ڈاکٹر عریف جامعی
حدیث جبرائیل کے مطابق ایمان، اسلام اور احسان کی ترتیب میں احسان اس خُلق یا رویے کا نام ہے جس میں انسان ایمان لاکر کچھ اس طرح اسلام میں داخل ہوتا ہے کہ وہ اپنا تن، من اور دھن دین حق کا بول بالا کرنے کے لئے وار دیتا ہے۔ احسان دراصل نیکی کی وہ معراج ہے، جہاں مؤمن قرآن کو نصب العین بناکر محض رضائے الہٰی کی خاطر نہ صرف اپنے قول و فعل بلکہ فکر تک کا تعین کرتا ہے۔ یعنی مؤمن اس طرح خدا کے استحضار میں جینے لگتا ہے کہ اس کا اٹھنے والا ہر قدم، اس سے سرزد ہونے والا ہر عمل بلکہ اس کے ذہن میں آنے والا ہر خیال اسی انداز میں خدا کے رنگ میں رنگ جاتا ہے جس کی تصویر قرآن میں کچھ اس طرح کھینچی گئی ہے: ’’اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ تعالی سے اچھا رنگ کس کا ہوگا۔‘‘ (البقرہ، ۱۳۸)اس طرح احسان انسان کی پوری حیات کو سراپا عبادت بنا دیتا ہے۔ اس درجے پر فائز ہوکر انسان خدا کے اس منصوبے میں شمولیت اختیار کرتا ہے جس کے تحت عبادت الہٰی کو جن و انس کا مقصد تخلیق قرار دیا گیا ہے،’’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں‘‘ (الذٰریٰت، ۵۶) تاہم یہ عبادت چند رموز بندگی کا نام ہے اور نہ ہی یہ چند روایات کا مجموعہ ہے۔ یہ عبادت دراصل اس فکر کی خارجی تشکیل (ایکسٹرنلائزیشن) ہوتی ہے جس کی بنیاد کلمۂ طیبہ میں ہوتی ہے۔ جب اس کلمۂ توحید کا بیج قلب سلیم کی ستھری زمین پر پڑتا ہے تو وہ بہت جلد برگ و بار لاکر ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرتا ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی ،’’اللہ تعالی نے پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی، (اس کی) مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے‘‘ (ابراھیم، ۲۴) فکرونظر کے اس زاویے سے پوری حیات انسانی میں وہ معنوی حسن پیدا ہوجاتا ہے، جسے احسان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جبرائیل علیہ السلام کے استفسار پر نبی اکرمؐ نے احسان کی اس طرح تشریح فرمائی ہے: ’’ تو اللہ کی اس طرح عبادت کر کہ جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہے، پس اگر تو اسے دیکھ نہیں رہا، وہ پھر بھی تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘ (حدیث جبرائیل)
یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ جماعت صحابہؓ کو پچھلے صحائف میں ’قدسیوں کی جماعت‘ کہا گیا ہے۔ یعنی یہ جماعت اعتصام باللہ کی وجہ سے دنیا کی پاکیزہ ترین جماعت ہے۔ تاہم ان میں سے ’السابقون الاولون‘ (التوبہ، ۱۰۰) کا نہایت اعلی مقام ہے۔ البتہ مجموعی طور پر یہ سبھی اس خیر کے مستحق ہیں جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ( النساء، ۹۵) ان قدسیوں کی رب تعالیٰ نے قرآن میں کچھ اس طرح تصویر کھینچی ہے،’’محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں، آپس میں رحم دل ہیں‘‘(الفتح، ۲۹) یہ بات نہایت ہی معنی خیز ہے کہ سیدنا حسن ؓ اور سیدنا حسینؓ، دونوں صفت احسان کو مدنظر رکھتے ہوئے اسم با مسمیٰ تھے، کیونکہ حسن اور حسین ناموں کا ماخذ ہی ’حسن‘ (افکار و اعمال کا حسن، خوبصورتی) ہے۔جہاں کبار صحابہؓ میں صدیق و فاروق و عثمان و علی کے ساتھ ساتھ عبد الرحمٰن ابن عوف، ابو عبیدہ ابن الجراح، طلحہ، زبیر، سعد ابن ابی وقاص اور عمرو ابن العاص شامل ہیں، وہیں صحابہ زادوں یا صغار صحابہ میں ابن ابو بکر، ابن عمر، ابن علی، ابن زبیر وغیرہ جیسی شخصیات شامل ہیں۔ ان میں سے دو شخصیات، عبداللہ ابن زبیر ؓ اور سیدنا حسین ؓ نے یزید کی ولی عہدی کی شدید مخالفت کی۔ تاہم دونوں نے امویوں کے خلاف کوئی مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کے بجائے انفرادی طور پر ہی ان کی بالادستی ختم کرنے کی کوشش کی۔یہ بات نہایت دلچسپ ہے کہ عبداللہ ابن زبیر دس سال (۶۸۲ سے ۶۹۲) تک متوازی مسند خلافت پر متمکن رہے۔ اس کے باوجود وہ اموی اقتدار کو ختم نہیں کرسکے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے کئی سیاسی غلطیاں کیں، جس کی وجہ سے امویوں کو پھر سے سنبھلنے کا موقع مل گیا۔ یزید نے جو لشکر عبداللہ ابن زبیر کے خلاف بھیجا تھا، اسے یزید کے مرنے کی خبر پہنچتے ہی شام واپس لوٹنا پڑا۔ اس کے بعد عبداللہ ابن زبیر نے امویوں کو مکہ سے نکال دیا، جس سے اموی ان کے خلاف متحد ہوگئے۔ اس کے باوجود انہوں نے اس پوری مدت میں اپنی کوئی باضابطہ فوج نہیں بنائی، اس لئے عبدالملک نے انہیں آسانی کے ساتھ شکست دی اور انہیں شہید کیا۔ ظاہر ہے کہ ان کے دفاع کے لئے انہیں کوئی فوج دستیاب نہیں تھی اور قبائلی طرز پر کوئی بڑا اقتدار سنبھالا نہیں جاسکتا تھا۔ تاہم جس عزیمت کے ساتھ نواسۂ صدیق نے جام شہادت نوش کیا اور جس جرأت کے ساتھ ان کی والدہ، اسماء بنت ابی بکر (ذات النطاقین) نے اپنے بیٹے کا حوصلہ بڑھایا، وہ تاریخ عزیمت کا ایک سنہرا باب ہے۔ جب حجاج بن یوسف ثقفی نے مکہ کا محاصرہ کر لیا اور تنگ آکر بہت سے لوگ بھی عبداللہ ابن زیبر کا ساتھ چھوڑ گئے، تو آپ نے اپنی والدہ، حضرت اسماء سے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ انھوں نے فرمایا کہ ’’بیٹا اگر تجھے یقین ہے کہ تو حق پر ہے تو میں خوش ہوں گی کہ تو راہ حق میں لڑتا ہوا شہید ہو جائے۔ لیکن اگر دنیاوی جاہ طلبی کے لئے لڑ رہا ہے تو تجھ سے برا کوئی نہیں‘‘ ماں کی یہ بات سن کر ابن زبیر مردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ حجاج نے تین دن تک ان کی لاش کو سولی پر لٹکائے رکھا۔ تیسرے دن حضرت اسماء اس طرف سے گزریں اور سولی پر بیٹے کی لٹکتی ہوئی لاش دیکھ کر فرمایا،’’ابھی اس شہسوار کے اترنے کا وقت نہیں آیا‘‘
جہاں تک سیدنا حسین ؓ کا تعلق ہے تو انہوں نے سب سے پہلے مدینہ سے مکہ کا سفر کیا۔ یہاں پر جب آپ کو اطمینان ہوا کہ کوفہ میں جاکر اموی حکومت کے خلاف منظم کاروائی کی جاسکتی ہے تو آپ کوفہ کوچ کرنے کے بارے میں سوچنے لگے۔ واضح رہے کہ کوفیوں کے بارہ ہزار خط موصول ہونے کے باوجود صورت حال کا صحیح اور مکمل اندازہ لگانے کے لئے آپ نے اپنے عم زاد، مسلم ابن عقیل کو خود کوفہ کا رخ کرنے سے پہلے ہی وہاں بھیجا۔ ان کے ہاتھ پر اٹھارہ ہزار اور کئی روایات کے مطابق اسی ہزار افراد نے سیدنا حسین ؓ کے لئے بیعت کی۔ اہل کوفہ کی فطرت سے ناواقفیت کی وجہ سے سیدنا مسلم ابن عقیل نے نہایت تعجیل سے کام لیتے ہوئے سیدنا حسینؓ کو یوں خط لکھا: ’’پیامبر اپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا۔۔۔ جونہی آپ کو میرا یہ خط موصول ہو، فوری طور پر روانہ ہوجائے، کیونکہ یہاں سب لوگ آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘ (طبری، جلد ۶، ص ۲۱۱)لیکن بہت جلد یہی کوفی مسلم ابن عقیل کی رفاقت سے دستبردار ہوگئے۔ تاہم مکمل تنہا ہونے کے باوجود کوفی آپ کے سامنے آکر آپ کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ اس لئے دور سے ہی آپ پر پتھر برسانا شروع کیے۔ ناسخ التواریخ نے اس وقت آپ کا کوفیوں سے خطاب کچھ اس طرح نقل کیا ہے،’’تمہیں کیا ہوگیا کہ مجھ کو پتھر مارتے ہو، جس طرح کفار کو مارا جاتا ہے، حالانکہ میں اہل بیت انبیاء میں سے ہوں۔ کیا تم رسول اللہؐ کی اولاد کا بھی لحاظ نہیں کرتے۔‘‘ طبقات ابن سعد ۔جلد ۴ کے مطابق جن لوگوں نے مسلم ابن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، وہ آہستہ آہستہ ان کا ساتھ چھوڑتے گئے۔ پھر جب آپ مکمل تنہا ہوگئے تو ابن زیاد نے ہانی بن عروہ اور آپ پر قابو پالیا اور آپ کو شہید کیا۔
