گزشتہ برس کشمیر میں سیاحوں کی ریکارڈ آمد کے بعد مزید سیاحتی مقامات کو ترقی دینے اور وہاں ضروری بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ کشمیر کی سیاحت کو صرف چند مقامات تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ اس کے دائرہ کو نمایاں طور پر بڑھایا جانا چاہئے۔سیاحت معیشت کے لئے بہت اہم ہے۔ کئی دہائیوں سے سیاحتی شعبہ کی تنزلی کی وجہ سے معیشت کو نقصان پہنچا ہے اور اسی طرح سیاحت پر انحصار کرنے والے لوگ بھی کافی متاثر ہوئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس بار موسم سرما کی سیاحت کو بڑے پیمانے پر فروغ دینے کے لئے کمر بستہ ہیں۔اگر سیاحوں کو ضروری انفراسٹرکچر اور سہولیات میسر ہوں تو سرمائی سیاحت کو فروغ ملے گا۔ انفراسٹرکچر اور سہولیات ناپید ہوں تو بڑے پیمانے پرترقیاتی کام اور منصوبہ بندی مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتے ہیں۔ سیاحت کے شعبے میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کشمیر میں سیاحت کی بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے اور ابھی بھی بیسیوں سیاحتی مقامات کو ہی سیاحتی نقشہ پر لانا مقصود ہی نہیںہے بلکہ پہلے سے موجود سیاحتی مقامات کو بھی بھرپور استعمال نہیں کیاجاسکا ہے۔کشمیر کی سیاحتی صلاحیت کو مکمل طور پر استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ سیاحوںکے پاس کشمیر کے دلفریب مقامات کو دیکھنے کے لئے کافی انتخاب ہونا چاہئے۔ مزید مقامات کی نشاندہی کرکے انہیں فروغ دینا ہوگا اور جن کی پہلے سے نشاندہی کی گئی ہے ،انہیں بڑے پیمانے پر تیار کرنا ہوگا۔ صرف روایتی سیاحتی مقامات پر توجہ مرکوز کرنے سے کام نہیں چلے گا۔فی الوقت ایسے سیاحتی مقامات کی طرف بھی توجہ دینے کی کوشش کی جانی چاہئے جو طویل عرصے سے نظر انداز کیے گئے ہیں۔ بلاشبہ سیاحت کے نقشے کو گلمرگ، پہلگام، سونہ مرگ اور سری نگر سے آگے بڑھانے کے لئے کچھ اقدامات کیے گئے تھے لیکن یہ چھوٹے قدم تھے اگرچہ قابل تعریف تھے ۔ساتھ ہی یہ شکایات بھی ہیں کہ دیگر سیاحتی مقامات کو بھی وہ مناسب سلوک نہیں مل رہا جس کے وہ مستحق ہیں۔ ایسی شکایات ہیں کہ کئی سیاحتی مقامات جیسے دودھ پتھری، توسہ میدان اور یوسمرگ کو اس طرح ترقی نہیں دی گئی ہے جس طرح کی ضرورت تھی۔ایسے مقامات پربدستورانفراسٹرکچر کی کمی ہے۔ ان سیاحتی مقامات میں سیاحت کو فروغ دینے کے بہت زیادہ امکانات ہیں، اسلئے ایسے مقامات کے آس پاس رہنے والے لوگوں کی شکایات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔کشمیر کا چپہ چپہ سیاحتی اعتبار سے پُر کشش ہے ۔صرف اُس نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔کپوارہ کے سرحد سے لیکر قاضی گنڈ تک آج کی تاریخ میں بھی ہیریٹیج سے لیکر مذہبی سیاحت اور فطری سیاحت سے لیکر کلچرل سیاحت کے اعتبار سے بیسیوں نہیںبلکہ سینکڑوں ایسے مقامات ہیں جہاں سیاحوں کو پہنچایاجاسکتا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں سیاحتی نقشہ پر لایا جائے اور وہاں ضروری ڈھانچہ دستیاب رکھا جائے ۔حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس موسم سرما میں دودھ پتھری، یوس مرگ اور سونہ مرگ کو سیاحوں کے لئے کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک اچھا اقدام ہے لیکن ایسی جگہوں کو بڑے پیمانے پر تیار کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اب 13جنوری کو زیڈ موڈ ٹنل کا افتتاح ہونے جارہا ہے جس سے سونہ مرگ سرما میں کھلا رہ سکتا ہے ۔ یہ اچھی خبر ہے اور یقینی طور پر سونہ مرگ میں سیاحت کو دوام مل سکتا ہے۔غیر ملکی سیاح وادی میں سکیئنگ اور دیگر سرمائی کھیلوں کو پسند کرتے ہیں۔کشمیر کو قدرت نے سرما میں برفانی چوٹیوں سے نوازا ہے جو سرمائی سیاحت کیلئے سب سے زیادہ موزون ہیں اور سرمائی کھیلوں کے ایک مکمل کلینڈر کو ترتیب دے سکتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ گھریلو سیاحوں کو بھی سردیوں میں کشمیر آنے کی ترغیب دی جانی چاہئے۔ مجموعی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے کشمیر کی سیاحت کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