رشید پروین ؔسوپور
امریکہ کی سب سے بڑی متنازعہ شخصیت امریکہ کے سب سے بڑے اور پاور فل عہدے پر دوسری بار منتخب۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے تاریخی فتح حاصل کی اور دوسری بار وائٹ ہاوس کے مکین اور میزبان بننے جارہے ہیں۔ پہلی بار وہ ۲۰۱۷ سے ۲۰۲۱ تک قصرِ ابیض میں بحیثیت صدر امریکہ رہ چکے ہیں اور اب پھر ایک بار اسی قصر ابیض میں ۲۰۲۵ کو منتقل ہورہے ہیں۔ انہوں نے لازمی ۲۷۷ ہندسے کو آسانی سے پار کیا اور ان کے مقابل کملا ہیرس ۲۲۶ پر ہی ٹک کر رہ گئی۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے خطاب میں یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ ’’ جنگوں کو جاری رکھنے کے بجائے ختم کریں گے ، امن اور خوشحالی کے لئے کام کریں گے اور یہ کہ امریکہ کو ترقی اور معاشی لحاظ سے اپنی بلندیوں تک لے جائیں گے ۔‘‘ لیکن ان کی سیمآبی طبیعت اورآمرانہ مزاج پر کوئی اتنا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ۶ جنوری ۲۰۲۱ کے واقعات جو امریکی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور پہلی بار امریکہ کے شہریوںنے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں ،ان کے رد عمل میں جرم و سزا ،مقدمات اور آئینی بنیادوں پر یہ باور ہوچکا تھا کہ ٹرمپ کا دور ختم ہوچکا ہے اور اب کسی بھی طرح سے ان کی واپسی ممکن ہی نہیں ،لیکن ٹرمپ نے اپنی تمام تر خامیوں اور منفی اقدامات کے باوجود حیرت انگیز طور پر واپسی کی ہے ، جو متحیر کن بھی ہے اور جو امریکی عوام کے اکثریتی مزاج اور سوچ و فکر کے لحاظ سے بھی متصادم ہے، لیکن حقائق افسانوں سے بھی زیادہ عجیب وغریب ہوتے ہیں، ایسا کہا جاتا ہے اور یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ ان کے ماضی کے آئینے میں دیکھا جائے تو ان کی شخصیت حیران کُن ،طلسماتی اور افسانوی رہی ہے ، اس لئے پہلے ان کی زندگی کے نشیب و فراز، مدو جزراور طلسماتی سانحات کے بارے میں تھوڑی سی واقفیت سے ان کے اندر جھانکا جاسکتا ہے اور پھر یہ سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے کہ آئندہ امریکی پانچ برس کیسے رہیں گے اور ان کے اس پد پر براجمان ہونے سے ساری دنیا کے سیاسی اور معاشرتی منظر نامے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ڈونالڈ جان ٹرمپ صدارتی انتخاب کے لئے ریپبلکن پارٹی کے امید وار تھے اور انہوں نے ۲۹۵ ایلکٹورل ووٹ حاصل کرکے بہت بڑی اور ریکارڈفتح حاصل کی، جس کی وجہ سے اس بار ٹرمپ اپنی پوری طاقت اور پرسٹیج کے ساتھ وہ اقدامات کر سکتے ہیں جنہیں وہ کرنا چاہئیں۔وہ ۲۰۱۷ سے ۲۰۲۱ تک ۴۵ ویں امریکی صدر تھے اور اب پھر ایک بار وہ اس بڑے ملک کے ۴۷ صدر کے طور پر تاریخ میں درج ہوچکے ہیں۔ ٹرمپ ۱۴ جون ۱۹۴۶ کونیو یارک یو ایس اے میںایک بزنس ٹائیکون فریڈ ٹرمپ کے ہاں پیدا ہوئے ہیں اور صرف تیرہ سال کی عمر میں اس سے ملٹری اکادمی میں داخلہ لینا پڑا ، ٹرمپ کے والد کنسٹرکشن بزنس میں تھے اور اس بزنس میں جہاں وہ رہائشی فلیٹس کی تعمیرات کرتے تھے،کی وجہ سے وہ امریکہ میں کافی مشہور بھی تھے۔ستر کی دہائی میں ٹرمپ نے اپنے باپ کی کنسٹرکشن کمپنی جوائن کی ا ور ۱۹۸۰ میں ایک بہت بڑے ایسٹیٹ ڈیولپر کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے۔ جب انہوں نے ۳۶ منزلہ کواپریٹیو کامپلیکس تعمیر کیا، جس سے ٹرمپ پلازہ کے نام سے پہچان ملی، کی پانچویں منزل اس نے اپنے لئے اور اپنے آفس کے لئے مختص کی، جو اپنی آرائش اور آسائش کے لئے مثال قرار دی گئی،اسی دوران انٹلانٹک شہر میں ٹرمپ نے اپنی بزنس کو نئی جہت عطا کرتے ہوئے ’کاسینو‘کھول دئے ۔ نیو جرسی میں ٹر مپ پلازہ ہوٹل اور کاسینو جس سے ’ٹرمپ ہراہ‘ ٹرمپ پلازہ کے نام سے جانا جانے لگا کافی شہرت پاگیا اور اسطرح سے ساری امریکی سٹیٹس میں ٹرمپ کو ایک کامیاب بزنس ٹائیکون کی حیثیت سے پہچان ملی۔ ۱۹۹۰میں ٹرمپ نے ایک اور ایڈونچر کرتے ہوئے اپنا ٹرمپ تاج محل تعمیر کیا ، جس سے وہ خود دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دیتے ہیں ، اب وہ کوئی ریکارڈ کر پایا کہ نہیں لیکن اس میں کوئی شک اور دو رائیں نہیں کہ یہ اپنے وقت کی مشہور و معروف تعمیر رہی۔ان کے بغیر بے شمار بڑے بڑے کاملیکس ، رہائشی فلیٹس اور دوسری تعمیرات کی وجہ سے ٹرمپ کا نام آہستہ آہستہ برانڈ ہوتا گیا ،لیکن یہ بھی حیرت انگیز بات ہے کہ ان سب بڑی بلند و بالا تعمیرات کے باوجود ٹرمپ کی آرگنائزیشن مالی مشکلات کے بھنور میں پھنس گئی ، اسکی وجوہات بہت ساری رہی ہیں لیکن اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۹۲ میں ہی ٹرمپ کی ایک بائیو گرافی lost tyconکے عنوان سے ما رکیٹ میں آگئی، جس میں یہ جملے بڑے اہم اور بہت ساری وضاحتوں کے لئے کافی تھے ،’’ٹرمپ اپنی تمام بزنس ناکامیوں کی وجہ سے پبلک مذاق بن گیا ہے۔‘‘۲۰۰۴ میں کمپنی ’لون واپس کرنے اور کوئی منافع حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی ۔ اس لئے اپنے حصص کو ۲۷ فیصد تک محدود کرنا پڑا ،ٹرمپ نے انٹلانٹک شہر کو اپنی ناکامیوں کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا، لیکن حق یہی ہے کہ اور قریبی جاننے والے یہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے لئے کاسینو بڑے خسارے کی وجوہات بنے ،لیکن زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ شاید جلد بازی یا ناقص پلاننگ کی وجہ سے کوئی خاص منافع نہیں پاسکا اور پھر کمپنی کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب نہیں دے سکی جو اس سے کھڑا کردیتی ، اس لئے وہ bankrupt ہوئے۔یہی وہ دور تھا جب کمپنی کے انوسٹرس او ر شئیر ہولڈرس اپنی انوسٹمنٹ کھو چکے ، اور وہ سارے لوگ خسارے سے دوچار ہوکر ہاتھ ہی ملتے رہ گئے۔ ان سب صد مات کے باوجود ٹرمپ اپنی کمپنی کے نام کو سر فہرست رکھنے میں کامیاب رہے ،کیونکہ وہ خود کہتے ہیں کہ ’’وہ بہت سمارٹ ہیں۔ ‘‘ ۲۰۰۴ میں نیو یارک ٹائمز میں چھپے ایک آرٹیکل نے اس کے بارے میں لکھا ، ’’ٹرمپ کا نام برانڈ کچھ اس طرح سے بن چکا ہے کہ بہت ساری ہتک آمیز ناکامیوں کے باوجود اس کے ریپوٹیشن میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے۔‘‘یہ آپ کے لئے حیرت انگیز بات ہوگی کہ اس دوران ٹرمپ نے لگ بھگ چودہ کتابیں لکھ ڈالیں یا تو وہ ان کے کو آتھر تھے یا کسی اور نے بھی ان میں کچھ کتابیں لکھیں تھیں ،جو بزنس سے تعلق رکھتی تھیں،جن میں بڑی تعداد میں بکنے والی اور پڑھی جانے والی کتاب’’ ٹرمپ‘‘شامل ہے۔ٹرمپ کی شخصیت پہلو در پہلو ہے اور اس افتاد طبع اور اس کے رحجانات کا اندازہ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ۱۹۹۶ سے ۲۰۱۵ تک اس کے پاس ’’مس یوایس اے،مس ٹین یو ایس اے اور مس یونیورس بیوٹی کی نمائش اور انعقاد کے حقوق تھے۔ ۲۰۱۵ میں اس کے خلاف نسلی تفریق اور نسل پرستی کے الزامات بڑی شدت کے ساتھ لگتے رہے۔ کئی برسوں تک ایک فٹ بال ٹیم بھی اپنے نام سے میدان میں اُتارتے رہے ، ایک ٹیلی ویژن پروگرام ’یو آر فائیرڈ‘ کو ہوسٹ کرنے لگے، جس سے بہت زیادہ دیکھا جانے لگا جس کی وجہ سے امریکہ کی بڑی تعداد ٹرمپ سے متعارف ہوئی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ نے ٹیکسوں کے بارے میں کبھی درست اعداد و شمار اپنی حکومت کومہیا نہیں کئے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی اصل پراپرٹی پر اب بھی ڈبیٹس ہورہے ہیں ۔ ۲۰۱۶ میں ایک امریکی اخباری خبر کے مطابق ٹرمپ کمپنی کے خلاف ۳۵۰۰لیگل کیسز مختلف عدالتوں میںموجود تھےاور ان سب مخمصوں کے باوجد ٹرمپ نے ۲۰۱۵ میں امریکی صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور پہلی بار ۲۰۱۷ سے قصر ابیض میں بحیثیت صدر کے قیام پذیر رہے۔ سب ناکامیوں اور حادثات کے باوجود دنیا کے سب سے بڑے طاقتور ملک کا طاقتور صدر بننا صلاحیت سے زیادہ اقبال مندی کی دلیل ہی کہا جاسکتا ہے ، بہر حال اس پسِ منظر اور ٹرمپ کی تمام چالاکیوں اور ہوشیاریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ امریکی دانشور حلقے تشویش میں بھی مبتلا ہیں اور شاید ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ مدبرانہ اور سنجیدہ غورو فکر کے عادی نہیں ۔ لیکن بہر حال وہ پھر ایک بار نہ صرف کامیاب ہوئے ہیں بلکہ اس بار انہیں بہت زیادہ اپوزیشن کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا اور اپنے فیصلے اچھی طرح سے نافذالعمل بھی کرا سکتے ہیں۔ اگر چہ انہوں نے اپنے پہلے خطاب میں چند بہتر نقاط ابھارے ہیں اور ایک روڑ میپ کے طور پر انہیں دنیا اور امریکہ کے سامنے لایا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ صیہونی طاقت ور لابی اس کے راستے کو کس حد تک بدلنے یا ان میں رکاوٹیں ڈانے میں کامیاب ہو گی۔ ایک بات جو وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ دنیا کے سیاسی پسِ منظر پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ روس اورچین کے ساتھ ٹرمپ کے کیسے تعلقات رہیں گے اور ان کے مد نظر کیا عوامل رہیں گے؟ لیکن ماضی کے صدارتی دور کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ شاید وہ اپنے اسی نعرے پر قائم رہیں گے ، یعنی ’’امریکہ فسٹ‘‘ وہ آج بھی اس دوران مسلسل اس بات کو دہراتے رہے ہیں کہ امریکی مفادات ہی میری اولین ترجیح رہیں گی۔ بہرحا ل پاکستان کے بغیر ہر ملک کے صدر کی یہی خواہش ہوتی ہے ۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنی فوج کے نام ایک میمو میں کہا ہے کہ فوج آنے والے صدرکے اختیارات سنبھانے پراس کے احکامات بجالانے کی پابند ہے اور یہ کہ فوج کسی سیاست کا حصہ نہیں بنے گی بلکہ قانون کے مطابق دیئے گئے ہر حکم کی تعمیل کرے گی۔ یہ بہت ہی اہم بیان سامنے آیا ہے اور اس سے امریکی مستقبل میں پیش آنے والے حالات کو فوجی نقطہ نگاہ سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور ان کئی تحفظات کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے کیونکہ اپنے کئی بیانات میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایسٹیبلشمنٹ ان کے مخالف ہے ۔ جو بائیڈن کے دور میں ایک طرح کی انارکی رہی ، ،مشرق وسطیٰ میں تصادم رہے اور خلیجی ریاستوں کے علاوہ پاکستان بھی جو بائیڈن کے نشانے پر رہا، جہاں ایک ایسی کورپٹ اور بدعنوان ٹولے کو عوامی منڈیڈیٹ کے خلاف مسلط کیا گیا جس کی مثال اب تک کی تاریخ میں ہی نہیں اور جہاں تک بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری طرز حکومت کا تعلق ہے تو اس سارے ملک میں ان کا نام و نشان نہیں پایا جاتا ، ایسا سوچا جارہا ہے کہ بائیڈن کی انسان دشمن اور امن دشمن پالیسیاںاپنے اختتام کو پہنچ چکی ہیں اور ٹرمپ بے جا مداخلتوں اور غیر ضروری جنگوں سے پرہیز کرتے ہوئے امریکی مفادات کے لئے کام کرنے کے متمنی اور خواہشمند ہیں۔ بہت جلد یعنی ان کے قصرِ ابیض میں داخل ہونے کے بعد ہی نئی پالیسیوں کا اظہار بھی ہوگا اور اگر کوئی تبدیلیاں خارجہ پالیسی میں واقع ہونے والی ہیں جو ظاہر سی بات ہے کہ ساری دنیا کے سیاسی افق پر تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہوں گی ۔انہیں بھی بڑی آسانی سے سمجھا جاسکے گا اور اور امریکی نئے اہداف بھی سامنے آئیں گے۔ ٹرمپ کا دوسری بار صدارتی عہدے پر براجمان ہونا جہاں اپنے آپ میں ایک انوکھی اور انہونی بات ہے وہاں ہمیں بہر حال یہ سمجھانے کے لئے بہت کافی ہیں کہ انسان بھی منصوبے بناتا ہے لیکن اللہ ہی کے منصوبے کامیاب ہوتے ہیں ۔
(رابطہ۔7006410532 )