لوجی کرو مستی ، ڈھول تاشے بھی بجائو، اپنے نیشنلی قائد ثانی نے چلہ کلان میں اعلان کردیا کہ اقتدار میں آنے کے بس ایک ماہ میں آٹانومی ریزولیوشن کا چلہ بچہ لے آؤںگا ۔ شہنشاہ ِ زمستان نے سنا تو اپنی بتیسی دکھا کر کھلکھلاتے ہنس دیا، بولا نیاکاغذکیا ضائع کرنا؟نیا پشتارا کیا جمانا، آن دفتر گاؤ خورد کمپنی جاؤ ، وہاں جوپرانی قرارداد گرد آلود بستے میں منتظر فردا ہے، اُسی کی دھول جھاڑ کر، گردا صاف کر کے پبلک کے سامنے لائو،عزت و آبرو کی ڈٹر جنٹ سے دھو ڈالو ، ۳۷۰ کا ملمع چڑھائو، ۳۵؍اے کے گرما گرم پانی میں غوطے دو ، صاف شفاف آٹانومی ریزولیشن سامنے آئے گا تو دلی کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں گی، کشمیر کے کلیجے پر ٹھنڈک پڑے گی۔ویسے بھی آج کل ہل والی پارٹی واشنگ مشین کا کام کر رہی ہے کہ کل تک جو قلم کنول والے ناقابل سلام کلام تھے، ان کے سارے گناہ فٹا فٹ دُھلے جا رہے ہیں۔یہ ہوئی نا بات، ہل والوں کی کرامات!!
کیا کریں اپنی تو قسمت ہی ایسی ہے کہ بے چارے فوجی ہوا میں گولیاں چلاتے ہیں لیکن ہمارے منچلے لڑکے سر اور جسم اور اُچھالتے ہیں جبھی تو گولیاں ان کے سروں یا سینوں میں لگتی ہیں۔ نو دہائیوں سے باری باری اور پچھلی تین دہائیوں سے ہم مسلسل کفن ہی پہن رہے ہیں اور اب کی بار سرنو پلوامہ میں سات جمع تین برابر دس کفن دفن کی مٹی ابھی خشک بھی نہ ہونے پائی تھی کہ ادھر زندہ لوگوں نے کفن پہنے۔ان کا سوال تھا جب کفن ہی پہننے ہیں تو ایک ہی بار ایک ساتھ کیوں نہ پہنیں ؟یہ روز روز کا جھنجھٹ کیوں؟ اس کہانی میں کچھ تو حقیقت تھی اور کچھ فسانہ بھی ،کیونکہ کچھ تو اُن میں کفن بردوش تھے کہ ہتھیار بند وردی پوشوں کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہوگئے کہ درجنوں میں مارنے کی ضرورت کاہے کی، ایک ہی بار ہم پر بندوقوں کے دہانے کھول دو۔یہ صبح شام کا رونا کیا، قصہ ختم کردو ایک ہی بار ،یعنی تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں۔اب یہ تو سب کو معلوم ہے جو کفن بر دوش بن جائے ا‘سے موت کا ڈر کاہے کا، لیکن ایسے میں گدھے بھی نال لگوانے آگے بڑھے گھوڑوں کو جونال لگتے دیکھ چکے تھے۔مطلب کفن بر دوش کو دیکھ کر چند ایک کفن چور بھی ظاہر ہوئے کہ ہمیں بھی گنتی میں ڈال دو ۔بھلا کسے نہیں معلوم یہ تو کرسی کی آڑ میں ۲۰۱۰ ء اور ۲۰۱۶ ء میں ڈیڑھ ڈیڑھ سو کفن اپنے ہی لوگوں کو پہنا چکے تھے۔ جب ہم نے اتنے سارے کفن پہنانے کا شکوہ کیا تو ہاتھ ملتے ہوئے کہہ ڈالا کہ ہم کچھ نہیں کر پاتے کہ ہماری کرسی خطرے میں ہے ۔ ہم چونکہ’’ اَلہ کرے گا وانگن کرے گا‘‘ پارٹی ہیں، اس لئے اپنی کرسی دائو پر نہیں لگا سکتے کیونکہ ہمارے الہ وانگن کرسی کے بغیر خشک ہو جاتے ہیں پھر بھرتہ بن نہیں پاتا ۔