دیوالی کے مقدس تہوار کی بیحد خوشگوار و دلکش شام اپنے آخری مقام سے آگے بڑھ رہی تھی۔ اندھیرا گہرا رہا تھا۔ بچے دن بھر کے خریدے ہوئے بم پٹاخے، پُھلجھڑیاں، ہوائیاں اور چکیاں وغیرہ لیکر اپنے اپنے گھروں کی کشادہ چھتوں پر یا گلیوں چوراہوں پر پھوڑنے و آتشبازی کرنے کی غرض سے جمع ہو رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا شہر رنگ برنگی روشنیوں میں نہا کر بم پٹاخوں کے دھماکوں سے دہلنے لگا۔ جشنِ دیوالی پر لمحہ بہ لمحہ شباب آنے لگا۔ گوبند نگر محلے کی کوشلیا آنٹی کے گھر کے باہر کُھلے چوراہے پہ آس پڑوس گھروں کے بچے بھی دیوالی کی دھوم میں مشغول ہوگئے۔
کوشلیا آنٹی کی ڈیوڑھی پر کھڑی آتشبازی سے لُطف اندوز ہوتی اور بچوں کو احتیاط سے پٹاخے چلانے کی ہدایت کرتی ہوئی مقامی گرلز ہائر سکینڈری سکول کی پرنسپل سکینہ کو ثر کو ہمیشہ ہی کی طرح من ہی من شدید غصہ آرہا تھا کہ دیوالی کے مُباک موقع پر بچوں کے والدین و دیگر بڑے بزرگ کس قدر لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بچوں کی خوشی کے لئے روپیہ تو پانی کی طرح بہاتے ہیں مگر اُن کی حفاظت کا قطعاً نہیں سوچتے۔ یہ لوگ بچوں کو اکیلے ہی بم پٹاخے اور آتشبازی چلانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ جبکہ اُنکو ہر لمحہ بچوں کے ہمراہ ہونا چاہئے۔ آگ کے اس کھیل میں کبھی بھی حادثہ ہوسکتا ہے۔ بچے نادان ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی میں پٹاخے ہاتھ میں پکڑ کر چلانے لگتے ہیں۔ جلتے پٹاخے ایک دوسرے پر پھینکتے ہیں اور اُنہیں بغیر عینک پہنے چلاتے ہیں۔ جلتے پٹاخوں، خصوصاً جلتی چکیوں پر اُچھل کود کرتے ہیں۔ مہنگے و ریشمی کپڑے پہنتے ہیں جن میں آگ لگنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اسی نوعیت کے بے شمار خطرات بچوں کے سروں پر منڈلاتے رہتے ہیں مگر والدین اس جانب توجہ نہیں دیتے، جسکے باعث بعض اوقات اُنہیں بھاری قیمت چُکانی پڑتی ہے۔ وہ ایک گہری سانس کھینچ کر رہ گئی۔
جبھی اُسے خیال آیا کہ اُس کی مالکِ مکان، جنہیں تمام محلہ احتراماً کوشلیا آنٹی کہہ کر پُکارتا تھا، اس جشن میں شامل نہیں ہیں۔ وہ اندر آئی اور اُنہیں کمرے کمرے ڈھونڈنے لگی۔ سکینہ کوثر کی اس شہر میں تعیناتی ایک ماہ قبل ہی ہوئی تھی۔ وہ قریباً تین ہفتوں سے کوشلیا آنٹی کے گھر اُسکی کرایہ دار تھی۔ البتہ اس قلیل سی مُدت میں وہ دونوں سگی ماں بیٹی کی مانند ہوچکی تھیں۔ اُنکی محبت دیکھ کر تمام محلہ عش عش کرتا ہوا کہتا …’’بے شک یہ دونوں پچھلے جنم کی بچھڑی ہوئی ماں بیٹی ہیں‘‘۔
