اللہ رب العالمین نے فرمایا’’جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے(سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر تمام انبیائے کرام علیہم السلام سے)میثاق(عہد)لیاکہ جو کچھ میں تمہیںکتاب و حکمت دوں۔پھر تمہارے پاس وہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )آئے،جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اُس پر ایمان لانا اور اُس کی مدد کرنا ضروری ہے۔فرمایا کہ تم اسکے اقراری ہو ؟اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے۔فرمایا،تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔پس اس کے بعد بھی جو پلٹ جائیں وہ یقینا پورے نا فرمان ہیں۔‘‘(سورہ آل عمران آیت نمبر ۸۱؎ ۸۲؎)
نبوت ازل سے ابد تک
سورہ آل عمران کی آیات نمبر۸۱؎ ، ۸۲ کی تفسیر میں مولانامفتی محمد شفیع آگے لکھتے ہیں۔’’اِس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ’’عامہ اور شاملہ‘‘ہے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں تمام سابقہ شر یعتیںمدغم ہیں۔اس بیان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’’بُعِثتُ اِلَی النَّاسِ کَآ فَّۃً‘‘کا صحیح مفہوم بھی نکھر کر سامنے آ جا تا ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ سمجھنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لیکر قیامت تک کے لئے ہے صحیح نہیں ہے۔بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ اتنا وسیع ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی نبوت سے پہلے سے شروع ہوتا ہے۔جیسا کہ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںکہ’’کُنتُ نَبِیًّا وَّ اٰدَمُ بَینَ الرُّوحِ وَالجَسَدِ‘‘(میں اُس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم علیہ السلام جسم اور روح کے درمیان تھے)اس کے بعد میدان حشر میں ’’شفاعت کبریٰ‘‘کے لئے پیش قدمی کرنا ،اور تمام بنی آدم کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہونا ،اور شبِ معراج میں ’’بیت المقدس‘‘کے اندر تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت کرنا،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’اِسی سیادت ِ عامہ ‘‘اور ’’امامتِ عظمیٰ‘‘کے آثار ہیں۔‘‘(تفسیر معارف القرآن،سورہ آل عمران آیت نمبر ۸۱؎ ۸۲؎)
تمام انبیائے کرام ؑکے سردار
سورہ آل عمران کی اِن دو آیات کی تفسیر میںمفتی احمد یار خان نعیمی لگ بھگ پانچ صفحات لکھنے کے بعد آگے لکھتے ہیں۔’’ساری اُمت کا اِس پر اتفاق ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم’’ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کے سردار ‘‘ہیں۔اس کے بے شمار دلائل ہیں،جن میں سے بطور اختصار کچھ پیش کررہے ہیں۔(۱)یہی آیت ہے،جس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کے بھی نبی ہیں،اور سارے پیغمبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہیں۔سب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا ،اور عہد بھی نہایت پختگی سے لیا گیاکہ ’’عہدِربوبیت ‘‘میںصرف اَلَستُ بِرَبِّکُم قَالُو بَلَیٰ پر کفایت ہوئی ۔مگر یہاںبجائے بَلَیٰکے اَقرَرنَاکہلوایا اور سب کو اس پر گواہ بنایا۔اور اللہ رب العزت نے اپنی شاہی گواہی کو بھی شامل فرمایا ۔(۲)کُنتُم خَیرُاُمَۃُاُخرِجَت الِنَاسِ اِس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت تمام اُمتوں سے افضل ہے۔اور ظاہر ہے کہ اُمت کی افضیلت اُس کے پیغمبر کی افضلیت ہوگی۔‘‘اِس طرح مفتی صاحب نے قرآن پاک کی بیس۲۰ آیات سے ثابت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیائے کرام علیہم السلام کے سردار ہیں۔اس کے بعد آگے لکھتے ہیں۔’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت کی بے شمار احادیث ہیں،جن میں سے چند پیش کی جا رہی ہیں۔(۱)حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کے سردار ہیں۔قیامت میں اول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مبارک کُھلے گی۔پہلے شفیع حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔(صحیح مُسلم،مِشکوٰۃ باب فضائل ِ سید الانبیاء)۔(۲)حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت تمام اُمتوں سے ذیادہ ہے۔