متحدہ مزاحمتی قیادت کی جانب سے ہفتہ حقوق انسانی منانے کے پروگرام کے ردِ عمل میں ریاستی انتظامیہ نے گرفتاریوں ، خانہ نظر بندیوں اور داروگیر کی جو ہمہ گیر مہم شروع کر دی ہےاور جس کے تحت مزاحمتی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے درجنوں قائیدین اور کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے،اس پر سیاسی خیمہ زبردست برہم ہے۔اس پروگرام کے تحت اُنکے مطابق مختلف مقامات پر شام کے اوقات موم بتیاں جلا کر حقوق انسانی کی پامالیوں اورانکے حوالےسے سنجیدہ طرزفکر اختیار کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرانا مقصود تھا، جو ملکی اور عالمی سطح پر ہور ہی ایسی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے کوئی غیر جمہوری معاملہ نہیں،بلکہ اگر ایسا کہا جائے کہ اس نوعیت کی سرگرمیوں کو مناسب مکانیت(Space) فراہم کرکے انتہا ئی سوچ سے محفوظ رہا جاسکتا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کے تینوں خطوں کے اندر مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی مضبوط جڑیں ہیں لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ تاریخی اعتبار سے مزاحمتی فکر اور سیاست کا بھی اپنا مقام ہے، جس کےساتھ مین سٹریم بھی کبھی کبھی جُڑا رہا ہے۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ نظریاتی یا سیاسی اختلافات کے بہ سبب مد مقابل کی مکانیت کو محدود کرنے سے انتہا پسندانہ سوچ کو فروغ ملنا یقینی ہے ۔نئی دہلی سےلیکر اسلام آباد اور نیویارک تک ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سنجیدہ طبقہ ہائے فکر جموںوکشمیر میں تصادم آرائیوں کی صورتحال سے متفکر ہیں اور اسکی شدت میں تخفیف کے خواہاں ہیں۔ لہٰذا اسکی وکالت کرنے کا موقع ضائع نہیںہونے دیا جانا چاہئے۔ایسے حالات میں پُر امن سیاسی سرگرمیوں کا فروغ انتہا ئی اہمیت کا حامل ہے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی بذات خود اُن حالات کو تقویت پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے، جونقص امن کا سبب بننے کی وجہ سے مجموعی طور پر سماج اور نئی نسل کےلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوںسے ریاست جموں وکشمیر کو حالات کی ابتری کے سبب جس نوعیت کے اقتصادی نقصانات کا سامنا رہا ہے، اُس کے چلتے یہاں انقباض امن کی ممکنات کو قابو کرنے کی ذمہ داری سبھی سیاسی خیموں پر عائد ہوتی ہے، خواہ وہ مین اسٹریم سے تعلق رکھتے ہوں یا مزاحمتی طبقےسے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تصادم آرائیوں کے نتیجہ میں ہونے والے نقصانات اور چھاپوں و گرفتاریوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کے ردعمل میں کی جانے والی ہڑتالوں سے یقینی طور پر معیشت پر منفی اثرات ثبت ہوتے رہےہیں لیکن مزاحمتی خیمہ کا یہ نکتہ نظر بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ انکے پاس احتجاج کے لئے اس سے بہتر راستہ نہیں کیونکہ انہیں دیگر پر امن ذرائع استعمال کرنے سے پیہم دور رکھنے کی کوشش ہو رہی ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ہر مؤثر سیاسی منظر نامہ پُر امن سیاسی سرگرمیوں کا متقاضی ہوتا ہے اور اس کے لئے سیاسی مکانیت کی فراہمی بنیادی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر آج کی تاریخ میں مین اسٹریم جماعتوںکی سیاسی مکانیت محدود کرنے کی کوشش کی جائےتو کوئی وجہ نہیں کہ وہ بھی درمیانی راستہ اختیار کرنے کی بجائے دائیں یا بائیں جانب جانےکی سوچ اختیار کریں ۔ ایسے میں اگر نئی دہلی سے سرینگر تک ارباب حل و عقد صورتحال میں بہتری لانے کےلئے نیک نیتی سے سوچنے کی کوشش کریں تو انہیں بھی یقیناً یہ احساس ہوگا کہ پُر امن سیاسی سرگرمیوں پر قدغنیں عائد کرنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے بلکہ اس کے نقصانات ہی سامنے آسکتے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سماج کےہرطبقے ،خواہ وہ کسی بھی سیاسی نظریہ سے تعلق رکھتا ہو، کو مکانیت فراہم کی جائے بلکہ مثبت انداز سے سوچا جائے تو اس مکانیت کے فروغ کو منضبط اور مثبت بنایا جانا چاہئے۔ ایسے حالات میں گرفتاریوں ، نظر بندیوں، قدغنوں اور داروگیر کےلئے کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