سکینہ کوثر آنٹی کو ڈھونڈتی ہوئی جب اُن کے کمرے کے سامنے پہنچی تو اُسے اُنکے کمرے میں گھپ اندھیرا دکھائی دیا اور ساتھ ہی ساتھ وہاں پر کسی کے سُبک سُبک کر رونے کی آواز بھی سنائی دی۔ ’’آنٹی جی…کوشلیا آنٹی جی …!‘‘ اُس نے دو ایک بار پھر پکارا۔ مگر کوئی جواب نہ ملا۔ دروازہ کُھلا تھا۔ وہ اندر داخل ہوئی۔ اُس نے دروازے کے بائیں پلڑے کی اوٹ میں دیوار پر بجلی کے بٹن کو ہاتھ بڑھا کر دبادیا۔ کمرہ دودھیا روشنی میں نہا گیا۔ سکینہ نے دیکھا آنٹی اپنے بستر پر اوندھے منہ پڑی ایک بچے کی مانند سُبک سُبک کر رو رہی ہیں۔ سکینہ تڑپ اُٹھی۔ وہ حیران و ششدر آگے بڑھی۔ اُس نے بڑی اپنائیت سے اُنکی پیٹھ کو سہلایا اور دھیمی دھیمی آواز دیکر اُنہیں بستر پر بیٹھا دیا۔’’آنٹی جی کیا ہوا؟ آج کی رات تو خوشیوں کی رات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کی مہر و برکت کی رات ہے اور آپ نے اس مبارک موقع پر رو رو کر کیا حال بنا لیا۔ دیکھئے آپکی آنکھیں بھی سُرخ ہوگئی ہیں، مانو ان میں لہو اُتر آیا ہے۔ آپ نہ جانے کب تک یہاں…! کیا آپ اپنی بیٹی کو اپنے غم میں شریک نہیں کرینگی۔ کیا مجھے اپنی پریشان نہیں بتائیں گی؟‘‘ وہ یہ سب ایک ہی سانس میں کہہ گئی۔ کوشلیا سکینہ کے منہ سے یہ الفاظ سُن کر اُس سے لپٹ گئی۔ مگر اُسکے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا، وہ پھوٹ پڑی۔ اُس کے سینے کا درد سیلاب بن کر اُس کی آنکھوں سے بہنے لگا۔ چند ساعتیں یونہی خموشیوں و سسکیوں میں گذر گئیں۔ کوشلیا خود کو سنبھالنے کی سعی کرنے لگی۔ اسی بیچ سکینہ رسوئی گھر سے پانی کا گلاس لے آئی۔ کوشلیا نے دو گھونٹ حلق سے اُتارے اور گذرے وقت کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے بوجھل دل سے گویا ہوئی۔
آج سے دس برس قبل یہی رات تھی، دیوالی کی رات، جسکی روشنی میری زندگی کے اکلوتے چراغ کو گل کر گئی۔ میری دیوالی کو سدا سدا کے لئے سیاہ کرگئی۔ دسہرے کی شام تھی۔ میرا راج کمل بھی شہر کے دوسرے لوگوں کی طرح دسہرہ میدان میں دسہرہ منانے گیا۔ اس وقت وہ بارہویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ہمارے یہاں مانا جاتا ہے کہ اگر راون کے جلتے ہوئے پتلے کی جلی ادھ جلی لکڑی لاکر گھر میں رکھ دی جائے تو اُس گھر سے بُری بلائوں کا سایہ ہمیشہ دور رہتا ہے۔ جبھی دسہرے میں جب راون کے پُتلے کو نذر آتش کیا جاتا ہے تو لوگوں، خصوصاً بچوں، کی بھاری بھیڑ جلتے ہوئے پتلے پر یوں ٹوٹ پڑتی ہے مانو اُس پر حملہ کردیا ہو۔ اُس شام راج کمل بھی ایسی ہی بھیڑ کا حصہ تھا۔ اُس نے بھی جلتے پُتلے میں سے ادھ جلی لکڑی کا ٹکڑا نکالا۔ تبھی اُس کی نظر نزدیک ہی پڑے ایک گول دھاگے دار بم پر پڑی۔ اُس نے اُسے قریب جاکر دیکھا۔ وہ سمجھ گیا یہ بم پھوکا ہے کیونکہ اسکی بتی جل چکی تھی۔ مگر یہ پھٹا نہیں تھا۔ کِسی نے اس کو چلانے کی کوشش کی تھی مگر کامیاب نہیں ہوا تھا۔ اُس نے بم اُٹھایا، گھما پھرا کر دیکھا جانچا اور جیب میں ڈال لیا کہ اسے گھر لے جاکر چلائے گا۔ گھر پہنچا تو اُس نے اُسے چلانے کا ارادہ ترک کردیا۔ سوچا یہ بھاری آواز کا بڑا بم ہے اسے دیوالی کی رات چلانے کی کوشش کروں گا۔ شائد چل جائے۔ ہوسکتا ہے ایساسکی محض بتی ہی خراب ہو۔ اُس نے بم کو سنبھال کر الماری میں رکھ دیا۔ یہ تمام قصہ اُس نے اپنے پاپا اور مجھے سے چُھپا کر رکھا۔
