سیدالسّادات حضرت میرسید علی ہمدانی ؒ

Towseef
10 Min Read
15SRNP2: SRINAGAR, OVEMBER 15 (UNI) The damaged minarate of centuries old revered holy shrine of Hazrat Mir Syed Ali Hamdani at Khan-e-Kah-e-Moula in Shaher-e-Khas damaged due to fire caused after a lightning struck in the midnight Wednesday in Srinagar.

محمداشرف بن سلام

سیدالسّادات حضرت میرسید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت اور ان کے داعیانہ کارنامے سات سو برس گزرنے کے باوجود لوگوں کے ذہنوں میں تروتازہ ہیں اور علم وعرفان کا روشن ستارہ ہونے کے باوصف بحیثیت ولی کامل کشمیر میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔آپ ؒ اُن عظیم المرتبت ہستیوں میں شامل ہیں ،جنہوںنے گھٹا ٹوپ اندھیرں میں اسلام کی روشنی پھیلائی اوردین حق کی تبلیغ و تشریح ، اللہ کی وحدانیت اور کلمتہ الحق کے لئے اپنی تمام زندگی وقف کر دی ۔ آپ ؒ نےاس وادی کشمیر کی کھیتی میں ایسے ثمر دار اشجار اور شیرین باغ لگائے جن سے رہتی دنیا تک یہاں کے لوگ مستفید ہوتے رہیں گے۔آپ ؒ نے وادی کشمیر کے لوگوں کو کفر کی ذلالت سے نکال کرایمان کی نعمت سے مالا مال کیا۔ ہم جیسے لوگوں کی کیا مجال کہ اتنی عظیم المرتبت ہستی کی سیرت پر تذکر ہ کرسکیں۔