اور تو اور الم غلم کرنے والی قلم دوات پارٹی والے سینہ ٹھوک کر بولے تھے کہ انہیں تو کفن پہنانا ضرور ی ہے، یہ کیا کوئی دودھ ٹافی لینے گئے تھے؟چلو ان کے اپنے سیاسی کفن کا انتظام تو ہوگیا کیا پتہ سیاسی دفن بھی جلد ہو جائے کہ اب انہیں وہی لوگ دشمن جان لگتے ہیں ،جن کے ساتھ کل تک روٹیاں توڑتے تھے بلکہ ایک ہی کٹورے میں سیاسی گشتابے پروستے تھے ۔ناگپوری سنترے اور چینی وڈُر (بجبہاڑہ علاقے کے سیبوں والی زمین)کے سیب کا ملاپ کر بیٹھے تھے بلکہ بقول اہل ِکشمیر اُن کی آنکھوں پر مکھی بھی برداشت نہیں کرتے تھے کہ باجپائی کے گن گاتے ، سیکولرازم کے قصیدے پڑھتے،بھارت ماتا کی جے جے کار پر وندے ماترم کا مکھڑا گاتے تاکہ کنول بردار کا اَنترا بھی خوش رہے اور پنجہ مار سیاسی لٹیرے بھی شاد رہیں۔اتنا ہی نہیں قلم بردار تو قطبین کے ملاپ کے لئے تازہ اور مضبوط جوڑ کے لئے مرد مومنانہ فیویکول ڈھونڈھ لائے ۔یہ اور بات ہے کہ مرد مومن اور بعد میں بانوئے کشمیر نے جو نیا فتویٰ لکھوایا تھا وہ ناگپوری برادری کو زیادہ راس نہیں آیا اور بیچ منجھدار قلم توڑ ڈالا ،عَلم توڑ ڈالا اور ساتھ میں دوات اُلٹ کر روشنائی بکھیر دی۔اس کے چلتے جو دو گز زمین بھی تنگ ہوتی گئی تو کفن چور بھی میدان میں اُترے کہ بھائی لوگو !ہم بھی کفن بردوش ہیں مگر اپنے اہل ِکشمیر جہاں دُم نہ ہو وہاں جھاڑو باندھ کر شہر شہر گلی گلی گھماتے ہیں ۔ جبھی تو کفن چوروں کے چرائے کفن کی نشاندہی کردی ۔بھارتی پارلیمان اور جموں سیکر ٹریٹ کے باہر گورنر انتظامیہ اور مودی سرکار کو چیتاؤنی دے ڈالی کہ سدھر جائو ، اپنی فوج کو قابو میں رکھو یا تو ہمیں ہی کرسی دے دو اور ہم کفن پہنانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ۔ہم ٹافی دودھ والوں کو بھی نہیں بخشتے ۔تیرہ برس کی انشاء کو بھی نشانہ بنانے کی مہارت رکھتے ہیں۔بھلا تم کس کھیت کی مولی ہو،ہم تو وہ ہیں کہ اپنے ہی لوگوں کو کفن پہنانے کی دوڑ میں پان سنگھ تومر کو بھی ہرایا تھا ؎
اپنی سیاست کا ہے مختصر فسانہ
اقوال عاشقانہ ، اعمال احمقانہ
کرسی کی دوڑ میں جو وعدے کئے ہم
نعرے بھی ہمارے بالکل مجرمانہ
اب کی بار مودی سرکار نے اپنے ملک کشمیر کو ڈائرکٹ اپنی تحویل میں لے لیا اور اُسے صدر راج کا نام دیا ۔اس سے پہلے ستیہ وادی ستیہ پال ملک اور کبھی بانوئے کشمیر یا نیشنل کے ٹویٹر ٹائیگر راج کرتے تھے مگراپنی لل دید نے کیا دانائی کی بات کی تھی کہ ’’ہو نڈ ا سی تَن یا کٹھَ لل ہین د نلہ وَٹھ ژلہِ نہ زانہہ‘‘۔مطلب صاف ہے ہم نے ہر سرکار میں گولی پیلٹ اور ٹاس پٹاس فورس کی لاٹھی کھائی۔یہ ہوئی دور اندیشی کی بات۔اَلہ وانگن پارٹی میں بھی ہمیں عزت و آبرو کا مقام بندوق کے دہانے سے دیاگیا۔مرد مومن اور بانوئے کشمیر نے بھی ہمارے دودھ ٹافی میں مرچیں ملا دیں۔ستیہ پال نے بھی درجنوں کے حساب سے کفن پہنوائے اور رام جی کووند کہاں خاموش بیٹھیں گے؟کسے نہیں معلوم کہ سبھوں کے دور جو شور اور زور چلتا تھا وہ تو وردی پوش کا ہے ،یعنی بھلے ہی کرسی کسی کے پاس ہو، اقتدار تو بہر حال وردی پوش کی جیب میں ہے۔
