ہندوستان چین کے بعددنیا میں سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے اور اس کاصوبۂ اتر پردیش تمام صوبوں کے مقابلے میں ایک بڑی آبادی والا صوبہ مانا جاتاہے۔واجپائی حکومت میں اس کے دو حصے کئے گئے تھے۔ پہلا حصہ حسب سابق اُترپردیش کہلایا اور دوسرا حصہ اُترا کھنڈ نام پاگیا۔اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کے کم از کم تین حصے کئے جاتے :مغربی یوپی، مشرقی یو پی اور اُترا کھنڈلیکن ایسا نہیں کیا گیا۔بڑی ریاستوں کو چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کا جواز یہ تھا کہ چھوٹی ریاستیں ترقی کر سکیںکیونکہ جتنی بھی چھوٹی چھوٹی اکائیاں ہوں گی ،ترقی بھی اُتنی ہی زیادہ ہوگی۔ اُتراکھنڈمیں پہلی حکومت بی جے پی کی بنی۔پہلے کے مقابلے میں اس نئی ریاست نے ترقی بھی کی،پھر حکومتیں بدلتی رہیں ،کبھی کانگریس بر سر اقتدار آئی تو کبھی بی جے پی کے شانے پر اقتدار کا ہما بیٹھا۔سماجوادی اور بہوجن سماج کی کوئی نمایاں طاقت وہاں کبھی نہیں رہی۔البتہ یوپی میں اکھلیش سے پہلے بی ایس پی لیڈرمایاوتی کی اکثریت کے ساتھ ۲۰۰۷ء میں جو حکومت رہی،نظم و نسق کے اعتبار سے بہتر قرار دی گئی تھی لیکن ہاتھی،کانشی رام اور خود مایاوتی کی مجسموں کی تعمیر کی سیاست نے انہیں عوام میں معتوب کر دیا۔جب انتخابات سر پر آئے تو انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ حکومت مخالف لہر چل رہی ہے اور ان کی مجسموں کی سیاست سے یوپی کا ایک بڑا اور ہوش مند طبقہ نہ صرف ناراض ہے بلکہ ان کی اس بے جا اخراجات کی تائیدنہیں کرتا، مایاوتی نے پردیش کو ۴؍حصوں میں تقسیم کرنے کا انتخابی نعرہ دیا تھاجس کا اس الیکشن ( ۲۰۰۷)میں کہیں کوئی ذکر تک نہیں تھاکیونکہ اس بار کے چناؤ کا کوئی واضح موضوع یا مدعا نہیں تھا بلکہ شخصیت کے تصادم کا بس ایک کھیل تھا۔ایک بڑی کُشتی تھی جس میں پہلوانی ہو رہی تھی ۔ظاہر ہے کہ اس میں ہر اعتبار سے طاقتور پہلوان کو ہی کامیاب ہوناتھا،سو وہی ہوا۔
بی جے پی جو ترقی کا دَم بھرتی ہے، کیا یہ یوپی کے تعلق سے ایسا فیصلہ کر سکتی ہے کہ یو پی کو چھوٹے چھوٹے ۴؍یا ۳؍ حصوں میں تقسیم کر دے؟چونکہ بی جے پی ہی نے اِس نئے دور میں ریاستوں کی تقسیم کا آغاز کیا اور وہ بھی ترقی کے نام پر،تو اسے چاہئے کہ اپنے اِس فارمولے کو جیتی ہوئی ریاست میں بھی استعمال کرے۔اب تو اسے تین چوتھائی اکثریت بھی حاصل ہے اور اس کے اختیار میں ہے کہ یہ جو چاہے کر لے کیونکہ مرکز میں بھی اسی کی حکومت ہے،لیکن یہ ایسا قطعاً نہیں کرے گی کیونکہ ’’ترقی‘‘ اس کا محض نعرہ ہے منزل نہیں۔اس وقت یہ کہے گی کہ یکجا رکھ کر بھی یہ ترقی کر سکتی ہے کیونکہ اس کے رہنما ؤںمیں وہ صلاحیت ہے۔البتہ یہ مہاراشٹر کو دو حصے کرنے پر اندر ہی اندر عمل پیرا ہے کیونکہ اس میں اس کا سیاسی فائدہ ہے۔بی جے پی کا خیال ہے کہ یہ وِدربھ کی بے تاج بادشاہ ہوگی۔