مسلم ابن عقیل کی شہادت کی خبر سیدنا حسینؓ کو مکہ سے روانہ ہونے سے پہلے نہیں ملی۔ انہوں نے شہید ہونے سے قبل آپ کو خبر بھیجی تھی کہ ’’ان لوگوں میں سے جن اٹھارہ ہزار اشخاص نے میرے ہاتھ پر بیعت کی تھی، وہ اپنی بیعت سے اعراض و انحراف کرچکے ہیں۔ لہٰذا وہ (آپ) مکہ مکرمہ ہی میں واپس جائیں اور وہیں مقیم رہیں۔ اہل کوفہ پر اعتبار نہ کریں اور ان کے دھوکہ میں نہ آئیں۔‘‘ سیدنا حسین ؓ کو یہ خبر مقام ثعلبیہ پر ملی۔ انہوں نے آل عقیل کو اس شہادت کی خبر دی اور واپس لوٹ جانے کے لئے فرمایا۔ جلاء العیون کے مطابق آل عقیل نے کہا: ’’خدا کی قسم! ہم واپس نہ جائیں گے، جب تک کہ مسلم کا انتقام ان سے نہ لے لیں یا پھر جو شربت انہوں نے پیا ہم بھی وہی شربت نوش کریں۔‘‘ قافلے میں شامل ساٹھ کوفیوں کی رائے بھی یہی تھی کہ سفر جاری رکھا جائے۔یہاں پر اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیدنا حسینؓ کتنے صلح جو تھے کہ انہوں نے اب کوفہ کے بجائے وہ راستہ اختیار کیا جو شام کو جاتا تھا۔ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ یزید کے ساتھ بات چیت کرنے کے متمنی تھے۔ اس ضمن میں تاریخی روایات کچھ اس طرح سے دستیاب ہیں: ’’مسلم ابن عقیل کی شہادت کی خبر سن کر سیدنا حسین ؓ نے واپس مکہ لوٹ جانے کا ارادہ کیا، لیکن بنو عقیل (برادران مسلم) مانع ہوئے۔ لہٰذا آپ آگے کوفہ کی طرف چلے، یہاں تک کہ کوفہ کے قریب پہنچ گئے (حتیٰ قارب الکوفہ)۔ یہاں آپ کی حر بن یزید الریاحی سے ملاقات ہوئی، جس کے ساتھ ایک ہزار سوار تھے۔ حر نے آپ کو کوفہ لے جانے کا ارادہ کیا، لیکن آپ نے کوفہ جانے سے انکار فرمایا اور آپ یزید بن معاویہ کے پاس جانے کے لئے شام کی طرف مڑگئے۔ جب آپ کربلا پہنچے تو آپ کو آگے (شام کی طرف) جانے سے روک دیا گیا اور کوفہ جانے اور عبیداللہ بن زیاد کی بات ماننے کے لئے کہا گیا۔ آپ نے اس بات سے انکار کیا اور یزید کے پاس شام جانے کو پسند کیا (فامتنع و اختار المضی نحو یزید بالشام)۔(عمدہ الطالب فی انساب آل ابی طالب)
سیدنا حسین ؓ کی مہاجرت کی اس بدلتی ہوئی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آپ کے مکہ سے نکلتے وقت اور کربلا میں خیمہ زن ہوتے وقت کے حالات ایک جیسے نہیں تھے۔ آپ کے مدینہ اور مکہ سے چلتے وقت یزید کی حکومت بالفعل قائم نہیں ہوئی تھی۔ اس کے برعکس جب آپ کربلا پہنچے تو حالت یہ تھی کہ پوری اسلامی سلطنت میں لوگ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرچکے تھے اور اس کی حکومت قائم ہوچکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے عمر ابن سعد ابن ابی وقاص کے سامنے شام جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا تاکہ آپ یزید کے ساتھ معاملات طے کرسکیں۔ تاہم ابن زیاد کو اس بات پر اصرار تھا کہ سیدنا حسین ؓ ایک طرح کی خود سپردگی (سرینڈر) کریں۔ ظاہر ہے کہ سیدنا حسینؓ جیسی حوصلہ مند شخصیت سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آپ اپنے ساتھیوں اور اہل خانہ سمیت کربلا میں شہید ہوئے۔ اس طرح آپؓ آنے والے وقتوں کے لئے استبداد کے سامنے احتجاج اور مزاحمت کا استعارہ بن گئے۔
(مضمون نگار محکمۂ اعلی تعلیم جموں و کشمیر میں اسلامک اسٹڈیز کے سینئر اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ۔ 9858471965