چند دنوں بعد دیوالی آئی۔ راج کمل دن بھر دوستوں کیساتھ یہاں وہاں گھومتا کھیلتا رہا۔ بم پٹاخے خریدتا رہا۔ اُس کے پاپا اُس پر جان چھڑکتے تھے۔ ایسے تہواروں میں خوب پیسہ لُٹاتے تھے اُس پر۔ جب رات کی سیاہی چھانے لگی تو سبھوں کے ساتھ وہ بھی تمام تر سامان لیکر چھت پر جاپہنچا۔ دھڑام …دھڑام…دھڑام…! چھت پر تو مانو بم پٹاخوں کیساتھ بھاری جنگ چھڑ گئی ہو۔ تبھی یکا یک چھت پر رونے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ پٹاخون کا شور اچانک تھم گیا۔ راج کمل کے پاپا پوجا میں بیٹھے تھے۔ میں رسوئی میں کھانا بنا رہی تھی۔ میں چیخ و پکار سن کر چھت کی طرف بھاگی۔ وہاں پہنچی تو روتے ہوئے بچوں نے بتایا کہ راج کمل کو پٹاخے سے چوٹ لگ گئی ہے۔ اسکی چھاتی سے خون نکل آیا ہے اور وہ خو دہی ہسپتال کی طرف چل پڑا ہے تاکہ ممی پاپا کو علم نہ ہو۔ وہ خواہ مخواہ پریشان ہونگے اور ڈانٹیںگے۔ میں گبھرائی ہوئی گلی کی جانب لپکی۔ ابھی میں بھوشن کریانے والے کی دکان تک ہی پہنچ پائی تھی کہ وہاں جمع بھیڑ نے مجھے بتایا کہ راج کمل یہاں تک چھاتی تھامے خود ہی بھاگتا ہوا آیا تھا مگر یہاں پہنچ کر وہ زخم کی تاب نہ لاپایا اور غش کھا کر گر پڑا۔ تاہم محلے والے اُسے فوراً اُٹھا کر ہسپتال لے گئے ہیں۔ آپ بے فکر رہیں۔ وہ بالکل ٹھیک ہے… آپ …گھر… ! لوگ مجھے ڈھارس بندھاتے رہے مگر میں ہوش و حواس کھو کر وہیں دھڑام سے گر گئی۔ جب ہوش آیا تو گھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ چاروں طرف ہا ہا کار تھی۔ میری گود اُجڑ چکی تھی۔ میری دیوالی سیاہ ہوچکی تھی۔ میرے راج کمل کی لاش میری آنکھوں کے سامنے فرش پر پڑی ہوئی تھی۔ میں بہت روئی، بہت چلائی، بھگوان سے دعا کی، اُسے بُرا بھلا بھی کہا۔مگر میرا راج کمل واپس نہیں لوٹا۔ وہ تو مجھے چھوڑ کر جا چکا تھا، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ ڈاکٹروں نے کہا وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ چکا تھا۔ انہوں نے لوگوں کی سماجت پر اُسکا پوسٹ مارٹم کئے بغیر اُسے گھر روانہ کردیا۔ شمشان گھاٹ میں جب اُسے چتا پر لٹایا گیا تو ہمارے محلے کے ایک سماجی کارکن شام لال کو نجانے کیا سوجھی کہ اُس نے کفن کے اندر ہاتھ ڈالکر راج کمل کے زخم پر اُنگلیاں پھیرنی شروع کردیں۔ حالانکہ وہاں موجودہ سبھوں نے اُسے لاش کیساتھ چھیڑ خانی کرنے سے منع بھی کیا مگر وہ نہیں مانا۔ اُس نے اُسکے گھائو میں اپنے ہاتھ کے بیچ کی تین اُنگلیاں ڈالکر اندر ٹٹولنا شروع کردیا۔ جبھی اُسکی انگلیاں اندر کسی تیز دھار نوکیلی شئے سے رگڑائیں۔ اُس نے تینوں اگلیوں کے سروں کی گرفت بنائی اور اُس شئے کو اس میں مضبوطی کیساتھ چکڑ کر باہر کھینچے لگا۔ شئے بے حد سخت تھی اور گہرائی تک دھنسی ہوئی تھی۔ کافی مشقت کے بعد شام لال نے اُسے راج کمل کی چھاتی سے کھینچ کر باہر نکالا۔ اُس شئے کو دیکھ کر سبھی بھونچکے رہ گئے۔ وہ ایک داڑھی بنانے والا تیز دھار کا بلیڈ تھا۔ جسے دوہری تہری تہہ کرکے بم کے عین درمیان رکھا گیا تھا۔ بم پھٹنے پر یہ بلیڈ راج کمل کا سینہ چیر کر اندر گہرائی میں ایک ہڈی کے بیچ جادھنسا تھا۔
