طلوع ہو چکی ہے راستے اور جنگل روشن ہو چکے ہیں ۔درختوں کی شاخوں سے پرندوں کے چہچہانے کی صدا آ چکی ہے۔اے فرزند صحرا خیمے باندھنے کا وقت آ چکا ہے کیونکہ بے ذوق ہے وہ زندگی جس میں حرکت نہ ہو ۔فرزنداں ملت کو حرکت میں لانے کا درس بھی منعکس ہوا ہے:
عصر خود را بنگر اے صاحب نظر
در بدن باز آفرین روح عمر
قوت از جمعیت دین مبین
دین ہمہ عزم است اخلاص و یقین
اپنے ارد گرد کے زمانے کی روش دیکھ اور اپنے وجود میں ایک بار پھر روح عمرؓ کو جایگزیں کر دین مبین (اسلام) کہ قوت ظاہری سہارے نہیں بلکہ اخلاص و یقیں ہے۔عصر حاضر کی ابلیسی روش پر بھی تبصرات ہیں جس نے نوجوانوں کو دین سے بیگانہ کرتے ہوئے غلط راستے پہ ڈالا ہوا ہے ۔کہا گیا ہے کہ عصر جدید ابلیس کی تاریکیوں کیلئے روز روشن ہے:
جواناں را بد آموز ایں عصر
شب ابلیس را روز است ایں عصر
بد امانش مثال شعلہ پیچم
کہ بے نور است و بے سوز است ایں عصر
جوانوں کو عصر حاضر نے غلط کاری سکھائی ہے ابلیس کے تاریک کارناموں کیلئے عصر جدید روز روشن کی مانند ہو گیا ہے اور میںیعنی علامہ اقبالؒ دور حاضر کے دامن کے ساتھ شعلے کی مانند الُجھا ہوں کیونکہ یہ دور بے نور بھی ہے اور بے سوز بھی!جومطالب بیاں کئے گئے ہیں اُس کے علاوہ بھی گیلانی صاحب کی گرانقدر تصنیف میں ملت اسلامیہ سے متعلق کئی دوسرے مضامین ہیں جن میں برہمنی سیاست، تعلیم، نہنگ بہ بچہ خویش ،حضور عالم انسانی،مذہب غلاماں کی تعریف، از خواب گراں خیز(یعنی اُس خواب سے بیدار ہو جا جو تم پہ گراں یعنی بھاری پڑے گا) حکومت اللہی (یعنی ایک ایسی حکومت کی تعریف جس میں اللہ کے احکامات کی پیروی ہو گی) ارض ملک خدا است(یعنی جو زمین ہے اِس کا مالک اللہ ہے) حکمت خیز کثیر است، سعید حلیم پاشا ،افغانی، پیغام افغانی بہ ملت روسیہ ،عرض حال مصنف بحضور رحمتہ العالمینؐ، پیش کش بحضور ملت اسلامیہ،اور پیغام فرزندانو دختران ملت کے نام۔ اِن سب ہی مطالب کے مفصل بیاں کے لئے وقت چاہیے۔میری استدعا رہے گی کہ آپ یہ کتاب خریدیں اور پوری توجہ سے پڑیں ۔ گیلانی صاحب نے جس انداز سے مطالب کو سلیس اُردو میں پیش کیا ہے اِس سے کتاب کے مطالعے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہو گی۔
Feedback on: [email protected]