بلال فرقانی
سرینگر// پہلگام میں پیش آئے المناک واقع کے بعد وادی کشمیر کا سیاحتی شعبہ جس بحران سے دوچار ہوا تھا، اب رفتہ رفتہ اس سے نکلنے کے آثار دکھا ئی دے رہے ہیں۔ اگرچہ کئی اہم ٹریکنگ روٹاور جنگلاتی پارکیں تاحال بند ہیں تاہم مقامی اور بیرونی سیاحوں کی محتاط واپسی نے اس صنعت سے وابستہ ہزاروں افراد کیلئے نئی امید جگائی ہے۔وہ شکارا جو ڈل جھیل میں خالی خالی تیرتے نظر آرہے تھے ، اب کچھ پرسکون چہروں کو کشمیر کی کہانی سناتے نظر آ رہے ہیں۔شکارا ایسو سی ایشن کے صدر حاجی ولی محمدنے اس سلسلے میںبتایا’’شکارا خالی اور جھیل بھی خالی تھی لیکن اب پچھلے ہفتے سے دو چار گاہک روز آ رہے ہیں‘‘۔یہی مناظرپہلگام سے لیکر گلمرگ تک کسی نہ کسی شکل میں دہرائے جارہے ہیں، جہاں خاموش بازاروں میں اب پھر سے رونق لوٹ رہی ہے۔ہاؤس بوٹ مالکان ایسوسی ایشن کے سینئر رکن محمد یعقوب دون کا کہنا ہے’’جب پہلگام میں واقعہ ہو، تو لگا کہ ہم سے سب کچھ چھن گیا لیکن پھر سے امید جاگ گئی ہے‘‘۔انہوں نے بتایا کہ پچھلے کچھ دنوں سے ہاؤس بوٹوں میں جزوی بکنگ شروع ہو چکی ہے، خاص طور پر چھوٹے گروپ سیرکیلئے آ رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا’’جب کوئی چھوٹا بچہ شِکارے میں بیٹھ کر ’یہ جھیل کتنی خوبصورت ہے‘ کہتا ہے یا کوئی بزرگ سیاح پہاڑوں کی طرف دیکھ کر سکون کی سانس لیتا ہے، تو صرف کاروبار نہیں بڑھتا بلکہ ایک پوری وادی کا دل دھڑکنے لگتا ہے‘‘۔محکمہ سیاحت نے حفاظتی انتظامات میں اضافہ کیا ہے اور کئی علاقوں میں خصوصی انفارمیشن کاؤنٹر، گائیڈ سروسز اور سیاحوں کی رہنمائی کیلئے نئے سائن بورڈ نصب کیے ہیں۔ محکمہ سیاحت کے ایک افسر نے بتایا’’ہمیں اندازہ ہے کہ اعتماد ایک دن میں بحال نہیں ہوتا۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ سیاحوں کو ایسا محسوس ہو کہ وہ محفوظ ہیں۔سیکورٹی ایجنسیوں نے مقامی رضاکار تنظیموں اور ہوٹل ایسوسی ایشنز کے تعاون سے ٹرانسپورٹ، ہوٹلوں اور مشہور مقامات پر گشت کو بھی بڑھایا گیا ہے‘‘۔سرینگر کے ایک نوجوان ٹور آپریٹر عادل بشیر کا کہنا ہے ’’ہم نے روایتی ماڈل سے ہٹ کر سوشل میڈیا مہم شروع کی ہے۔ انسٹاگرام اور یوٹیوب پر کشمیر کی پرامن تصاویر اور ویڈیوز اپلوڈ کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کو دکھا سکیں کہ یہاں زندگی معمول پر آ رہی ہے‘‘۔ ان کا ماننا ہے کہ نوجوانوں کی یہ ڈیجیٹل مہم کشمیر کی سیاحت کو عالمی سطح پر دوبارہ متعارف کرا سکتی ہے۔سرینگر کے بلیوارڈ روڈ پر ایک ہوٹل چلانے والے محمد آصف کہتے ہیں ’’اب ہم کم از کم اتنا کما رہے ہیں کہ عملے کی تنخواہیں دی جاسکیں‘‘۔ٹریول ایجنٹس سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری سجاد کرالیاری نے بتایا کہ جولائی کے ابتدائی دس دنوں میں سیاحوں کی آمد میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو ایک مثبت اشارہ ہے۔ تاہم انہوں نے زور دیا کہ اعتماد کی مکمل بحالی کیلئے وقت اور تسلسل ضروری ہے۔کرالیاری نے کہا’’کشمیر کی معیشت میں سیاحت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس سے وابستہ لاکھوں افراد کی روزی روٹی اسی پر منحصر ہے۔ اگرچہ پہلگام واقع کے بعد پیدا ہونے والا خوف مکمل طور ختم نہیں ہوا ہے مگر رفتہ رفتہ زندگی معمول پر آ رہی ہے‘‘۔