اور جنت میں سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جائیں گے۔(صحیح مُسلم)۔(۳)صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غنیمتیں حلال ہوئیں،تمام رُوئے زمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مسجد بنائی گئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری خلق(مخلوق) کے نبی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’خاتم الانبیاء‘‘ہیں۔(صحیح مُسلم)۔(۴)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئیں ہیں۔‘‘(صحیح بخاری،صحیح مُسلم)۔(۵)حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔’’میں اُس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے۔‘‘(جامع ترمذی ، مشکوٰۃ) ۔ (۶)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں قیامت کے دن اولاد ِآدم کا سردار ہوں،میرے ہاتھ میں ’’لوا لحمد ‘‘ ہو گاکہ اس جھنڈے کے نیچے حضرت آدم علیہ السلام اور اُن کی تمام اولاد ہو گی۔‘‘(جامع ترمذی)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’حضرت آدم علیہ السلام صفی اللہ ہیں ،حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں،حضرت مو سیٰ علیہ السلام کلیم اللہ ہیں،حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ ہیں،مگر میں ’’حبیب اللہ‘‘ ہوں۔میں ’’شفیع المذنبین‘‘ ہوں،میں ہی جنت کا دروازہ کھلواؤں گا،اور میں اللہ کے نزدیک سارے اولین و آخرین سے افضل ہوں۔‘‘(جامع ترمذی،سُنن دارمی،مشکوٰۃ)۔(تفسیر نعیمی،سورہ آل عمران آیت ۸۱؎ ۸۲؎)۔
سب سے اعلیٰ نسب
اللہ رب العزت نے تمام مخلوقات میں سے سب سے افضل انسانوں کو بنایا ہے،اور ’’اشرف المخلوقات‘‘ کا لقب عطا فرمایا ہے۔انسانوں میں سب سے افضل اور سب سے اعلیٰ نسب سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’بنی آدم کے طبقات اور زمانے گزرتے رہے،یہاں تک کہ مجھے اُس طبقے میں بھیجا گیا جو سب سے بہترین تھا۔‘‘(صحیح بخاری،کتب المناقب)۔حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’بے شک اللہ ربِّ کائنات نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو منتخب فرمایا۔اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے بنو کنانہ کو منتخب فرمایا۔اور بنو کنانہ میں سے قریش کو منتخب فرمایا۔اور قریش میں سے بنو ہاشم کو منتخب فرمایا۔اور بنو ہاشم میں سے مُجھے منتخب اور پسند فرمایا۔‘‘(صحیح مُسلم،جامع ترمذی،مُسند احمد بن حنبل)۔حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،قریش نے ایک مجلس میں اپنے حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال کھجور کے اُس درخت سے دی جو کسی ٹیلہ پر ہو۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’بے شک اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے اُ ن کی بہترین جماعت (انبیائے کرام علیہم السلام )میں رکھا۔اور جب پسندیدہ قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلے میں رکھا۔پھر اُس نے گھرانے منتخب فرمائے تو مجھے اُن میں سے سب سے بہتر گھرانے میں رکھا۔پس میں اُن میں سے بہترین فرد اور بہترین خاندان والا ہوں۔‘‘(جامع تر مذی،باب المناقب)۔حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت اقدس میں حاضر ہوئے گویا اُنھوں نے کوئی نا خوش گوار بات سُنی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا۔میں کون ہوںَ؟ صحابہء کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ،اللہ کے رسول ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں،اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے بہترین انسانوں میں پیدا کیا۔پھر اللہ رب العزت نے مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا مجھے ان میں سے بہترین حصے میں شامل فرمایا۔پھر اُس حصے کو مختلف قبائل میں تقسیم فرمایا تو مجھے بہترین قبیلے میں رکھا۔پھر گھرانے بنائے تو مجھے اُن میں سے بہترین گھرانے میں رکھا۔اور سب سے اچھے نسب کا حامل بنایا۔‘‘(جامع ترمذی،باب المناقب)۔مسند احمد بن حنبل میں اتنے الفا ظ ذیادہ ہیں۔’’میں ذاتی شرف اور حسب و نسب کے حوالے سے تم سب سے افضل ہوں۔ ‘‘