کبھی تو ہم یہ بھی سوچتے تھے کہ شاید گولی پھرن کے پار نہیں جاتی ،اس لئے مارنے سے پہلے پھرن اُتارنے کا حکم ملتا۔مانا کہ گرمیوں کے دوران بھی مسافر گاڑیوں کے شیشے چڑھا کر رکھنے سے اندر بیٹھے لوگ تپش محسوس کرتے مگر کیا کریں وردی پوشوں کا حکم نامہ تھا،پھر ہم سوچتے کہیں ایسا تو نہیں کہ ملک کشمیر تب تک قابو میں رہے گا جب تک شیشے چڑھیں رہیں گے۔کچھ تو پھرن کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا کہ پھرن سے بازو باہر نکال کر چلتے رہو ۔ ہم سوچتے کہ ملک کشمیر پھرن کی وجہ سے ہی قابو سے باہر ہے۔اپنے لوگ تو سیدھے سادھے ہیں بلکہ اللہ میاں کی گائے سمجھو ۔پھرن کے نام پر ہلہ غلہ تو اتنا مچا دیا کہ پھرن ہماری تہذیبی پہچان ہے اور احتجاج کے طور فیس بک وغیرہ پر پھرن پہنی تصاویر اَپ لوڈ کر دل بھی بہلاتے ہیں اور حکم نامہ جاری کرنے والوں کو چیتاؤنی بھی دیتے ہیں ۔اب اپنے لوگوں کو کون سمجھائے کہ بھائی یہ پھرن کا معاملہ نہیں بلکہ اس کے اندر کیا ہے، وہ اہم ہے۔پھرن کے اندر کبھی کانگڑی ہوا کرتی تھی اور کسے نہیں معلوم کہ جب کانگڑی اُچھالی جاتی تھی تو کیسے کیسے ویربہادر ڈرے ڈرے سہمے سہمے کونوں میں چھپ جاتے۔ اسی لئے تو کسی منچلے نے اعلان کردیا تھا کہ ؎
شلغم کے قتلے کھا کر ہم تو جوان ہوئے ہیں
کونڈل ہے کانگڑی کا قومی نشان ہمارا
جب سے اپنے ملک کشمیر میں حالات بدلے اور کانگڑی کے بدلے کلاشنکوف نے تخت سنبھالا تو پھرن کی اہمیت گرمی کے بدلے بم بارود والی بوری میں تبدیل ہو گئی۔پھر یہی ہوا کہ کلاشنکوف کے چھپا کر گھمانے، نچانے ،سجانے کے لئے پھرن کام آیا جبھی تو وردی پوش فرن والوں سے دور رہ کر اُوپر اٹھانے کے لئے کہتے ،یعنی اگر کشمیر اپنے قبضے میں رکھنا ہے تو پھرن کا کوئی انتظام کرنا ہے ۔ہو نہ ہو کہیں سے نوے کی دہائی کی کوئی فائل گورنر انتظامیہ کے ہاتھ لگی اور مہلک ترین ہتھیار پھرن کی بابت تفصیل سامنے آئی ۔آئو دیکھا نہ تائو پھرن پر پابندی عائد کردی۔ہو نہ ہو پھرن اب حافظ سعید اور اظہر مسعود سے بھی خطرناک دکھنے لگا ۔بھائی لوگو سمجھو پھرن کی بات نہیں پھرن کے اندر کا راز جانو ۔
