عید الاضحیٰ کے مبارک موقع پرملت ِاسلامیہ کو ہدیہ ٔ تبریک پیش کرتے ہوئے ناچیز دلی مسرت محسوس کر رہا ہے ۔ اس مبارک موقعہ پر ہر گوشہ ٔ زمین میں ذوالحجہ کی مناسبت سے اہل ایمان سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی لازوال قربانیوں اور درخشاں سیرت بصد شوق یاد کرتے ہیں ۔ ابراہیم خلیل اللہ ؑنے راہ دعوت و عزیمت میں کھٹنائیوں کے پہاڑ عبور کرتے ہوئے اللہ کی زمین پر صرف اُسی کا بول بالا کر نے کے لئے جس جذب و شوق اور صبر و استقامت کی لازوال داستان رقم کی، اللہ نے ا س کی اتنی پذیرائی وٹحسین کی کہ آپ ؑ کو ہر آزمائش میںسند کامرانی بھی ملی اور انسانوں کی پیشوائی کا منصب بھی عطا ہو ا ۔ براہیمی ؑسیرت کا ورق ورق ہمیں ہر لمحہ اور ہر آن محض اپنے مولا وملجا کے ساتھ محبت واطاعت کا ابدی رشتہ قائم رکھنے کے لئے قربانی اور خلوص مندی کا درس دیتا ہے ۔ یہ زریں اوراق ہمیں اپنے رب کے ساتھ غیر مشروط ربط وتعلق مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی حکمتیں سجھاتے ہیں ۔ یاد رکھئے کہ اللہ کے ساتھ کامل وہمہ جہت وابستگی اس امر سے مشروط ہے کہ جو بندہ ٔ مومن اپنا قلب و نظر اور روح و جگر اُس کے سپرد کر تاہے ، وہ محض اپنی ذاتی اصلاح پر اکتفا نہیںکر سکتا بلکہ اسے یہ فکر بھی لامحالہ دامن گیر رہتی ہے کہ پوری نوع انسانی بھی خالق کی دہلیز پر اپنی بندگی کی جبین جھکانے کے بے لوث جذبے اور ادا ئے دلبرانہ سے سرشار ہو۔ تعمیر سیرت کے اس اہم کام کا ایک ہی مقصد ایثار پیشہ بندے کے زیر نظر رہتا ہے کہ اللہ کی رضا اس کا مطمح ٔ نظر اور زندگی کا خلاصہ بنارہے۔ اس خدائی خدمت کے لئے اللہ کے مخلص وثابت قدم بندے کو پُر خطر راہوں اور ظلم وجور کے اندھیاروں میں اُمید ویقین کے دِیے مومنانہ بصیرت وعزیمت کے ساتھ روشن کر نے پڑتے ہیں اور پھر ایمانِ کامل وعمل ِصالح کی راہ پر آگے بڑھنے میں جست بھی لگانی ہوتی ہے۔ اسی دورُخی کام کی انجام دہی میں مومن کی فتح وکامیابی کا رازمضمر ہے لیکن یہ مقام مومن کو ہر طرح کی آزمائشوں کی بھٹی سے کامیابی کے ساتھ گزرکر ہی مقدر ہوتا ہے ۔ ہم جب تخلیق آدمؑ سے ہوتے ہوئے سیدنا ابراہیم ؑ ا ور پھر سرور عالم ؐتک پھیلی اسلام کی سنہری تاریخِ عزیمت وقربانی پرغو ر کر تے ہیں تو صاف طور یہ ذہن نشین ہوتاہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ ایک جانب مومن زمین پرا س کی خالصتاً کامل واکمل بندگی کا نمونہ بن جائے اور دوسری جانب مومن بتان وہم و گمان اور شرک وشیطینت کے خلاف بھی ہمہ وقت برسر پیکار رہے ۔ان دواہم محاذوں پر خدائی مشن کی تکمیل کے لئے لازم ہے کہ اول مومن اپنے اوپر اسلامی احکامات کے نفاذ سے اپنا تزکیہ کرتارہے اور دوم دوسروں تک دعوت دین پہنچانے میں سرگرم عمل رہے۔ کل ملاکر یہی کچھ دنیا میں ایک مومن کی منصبی ذمہ دار ی ہے ۔ سیدنا ابراہیم ؑ نے یہ فریضہ انفرادی طور انجام دینے میں ایثار وقربانی سے کام لیتے ہوئے کبھی پیچھے کی طرف مڑ کر نہ دیکھا ۔ آپ ؑ نے تن تنہا حق وصداقت کی مشعل برداری میں اپنے باپ، اپنی قوم ، اپنے معاشرے ،ا پنے ملک ، بادشاہِ وقت اور زمانے کے توہمات و جہالتوں کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کر نے میں پل بھر کا بھی پس وپیش نہ کیا۔ یہ سارا کام جب اس امام الناس کہلانے و الے اولوالعزم پیغمبر ؑ نے پوری تندہی اور جانفشانی سے انجام دیا تودنیا کی اس قدر کایاپلٹ گئی کہ اللہ کی توحید کا سایہ کون ومکان پر دراز ہو ا۔ عید قربان اور کعبہ شریف اسی سایۂ توحید کے خدائی تحفے ہیں ۔آج توحید کے ا س خدائی سائے سے اپنی وفا نبھانے میں ہم خود بھی ڈگمگا رہے ہیں اور وقت کی بعض شریر حکومتیں ، شر پسند قومیںا ور ظلم کے پروردہ ادارے بھی ہمیں اپنی اصل دینی پہچان سے غافل ہونے کی پٹی پڑھا رہے ہیں ۔ یہ خدا بیزار عناصر کہیں ہمارے ایمان کے پیچھے پڑے ہیں ، کہیں ہمارے عقائد میں در اندازیاں کر رہے ہیں ، کئی ہمارے شرائع میں دخل در معقولات کر رہے ہیں ، کہیں ہمارے پرسنل لاء کو مسخ کر نے کے لئے پر تول رہے ہیں، کہیں ہمارے ملکوں پر چڑھائیاں کر رہے ہیں اور کہیں آستین کے سانپوں کو خیر خواہِ انسانیت جتلاکر ہماری صفوں میں نمرودیت اور آزریت کے پرستاروں کو گھسا رہے ہیں ۔ ایسے میں ہم عید قربان کے ا س اہم موقع پر کس وحشت ودہشت کے گھپ اندھیرے میں منارہے ہیں ،وہ ہم سب پرواضح ہے ۔ ہم اپنے وطن عزیز پر مسلسل گرائی جارہی قہر وستم کی بجلیوں کو کیسے بھلا سکتے ہیں جن کی زد میں نہ صرف مکان و مکین آرہے ہیں بلکہ ہمارے اَن گنت عزیزوں کے جنازے بھی اُٹھ رہے ہیں ،آگ و آہن کا رقص بسمل بھی جاری ہے ، انسانی اقدرا کی مٹی پلید ہورہی ہے،ہر سو آہ و بکا اور چیخ و پکار ہے ، حدیہ ہے کہ انصاف طلبی کے جواب میں جورو جفا کی برساتیں ہورہی ہیں،تھانے ،جیل اور خانہ نظر بندیاں معمول بنے ہیں، منصفانہ ا ور پُرامن کشمیر حل باہمی افہام وتفہیم سے ڈھونڈنکالنے کے بجائے لوگوں کواعصابی طور کمزور کرنے کے نئے نئے حربے آزمائے جارہے ہیں،چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیاجارہا ہے،جیلوں اور عقوبت خانوں کے دروازے کھولے جارہے ہیں، حتیٰ کہ ریاست کی خصوصی ائینی پوزیشن سے کھلواڑ کرنے کے نت نئے فتنے برپا کئے جارہے ہیں اور سب سے بڑھ کر مجبور و مقہور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ان تمام ریشہ دوانیوں کا توڑ صرف سیدنا ابراہیم ؑ کی قربانیوں کا مفہوم سمجھنے اور پیغمبر اسلام ؐ کے اسوہ ٔ حسنہ کی مخلصانہ قبولیت میں پنہاں ہے ۔ ہم راسخ العقیدہ مسلمان جینے پر تیار ہوں تو اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے ،بس۔یہی ایک دروازہ ہے جہاں ہمارا مقدمہ سنا بھی جائے گا اور فیصلہ بھی ہمارے حق میں دیا جائے گا ،اسی ایک در کی پر جبہ سائی سے ہر درد کا مداوا ہوگا، چارہ گری بھی یہیں ہوگی مگر شرط یہ ہے کہ ہم فرداًفرداً تن من دھن سے اسلام کے ہوجائیں اور دنیا کے جھوٹے خداؤں سے کٹ کر بس اسی ایک درگاہ ِ الٰہی سے لو لگائیں۔ یہ ہوا تو عنقریب یہ حقیقت اظہر من ا لشمس ہوگی کہ ہماری انفرادی ا ور اجتماعی زندگی سے انتشار و اضطراب کا خاتمہ ہوگا اور زمانے کی ہرآگ انداز گلستان اختیار کر ے گی کہ قوم وملت مثل خلیل اس آگ کی لپٹوں سے سلامتی اور شادمانی کے ساتھ سرخرو نکل آئے گی ۔یہی براہیمی ؑزندگی کا لب لباب اور عیدالاضحیٰ کا پیغام ہے۔ اس موقع پر اپنے آس پاس کے غرباء اور دین دکھیوں کا خاص خیال رکھتے ہو ئے بس اللہ کا ہوکر جینے کا گن ہمیں آگیا تووہ ہمارا اور آپ کا ہوکے رہے گا ؎
آج بھی ہو جو ابراہیمؑ سا ایمان پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستان پیدا