بلال فرقانی
سرینگر//گاندر بل ضلع میں واقع خوبصورت گاؤں ریپورہ فی الوقت جموں کشمیر میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔رواں سال انگوروں کی شاندار فصل نے یہاں کاشتکاروں کی قسمت ہی بدل دی۔ کبھی سیب کے باغات پر انحصار کرنے والا یہ گاؤں اب اپنی منفرد انگور کی پیداوار کے باعث ’کشمیر کا انگوروں کا گاؤں‘ کہلانے لگا ہے۔یہ تبدیلی تقریباً 8 سال قبل شروع ہوئی، جب مقامی باغ مالکان نے سیب کی فصل سے کم منافع اور سخت مسابقت کے باعث متبادل فصلوں کی تلاش شروع کی۔ 2017 میںریپورہ کے ایک کسان فاروق احمد نے 3 کنال زمین پر سیب کی بجائے انگور کی کاشت کا فیصلہ کیا۔ جہاں سیب سے اسے سالانہ صرف 40 ہزار سے 60 ہزار روپے تک آمدنی ہوتی تھی، وہیں انگور کی کاشت نے مذکورہ کسان کی آمدنی کو 3 لاکھ روپے سالانہ سے تجاوز کر دیا۔ فاروق کی کامیابی نے باقی باغ مالکان کو بھی اس طرف راغب کیا اور آج گاؤں کے تقریباً 90 فیصد گھرانے انگور کی کاشت سے منسلک ہو چکے ہیں۔محکمہ باغبانی کے مطابق اس سال کشمیر میں تقریباً 1700 میٹرک ٹن انگور کی پیداوار ہوئی ہے، جس میں سے صرف ضلع گاندر بل نے 1285 میٹرک ٹن کا حصہ ڈالا۔ریپورہ اس کامیابی میں سب سے نمایاں ہے، جہاں 60 سے 90 ہیکٹر رقبے پر انگور کے باغات قائم ہیں۔ریپورہ کی پیداوار میں نہ صرف مقدار میں اضافہ ہوا ہے بلکہ معیار کے اعتبار سے بھی یہاں کے انگور وادی بھر میں اپنی مثال آپ بن چکے ہیں۔ریپورہ میں اگنے والی اقسام جیسے صاحبہ، حسینی اور اناب شاہی نہایت میٹھے اور بڑے سائز کے ہوتے ہیں۔ ماہرین باغات نے کہا ہے کہ یہاں کے انگور بین الاقوامی معیار سے دو سے تین گنا بڑے ہوتے ہیں، جن کا وزن 12.5 سے 15 گرام فی دانہ تک ہوتا ہے۔ وادی کے بازاروں میں صاحبہ انگور 250 روپے فی کلو اور حسینی 200 روپے فی کلو میں فروخت ہوتے ہیں، جو ان کی اعلیٰ معیار اور مانگ کا ثبوت ہے۔ریپورہ کا انگوروں سے رشتہ محض جدید دور کا کارنامہ نہیں بلکہ اس کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں۔مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں یہاں انگور کی کاشت کا با ضابطہ آغاز ہوا تھا۔ گاؤں کے لوگ مانتے ہیں کہ ان کے انگوروں کا ذائقہ حضرت میر سید شاہ صادق قلندرؒ کی دعاؤں کا اثر ہے، جنہوں نے صدیوں پہلے اس سرزمین کو برکت بخشی۔شیخ العالم حضرت شیخ نورالدین ولیؒ نے بھی اپنی شاعری میںریپورہ کے انگوروں کا ذکر کیا ہے۔محکمہ باغبانی نے گاؤں میں 67 کنال پر مشتمل ایک سرکاری سطح پر انگور باغ قائم کیا ہے، جہاں جدید طریقہ کاشتکاری، بیماریوں سے بچاؤ اور ٹریلس نظام جیسے تربیتی پروگرام بھی جاری ہیں۔ حالیہ دنوں میں عالمی بینک، کرشی وگیان کیندر اور زرعی یونیورسٹی کشمیر کے ماہرین پر مشتمل ایک وفد نے گاؤں کا دورہ کیا، جس کا مقصد انگور کی پیداوار کو صنعتی پیمانے پر فروغ دینا اور چھوٹے پراسیسنگ یونٹ قائم کرنے کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔اگرچہ ریپورہ کی پیداوار وادی بھر میں تقسیم کی جاتی ہے، لیکن وادی کی مکمل ضروریات ابھی تک پوری نہیں ہو پاتیں، جس کی وجہ سے بیرونِ ریاست سے بھی انگور درآمد کیے جاتے ہیں۔ تاہم مقامی پیداوار میں مسلسل اضافے، باغ مالکان کی دلچسپی اور حکومتی سرپرستی سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ آئندہ برسوں میں کشمیر اپنی ضروریات خود پوری کرنے کے قابل ہو جائے گا۔