وادیٔ کشمیر کو قدرت نے جن خوبصور ت ودلفریب فرحت بخش اورپُر سکون صحت افزا سیاحتی مقامات سے نوازا ہے ،اُن کا شہرہ ملک میں ہی نہیں بلکہ غیر ممالک میں بھی خوب ہےجبکہ بعض دلکش جگہوںکو بین الاقوامی سیاحتی مقام کی حیثیت حاصل ہے،گویا کشمیر کے یہ سیاحتی مقامات کشمیر کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔لیکن بدقسمتی سےاب ان سیاحتی مقامات کی صورتِ حالت، ہماری غفلت ،نااہلی و غیر ذمہ داری کے ساتھ ساتھ یہاں کی حکومت کی عدمِ دلچسپی اور ناقص کارکردگی سے دن بہ دن خراب ہوتی جارہی ہے۔قدرت کے عطا کردہ ان خوبصورت اور دِل رُبا شاہکاروں میں سے کئی کی ہیَت تک بگڑ کر مایوس کُن تصویر پیش کررہی ہے۔سر سبز میدانوں ،لہراتے درختوںاور جھنجھناتے ندی نالوں کے پُر کیف نظاروں کی لطیف کشِش بھی معدوم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہےاور صاف و شفاف فضا ء میں بھی کثافت چھا گئی ہے،گویا انسان کی غفلت اور غیر ذمہ دارنہ رول نے ان خوبصورت ترین مقامات کو بھی ناپاک، داغدار و دُھندلا کرکے رکھ دیا ہے۔اخباری اطلاعات کے مطابق بین الاقوامی سیاحتی مقام کی حیثیت کا حامل سیاحتی مقام پہلگام ہی نہیں بلکہ گلمرگ ،ٹنگمرگ ،سونہ مرگ ،دھوبی وَن،کوکر ناگ ،ویری ناگ ،دودھ پتھری سمیت کئی دوسرے معروف سیاحتی مقامات ،پارکوںاور مغل باغات کی شان وشوکت مسمارہوکر کچرے اور غلاظت کے کوڈے دانوں میں تبدیل ہورہی اور اس معاملے میں نہ صرف مقامی لوگوںاورمقامی حکام،بلکہ ان مقامات کی سیر پر آنے والے کشمیری و غیرکشمیری اور غیرریاستی سیاحوں کا ہاتھ بھی شامل ہے، جو اپنی ناقص سوچ ،غیر ذمہ دارانہ پالیسی اور اپنے غلط روایتی عادات کے تحت ان مقامات کے خوبصورت نظاروں کی دلکشی کو مسخ کرکے رکھ دیتے ہیں۔چنانچہ ان مقامات کی سیر کرنے والے ذی ہوش اور باشعور لوگوں کا کہنا ہے کہ جہاں یہ سیاحتی مقامات گندگی و غلاظت سے بھرے پڑے ہیں وہیں متعلقہ ذمہ دار اتھارٹیوں کی ناقص منصوبہ بندیوںاور غلط حکمت عملیوں سے صورت حال مزید تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ہر مقام پر ہر جگہ کچرا،غلاظت اور گوبر اس طرح بکھرا ہوا ہے کہ سستانے کے لئےانسان کو کوئی صاف جگہ ہی نہیں ملتی ہے۔جس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ انتظامی اتھارٹیاںنےصاف و ستھرائی کا کوئی ٹھوس نظام ہی نہیں رکھا ہے۔ ان سیاحتی مقامات پر آنے والوں کے لئے نہ کوئی قاعدہ اور ضابطہ رکھاگیا ہے،جس کی پابندی کرنے پر وہ قائل رہتے۔اسی طرح جگہ جگہ پرنہ مناسب ڈسٹ بین ہیں اور نہ ہی سیاحوں کی بشری حاجت کے مناسب سہولیات ہیں ۔ جس کے نتیجے میں یہ بدترین صورت حال پیدا ہوگئی ہےکہ ہر جگہ گوبر اور کچرے کے علاوہ کھانے پینے کے سامان کے ریپر،پلاسٹِک کی بوتلیں اور دوسرےپالی تھین اشیاء کے ڈھیر کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔جن سے نہ صرف سر سبز گھاس کا فرش تباہ ہورہا ہے بلکہ ان کچروں اور غلاظت سےپیدا ہونے والی تعفن کی کیفیت سے فضا بھی آلودہ رہتی ہےجو سیاحوں کے لئے زبردست کوفت کا باعث بن جاتی ہے۔ بے شک انسان میں شعور ہے اور عقل بھی۔لیکن انسان اس شعور کو ہر وقت بیداررکھنے کی کوشش نہیں کرتا ہے،جس کے نتیجے میں وہ اچھے اور بُرے عمل میں تمیز نہیں کرپاتا اور نہ صفائی اور گندگی میں فرق کرپاتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف مقامی لوگ بلکہ ان سیاحتی مقامات پر آنے والے لوگ اپنے اندر اس احساس کو جگائیں کہ قدرت کے عطاکردہ ان خوبصورت مقامات کو صاف و پاک رکھنا بھی ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔جبکہ متعلقہ اتھارٹیوں پر بھی لازم ہے کہ اپنی کارکردگیوں کا جائزہ لیں اور اپنے خفتہ شعور کو بیدار کرکے اس بات پر غورو فکر کریںکہ کس طرح ان سیاحتی مقامات کی قدرو قیمت کو برقرار رکھا جاسکےاور ان سیاحتی مقامات کی دیکھ ریکھ پر معمور عملے ان کی حفاظت کرنےاوران کی قدرتی خوبصورتی ودلکشی کو بحال رکھنے کے لئے وہ تمام سامان کریں،جن کی عدم دستیابی سے متذکرہ صورت حال پیدا ہورہی ہے۔حکومت کو اس بابت سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے تاکہ پائیدار بنیادوں یہاں کے سیاحتی مقامات کا طویل مدتی تحفظ ہوسکے اور مثبت طریقے پر سیاحت کو فروغ مل جائے۔کیونکہ کشمیر کے یہ سیاحتی مقامات کشمیر کے لئے تاج کی حیثیت رکھتے ہیں۔