راج کمل کے ساتھ چھت پر پٹاخے چلانے والے بچوں نے بتایا کہ راج کمل نے اُنہیں دسہرے کے دن راون کے پتلے سے لائے ہوئے بتی جلے بم کی نسبت بتایا تھا۔ حالانکہ انہوں نے اُسے اس بم کو پھینک دینے کے لئے کہا تھا کیونکہ وہ پھوکا لگتا تھا۔ مگر وہ نہیں مانا۔ کہنے لگا! لگتا تو پھوکا ہے اور بتی جل گئی ہے مگر پھٹا نہیں ہے۔ چلو کوشش کرکے دیکھ لیتے ہیں۔ اگر یہ پھٹا تو بہت بڑا دھماکہ ہوگا۔ مزا آجائے گا۔ بم پھوڑنے سے پہلے اُس نے ماچس کی اُلٹی تیلی سے بم کے اندر دھنسی بتی کو خوب کُریدا تھا۔ پھر اُس نے نیچے رکھا اور اُس پر جُھک کر اُسے جلتی ہوئی تیلی دکھا دی۔ آگ سامنے آئی ہی تھی کہ بم آن کی آن میں پھٹ گیا۔ کوئی پلک تک نہ جھپکا سکا۔ راج کمل ابھی بم کے اوپر ہی جُھکا ہوا تھا کہ اُسی چھاتی سے خون کا فوارا پھٹے بم کے بکھرے ٹکڑوں پر پھوٹ پڑا۔ یہ سب اس قدر آناً فاناً ہوا کہ کسی کو سنبھلنے تک کا موقع نہیں ملا۔
راج کمل کے پاپا اپنے بیٹے کا غم دوسری دیوالی تک بھی برداشت نہیںکرسکے۔ اُس کی پہلی برسی کی رات یوں سوئے کہ پھر کبھی نہیں اُٹھے۔ میں تقدیر کی ماری ایک چلتی پھرتی لاش بن کر رہ گئی تمام عُمر اس سیاہ دیوالی کو کوسنے کے لئے۔
کوشلیا آنٹی اپنی روداد مکمل کرتے کرتے ایک بار پھر ہچکیوں میں غوطہ زن ہوگئی۔ اُدھر سکینہ کوثر کو احساس تک نہ ہو اکہ اس سانحہ کی کہانی سنتے سنتے وہ کب اشکوں میں تربتر ہوگئی۔ اُس نے اپنی آنکھوں سے بہتی گنگا جمنا کو اپنے دوپٹے سے پونچھ کر کوشلیا آنٹی کو اپنی باہوں میں یوں بھینچ لیا مانو یہ مضبوط حلقہ اب زندگی بھر نہیں کُھلے گا۔ جبھی دفعتاًاُس کے لرزتے ہوئے ہونٹ کُھلے۔
’’آنٹی جی… میری امی میرے بارہویں جماعت میں پڑھتے ایسی ہی دیوالی کی ایک رات ریشمی لباس میں ملبوس اپنی بچپن کی ایک سہیلی پرمیشوری دیوی کے گھر آتشبازی کرتے ہوئے محض ایک چنگاری کا شکار ہوگئی تھیں۔ وہ میری آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں…آنٹی جی …میری اور آپ کی کہانی …‘‘
سکینہ کوثر اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ ہچکیوں نے اُن دونوں کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ چند ثانئے بعد سکینہ کوثر کی لرتی آواز پھر اُبھری…’’آنٹی جی کیا میں آج سے آپکو امی جان کہہ سکتی ہوں… آپ کی سونی گود بھر جائے گی اور مجھ نموڑی کو ماں مل جائے گی۔‘‘
کوشلیا کی بانہیں سکینہ کے گرد یوں کسنے لگیں مانو وہ اُسے اپنی روح میں اُتار رہی تھی۔ تھوڑی دیر کمرے میں سسکیوں کا غلبہ رہا اور باہر بم پٹاخوں کا۔ پھر رفتہ رفتہ خاموشی چھاتی چلی گئی، اندر بھی اور باہر بھی ۔
1/226، سبھاش نگر، ادھمپور،
جموں وکشمیر ، 182101