بی جے پی کی منصوبہ بندی سے مقابلہ کرنے کے لئے کانگریس اور این سی پی کی کیا حکمت عملی ہوگی،وہ ہنوز تشنۂ ظہور ہے۔اگرچہ راہل گاندھی اور شرد پوار کی ملاقات بھی ہوئی ہے لیکن یہ شاید اپنی اپنی انا کو دفن کرنے کا ہنر جانتے ہی نہیں ہیں!سب کو پتہ ہے کہ سال کے آخر میں گجرات میں انتخابات ہونے والے ہیں جو کہ وزیر اعظم کا اپنا گھریلو صوبہ (home state) ہے اور سچ پوچھئے تو گجرات کو ماڈل بنا کر اور پیش کرکے نریندر مودی وزیر اعظم کی کرسی حاصل کئے ہیں ۔کیا حقیقتاً ’’گجرات ماڈل‘‘ جیسا کوئی ماڈل ہے؟صرف کہہ دینے سے کہ گجرات ماڈل جیسا کوئی ماڈل نہیں ،کافی نہیں ہے بلکہ کانگریس کو مثالوں کے ذریعے سمجھانا ہوگا کہ اِس طرح کا ماڈل صرف فریب اور سراب ہے لیکن کیا کانگریس اِس طرح کا کوئی تحقیقی کام کرنے کو تیا ر ہے؟ایسالگتا ہے کہ راہل گاندھی کو گجرات میں ہونے والے انتخابات کا علم بھی نہیں ہے،ورنہ کیا وہ حرکت میں نہیں آگئے ہوتے؟اُن کے بجائے بھاجپا صدر امیت شا حرکت میں دکھائی دے رہے ہیں، جبھی تو انہوں نے کانگریسی لیڈر شنکر سنگھ واگھیلہ سے ملاقات کی ہے۔اس ملاقات کو کیا نام دیا جائے؟راہل گاندھی کو بھی اسے سمجھنا ہوگا اور اپنے کیڈر کو متحدبھی رکھنا ہوگا۔
گجرات میں اروند کیجریوال کانگریس کے لئے تباہیاں مچا سکتے ہیں ۔اُن کو ’’چیک ‘‘ میں رکھنے کے لئے دہلی میں ہورہے کارپوریشنوں کے انتخابات میں کانگریس کو اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگاکیونکہ کانگریس کے پاس دہلی کے تعلق سے کہنے کے لئے بہت کچھ ہے کہ ۱۵؍ برسوں کی حکومت میں اس نے دہلی کو ایک بین الاقوامی شہر بنا دیا وغیرہ وغیرہ لیکن کہنے والا تو چاہئے!وہاں کے تینوں کارپوریشنوں میں حکومت(بی جے پی کی) مخالف لہر چل رہی ہے اور اس کو بہت ہی عمدگی سے بھُنایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ کوئی موثر حکمت عملی تیار کی جائے اور کسی شخص کو خاطر خواہ اختیار دیا جائے، خواہ وہ اجے ماکن ہی کیوں نہ ہوں۔کیوں کہ عام آدمی پارٹی کی حکومت دہلی کے لئے کوئی امتیازی کام نہیں کر سکی ہے اور حالیہ اسمبلی الیکشن میں اس کی کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی ہے،یہاں تک کہ صرف ایک امیدوار کو چھوڑ کر گو ا میں اس کے تمام امیدواروں کی ضمانتیں تک ضبط ہو گئیں اور پنجاب میں بھی اس کی ہوا نکل گئی۔