حضرت میرسید علی ہمدانی ؒ کی تشریف آوری سے وادی ٔ کشمیر میں ایک ایسی مشعل روشن ہوگئی جس سے پورا کشمیر منور ہوااور یہاں کے لوگوں میں ایساذہنی ، دینی اورمعاشی انقلاب آیا،جس کے اثرات آج بھی یہاں لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قائم و دائم ہے اور آیند ہ بھی رہیں گے۔حضرت امیرؒ کی تعلیمات قرآن’ حدیث اور صحابہ کرام کی سیرت کا آئینہ ہیں ۔آپؒ کی تصانیف علم وادب اور ثقافت وفکر کا ایک نہایت ہی گرانقدر سرمایہ ہے۔ آپؒ کی تصانیف میں اہل ذوق رکھنے والے سالکانِ حق کیلئے ہدایت کا ذخیرہ موجود ہے۔ آپ ؒاپنی ایک تصنیف ’’ذخیرة الملوک‘‘ میں فرماتے ہیں: کہ اے عزیز اگر تجھے ابھی یہ حوصلہ پیدا نہیں ہواکہ صفا اور مودت کی قوت سے اسرار کے خرانہ سے رکاوٹوں کی مہر کو دُور کرلےاور گنج عرفان کی ابدی اور سرمدی دولت کے حقائق سے اپنادامن بھر پور کرلے۔ حضرت میرسیّدہمدانی ؒ وہ نمایاں شخصیت ہیں جنہوں نے اہل کشمیر کےذوق و سوچ یکسر بدل کر انہیں پسماندگی اور جہالت سے نجات دلائی ۔ معاشی اصلاح کیلئے اُن ہنرمنددں جو آپؒ کے ہمراہ آئے تھے ،جن میں سادات کے علاوہ ،ماہر دستکاراورہنر مند شامل تھے ،نے یہاں لوگوں نے ہنر سکھا یا ، جس میں شالبافی’ پشمینہ سازی’ خوشنویسی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ چنانچہ جو اصلاحِ نفس کی تحریک حضرت بلبل شاہ قدس اللہ سرہ نے شاہی محلات میں پہنچایا تھا ۔ اُسے سیّد علی ہمدانی ؒ ؒنے اپنی خداداد صلاحیت سے وادی کے کونے کونے میں پہنچادیا ۔ آپ ؒ نے علماءاور مشائخ کو کشمیر کے طول و عرض میں تبلیغ کےلئے بیج دیا اور خود بھی مختلف مقامات پر اشاعت دین کےلئے گئے۔جہاں جہاں پر آپؒ نے قیام کیا، اُن مقامات میں سےخانقاہ معلی سرینگر’خانقاہ ترال اور خانقاہ مکہ ہامہ بیروہ قابل ذکر ہیں۔ اس مردِ خد کے قائم کردہ ان عظیم مقامات پر روزانہ ہزاروں لوگ بارگاہ الٰہی میں سجد ریز ہوکر اللہ تعالیٰ کی بندگی انجام دیکرروحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔ملت اسلامیہ کشمیر کے اس محسن عظیم ؒ کے اپنے منفرد ، مخصوص اور معتبر مقام کی بدولت ،اُن کی عقیدت باشندگانِ کشمیر کے قلب وجگر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور ہمیشہ جڑی ر ہے گی۔ اہل کشمیر حضرت میر سیّد علی ہمدانی ؒ کے ساتھ والہانہ عقیدت رکھتے ہیں او رانہیں مختلف القاب سے یاد کرتے ہیں۔آپ ؒ نہ صرف ایک ولی اللہ ہیں بلکہ ایک صاحب قلم ،انشاپرواز اور اعلیٰ رتبے کے ادیب وشاعر بھی تھے۔آپؒ کی تصانیف جوعربی اور فارسی زبانوں میں لکھی گئی ہیں ، مختلف موضوعات پر مبنی ہیں جن میں علوم قرآن،دروس اسلام اور تصوف وعرفان اور دیگر موضوعات بھی شامل ہیں۔آپ ؒ کی تصانیف کتب خانہ برٹش میوززیم کے مجموعے میں بھی شامل ہے ،ان میں رسالہ مکتوبات، رسالہ نوریہ، اسناداورادفتحیہ ، درمعرفت، صورت وسیرت انسان،رسالہ اعتقادیہ،رسالہ درویشیہ،کشف الحقائق، میرالطالبین،چہل اسرار، رسالہ واردات عقل اور ذخیرةالملوک اور نیشنل لابئریری پیرس میں، رسالہ امیریہ، منازل السالکین، رسالہ دربیان روح ونفس اور رسالہ معرفت نفس قابل ذکر ہیں اورادفتحیہ جو توحید کا ایک لامثال نسخہ اور وظیفہ ہے جسکو پڑھنے سے دل اور دماغ پرسکون ہوجاتا ہے۔ حضرت شاہ ہمدانؒ کی بلند پایہ ادبی وعلمی شاہ کار تصنیف ذخیرة الملوکہے جو دس ابواب پر مشتمل ہے اور یہ آٹھویں صدی ہجری کی ایک اہم تصنیف وتحریر ہے ۔ ذخیرة الملوک ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے اور یہ تصنیف علماءدین ،اہل سلوک اور مثائخ کےلئے بھی نسخہ ٔکیمیا ہے۔ حضرت میر سیّد علی ہمدانی ؒ کا ہم کشمیریوں پر بڑا احسان ہے کہ آپؒ نے نہ صرف علم وعرفان اور راہ حق کی دولت سے مالامال کیا بلکہ ہرطرح سے یہاں کے لوگوں کی زندگی میں بھی بڑی تبدیلی لائی ۔آپ ؒؒ نے یہاں جو انقلاب سات سو برس قبل برپا کیا، وہ آج بھی اپنے پورے آن بان کے ساتھ قائم ودائم ہے اور کشمیریوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ ذخیرة الملوک میں فرماتے ہیں کہ اگر تیرے نفس کا کتا تیرے قابومیں ہے توجان کہ بہشت تری ملکیت ہے، تیرا دشمن توتیرے بہلاوے پھسلاوے میں نہ آئے ،صبر کی گھنٹی سے فریاد کرتو دین کا بندہ ہوجانہ کہ شیطان کا۔ خواہشات سے منہ موڑ لینا سروری ہے اورخواہشات کو ترک کرنا پیغمبری شیوہ ہے۔