لو جی کر لو گل ۔پتھر اور گولی کی قیمت کا موازنہ ہوگیا ۔بھارت ورش کے سپہ سالار نے یہ مسلٔہ حل کردیا ۔کہاں مودی سرکار اور راہل نامدار ابھی رافیل جنگی جہازوں کی قیمتوں پر لفظی جنگ میں مصروف ہیں اور کہاں جنرل نے پتھر کی قیمت گولی جتنی ہونے کا اعلان کر ڈالا ۔جبھی تو اس نے سنگ باز کو بندوق بردار کے ہم پلہ جتایا ۔ہم تو مخمصے میں ہیں کہ بیرون ممالک سے زر ِکثیر خرچ کرکے گولیاں خریدنے کا کیا تُک ہے ؟ اپنے یہاں تو کم قیمت پر ہی پتھر ملتے ہیں ،جمع کرلو اور دشمن پر وار کرو ۔ویسے اس دوران سابق سپریم کورٹ جج جسٹس کاٹجو بھی سنگ باز بن گیا ۔اس نے بھی ایک پتھر مارا ، جنرل راوت کا جنرل ڈائر سے موازنہ کیا اور یوں وردی پوش سالار کے آتنکی لسٹ میں شامل ہو گیا ۔جج صاحب کا پتھر تو طنز سے بنا ہوا تھا اور اس میں مبارک بادی کے تیر چھپے تھے ،جس سے بھلے ہی جسم زخمی نہ ہو پر ضمیر نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے جو گھمنڈ اور فخر کے نیچے گم رہتا ہے۔جب طاقت اور ہتھیاروں کا گھمنڈ سر چڑھ کر بولے، پھر بھلا ضمیر مردہ پہلے ہوتا ہے اور اس کے ما بعد بے گناہوں کے جسموں پر کفن چڑھایا جاتا ہے۔ یہ کفن جب چڑھتا ہے تو خاکی پوشوں کی یہ ڈیوٹی لگتی ہے کہ کفن کے اوپر الزامات کی ایک پرت بھی پہنا دو ۔پھر خاکی پوش شاہ سے زیادہ وفادار بنے پھرتے ہیں یا بقول اہل ِکشمیر ’’خوجن دوپم پھٹکھَے‘‘ کے نشے میں جھولتے ہیں۔ اڑھائی کلو میٹر کے فاصلے کوخطر ناک ترین اور قریبی فاصلہ جتا دیتے ہیں کہ سنگ باز اس قدر دلیر بنے پھرتے ہیں ۔ اس دوڑ میں اڈھائی مہینے کا نائب تحصیل دار کویندر گپتا کچھ زیادہ ہی چشم دید گواہ بنا پھرتا ہے ۔اپنی نائب تحصیل داری کھو جانے کے غم اسی کرسی کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں نے ان لوگوں کو فوجیوں کی بندوقیں چھین کر بھاگتے ہوئے دیکھا جبھی تو وہ کفن کے حقدار بنے اور خاکی پوش دروغ کی تمام حدوں کو پار کرکے خود ہی پشیمان جو ہوتے ہیں تو اضافی پریس نوٹ میں کفن پہنانے پر افسوس جتاتے ہیں۔کیا پتہ اپنے سیاسی کفن چور اور خاکی وفادار اس سوچ میں ہوں کہ ان کی ’’تارَن گری‘‘(شعبدے بازی) سے وہ گلاب پھر سے کھل اُٹھیں گے۔
اپنے ملک کشمیر میں بچوں کو کفن پہنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں مگر اپنے لوگوں کو ترشول بردار ہاتھ دھو کے پیچھے پڑے ہیں کہ پانچ پانچ بچے پیدا کرو جبھی تو وہ اقلیتوں کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔چلو اچھا ہوا ساڑھے تین کروڑ تو سب کا وکاس میں فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں، سب کا ساتھ پانچ کروڑ بنا روٹی کے رات بھر جاگیں گے کہ خالی پیٹ نیند کہاں؟
شوق سے نور نظر لخت جگر پیدا کرو
ظالمو تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
کیا چھچھوندر سے نکالے یہ بچے بھکت جن
عقل کے دشمن انہیں بارِ دگر پیدا کرو
…………
رابط ([email protected]/9419009169)