کانگریس دہلی کے کارپوریشنوں میں جیت درج کرکے عام آدمی پارٹی کو نفسیاتی طور پر مفلوج کر سکتی ہے تاکہ وہ گجرات کے لئے سو بار سوچے لیکن بی جے پی کی ہمالیائی اولوالعزمی (ambitioins)کو سبوتاژ کرنے کے لئے کانگریس کو بہر حال اپنی فرسودہ روایتوں سے باہر آنا ہوگا۔یہ نہیں کہ جو چل رہا ہے ،چلنے دو؛ جوہو رہا ہے، ہونے دو،جو جا رہا ہے(پارٹی چھوڑ کر)اُسے جانے دو،پارٹی تو پارٹی ہے،اس کا کیا بگڑے گا؟اسی سوچ کے تحت پارٹی روز بروزکھوکھلی ہوتی جا رہی ہے۔بی جے پی کو ۷۵؍ برس کے اوپر کے اپنے لوگ نہیں چاہئیںلیکن کانگریس کے ۸۰؍ برس کے اوپر کے لوگوں کو شامل کرکے کس اصول پریہ پارٹی کاربند ہے ،کیا عوام سمجھ نہیں رہے ہیں؟عوام کو سمجھانے کے لئے کانگریس کے پاس بی جے پی کی بہت ساری کمزوریاں ہیں لیکن بی جے پی کیلئے حکمت عملیاں طے کرنے والے اسے کانگریس کی جانب پلٹ دیتے ہیں ۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کے پاس اُلٹ پھیر کرنے والوں کی باضابطہ ایک ٹیم ہے جو دن رات منصوبہ بند طریقے پہ کام کر رہی ہے۔کانگریس یا حزب اختلاف کی دوسری پارٹیوں کے بیانوں اور الزاموںکوکیسے ناکام اور ناکارہ بنایا جائے اورپھر اس کے بعد کس طرح کا بیان داغا جائے ،اس کے لئے بی جے پی ہمہ وقت ہوم ورک میں جُٹی رہتی ہے کیونکہ اسے اپنی جیت کی خواہش ہے اور اس کے بعد اپنی بقاء کی بھی چاہت ہے۔یہ دونوں ہی باتیں فی الحال کانگریس میں مفقود نظر آتی ہیں ۔
کانگریس کو از سر نو غور کرنا ہوگا ۔بوتھ کی سطح پر اسے کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی شروعات یہ دہلی اور پھر گجرات سے کر سکتی ہے۔لوگوں کو پتہ تو چلے کہ کانگریس کے دل میں کوئی چاہ بھی بچی ہے!دھکے اور دھچکے تو آتے ہیں اور آتے رہیں گے۔اسے ثابت قدم رہنا ہے بلکہ راہل گاندھی کو ثابت قدم رہنا ہے اور انہوں نے اب تک اس کا مظاہرہ بھی کیا ہے،جس نے میدان چھوڑ دیا پس وہ پژمردہ ہوا۔بہرحال کسی بھی حال میںمیدان نہیں چھوڑنا ہے، کام کرنے کا ڈھنگ بدلنا ہے بس،کیونکہ دور اندیش اور تدبر والے لوگ اب بھی کانگریس کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں جس کا ثبوت پنجاب، منی پور اور گوا کے حالیہ انتخابات کے نتائج ہیں ۔ کسی نے وہاٹس ایپ پر کیا خوب پوسٹ کیا ہے—–’’۳؍سال مودی ۔مودی میں کٹ گئے،باقی کے بچے ۲؍سال،یوگی ۔یوگی میں کٹ جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔رہی بات عوام کی تو وہ ’’اپنا ٹیکس وقت پر جمع کریں۔‘‘۔اس جملے میں سب کچھ واضح ہے اور ملک کا ایک ایک شہری اس کے معنی اور مطلب سمجھتا ہے لیکن بی جے پی کے لیڈران اس جملے کو بھی پلٹ دینے کا ہنر جانتے ہیں !
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریر نو ،نئی ممبئی کے مدیر ہیں ۔
رابطہ9833999883