حضرت میر سید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ نے کشمیریوں کی ہر سطح پر رہنمائی فرمائی ہے اور انہیں بہتر طریقے پرزندگی گزرانے کی راہ دکھائی ہےاورجہاں تک میر سیدعلی ہمدانی کی رہبری کا تعلق ہے، انہوں نے کشمیری قوم کو نہ صرف دینی و روحانی تعلیم سے روشناس کرایا بلکہ ہمیں اقتصادی معاملات میں خودکفیل بنایا ۔ گویا آپ ؒ نہ صرف ولی اللہ تھے بلکہ وہ ماہر اقتصادیات اور روحانی پیشوا بھی تھے۔ جو انمول تحفہ انہوں نے اورادِ فتحیہ کی شکل میں ہمیں جو تحفہ دیا ہے، ایسا تحفہ دنیا کےکسی اور قوم کوآج تک نہ مل سکا۔ ہم ہر سال شاہ ہمدان ؒ کا عرس پاک عقیدت و احترام سے مناتے ہیں۔ اہل ا عتقاد خانقاہوں میں ختمات المعظمات کی مجالس منعقد کرتے ہیںاور علماءکرام شاہ ہمدان ؒ کی زندگی اور تعلیمات پرروشنی ڈالتے ہیںاور یہ سب کچھ محض ایک رسم اور دکھاوے کے لئے کیا جاتا ہے ۔کیونکہ حقیقی معنوں میں امت مسلمہ جہاں دین اسلام سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں وہیں اپنے اسلاف و اولیا ء اللہ کی تعلیمات سے بھی بے گا نہ ہوچکے ہیں،جس کے نتیجے ہم مختلف معاملات میں ایک دوسرے سے دور ہورہے ہیں اور ہمارے درمیان باہمی اخوت و
محبت ،ہمدردی اوربھائی چارہ کی جگہ حسد ،عداوت اور نفرت نے لے لی ہے۔چنانچہ زندگی کو بہتر ڈھنگ سے گذارنے کے لئے حضرت میر سید علی ہمدانی ؒنےہمیں جو رہنمائی فرمائی تھی،اُس سے بھی ہم بھٹک گئے ہیںاور انہوں کا قوم کاشمر کو اخوت کا جو سبق دیا تھا ،وہ بھی ہم بھول چکے ہیں۔یاد رہے کہ کشمیر میں جناب سید علی ہمدانی ؒ نے نہایت ہی منظم طریقے پر اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔ آپ ؒ کے پیروکاروں نے علاقے کے اہم گزرگاہوں اور مقامات پر مساجد کی تعمیر میں آپؒ کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان مشہور مساجد میں دریائے جہلم کے کنارے واقعہ خانقاہ معلی ، درگاہ شاہ ہمدان سری نگر و دیگر شامل ہیں۔ آپؒ سلسلہ طریقت کبرویہ سے منسلک تھے اور سلسلۂ طریقت کے پیریت کا منصب سنبھالنے کے بعد آپؒ دنیا میں سیاحت شروع کی، تین دفعہ پیدل بیت اللہ شریف کا حج ادا کیا اور بیس یا اکیس سال مسلسل سفر میں رہے ۔آپ جب کشمیر تشریف لائے تو کم وبیش سات سو مرید اور پیروکار آپ کے ہمراہ تھے۔آپ ؒوہ عظیم ہستی تھے جنہوں نے کشمیر کی ثقافت کی کئی بنیادوں کو تبدیل کرتے ہوئے نہ صرف اسلامی ثقافت کا درجہ دیا بلکہ خطے میں کشمیر کی اقتصادی حالت بھی انتہائی مضبوط کردی ۔آپ ؒ 12 رجب المرجب 714 ہجری کو پیر کے دن ہمدان میں پیدا ہوئے اور 786 ہجری میں مانسہرہ کے علاقہ پکھلی میں انتقال فرما گئے اور ختلان میں مدفون ہوئے۔ آپؒ نے ایک بادشاہ کے فرزند ہونے کے باوجود تبلیغ اسلام کیلئے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔
[email protected]>

Share This Article