حال ہی میںآل انڈیامسلم پرسنل لابورڈنے ایک مجلس کی تین طلاق دینے والے شخص کے بائیکاٹ کا اعلان کیاہے۔بورڈکی جوشیلی دستخطی مہم بھی ابھی ختم ہوئی ہے جس کا میمورنڈم لاء کمیشن کوپیش کیاگیا۔ ساتھ ہی کچھ اوردینی جماعتوںکی ملک گیرمہم شریعت کے تحفظ کے لیے شروع ہوگئی ہے۔بورڈ جس طرح کی مہمیںچلارہاہے ملک کے موجودحالات میں آخری تجزیہ میںاس طرح کی مہمیںسیاسی طورپر کس کوفائدہ پہنچاتی ہیںیہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ایک یہ تجزیہ ہے (شاہ بانوکیس کے مضمرات ونتائج کودیکھتے ہوئے اس تجزیہ میں معقولیت نظرآتی ہے )کہ دراصل بی جے پی اورآرایس ایس سہ طلاق کی آڑ میں 2019اورمابعدکے لیے اپنے لیے سازگارسیاسی ماحول تیارکررہے ہیںاوراس کے لیے سب سے بہتراورآزمودہ طریق رائے عامہ کاپولرائزیشن ہے۔گزشتہ لوک سبھااوراب پانچ اسمبلیوںکے انتخابی نتائج نے بی جے پی کوبتادیاہے کہ اس کومسلمانوںکے ووٹوںکی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔اسے صرف اکثریتی فرقہ کوکلی طورپراپنے حق میں کرناہے جس کے لیے فرقہ وارانہ پولرائزیشن سب سے بڑاہتھیارثابت ہوگا ۔بابری مسجداورشاہ بانوکیس کوایک باروہ اس کے لیے استعمال کرچکے ہیںاوراس کا زبردست فائدہ ان کوملا۔اب طلاق کے قضیہ پر ملّی قیادت کے ہنگامہ اورشوروغل کوبھی وہ اسی مقصدکے لیے استعمال کریںگے ۔ایسے میںہوناتویہ چاہیے تھاکہ مسلم قیادت بی جے پی سے ٹکرائوکی سیاست مول نہ لے کراپنی ساری طاقت ملت کی تعلیم ،معاشی ترقی اوربرادران وطن میںدین کی دعوت اوروحدت ملت جیسے مسائل کے لیے جھونک دیتی ۔کچھ دنوںکے لیے ہی سہی مسلمان سیاسی محاذآرائی سے اپنے آپ کوالگ کرلیتے اوربالواسطہ مسلمانوںکا ایمپاورمنٹ بھی ہوتااورفسطائی قوتوںکے ہاتھ سے ان کی مخالفت کا ایک بڑابہانہ جاتارہتا۔مسلم قیادت کوفسطائی قوتوںسے مکالمہ کے لیے تیارہونے کا موقع ملتاجووقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے اوردیرسویران کواسی کی طرف آناپڑے گا،مگرمسلم قیادت ایسالگتاہے کہ بی جے پی کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس چکی ہے اور’’مذہب کا تحفظ ،’شریعت بچاؤمہم اوردین خطرہ میںہے ‘‘کے آزمودہ نعروںکے ساتھ میدان میں آچکی ہے۔لیڈنگ رول مسلم پرسنل لاء بورڈاداکررہاہے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ والوںاوردوسری تنظیموںسے پوچھاجاناچاہیے کہ وہ شریعت کودرپیش کون سے خطرے کی با ت کررہے ہیں؟یکساںسول کوڈ اس ملک میں قابل ِعمل نہیں ہے اورحکومت اوراس کی لابیاںبھی یہ با ت خوب جانتی ہیں۔اسی لیے وہ کبھی اہل ملک کے سامنے آج تک اس کا کوئی ڈرافٹ نہیں پیش کرسکیںاورنہ کرسکیںگی ۔یہ تو محض شوشہ ہے مسلمانوںکومنفی کاموںمیں اُلجھائے رکھنے کا۔ کاش اس نکتہ کواپنی ملت سمجھ پاتی!دوسری بات، طلاق ثلاثہ کے بارے میں حکومت کا اورعدلیہ کا موقف یہ ہے کہ یہ قرآن کے خلاف ہے اورخودمسلم اہل علم میں بھی ایک معتدبہ طبقہ طلاق ثلاثہ (یکبارگی )کے بارے میںیہی رائے رکھتاہے اورطرفہ تماشہ یہ ہے کہ پرسنل لاء بورڈ بھی اس کوغلط،بدعت اورگناہ قراردیتاہے تبھی توایساکرنے والے کے بائیکاٹ کی بات کررہاہے ۔ایسے میں زیادہ منطقی اورمعقول یہ رویہ ہوتاکہ مسلم تنظیمیںاوربورڈ خودعدالت کے فیصلہ کا انتظار کرتیں۔طلاق کے مسئلہ میں عدالت نے کوئی کیس ازخود( Souve Moto )نہیں لیا۔طلاق کی ماری مسلم خواتین جب اس سے رجوع کرتی ہیںتووہ فیصلہ دیتی ہے ۔پھراُسے شریعت میں مداخلت کا الزام کیوںکردیاجاسکتاہے ؟یادرہے کہ عدالت نے اب تک اس بارے میں جتنے فیصلے دئے ہیںان میںباربارقرآن کاحوالہ دیاگیاہے ۔قرآن کے ذکرکردہ طلاق کے پراسِس کاحوالہ دیاگیاہے ،تحکیم کی بات کہی گئی ہے ۔ہمارے علما ومفتیان کرام توتحکیم کا بھولے سے بھی ذکرنہیں کرتے جونص صریح سے ثابت ہے ۔کیاقرآن پر صرف علما اورمسلمانوںکی اجارہ داری ہے ؟دوسرے اس کے سمجھنے کی کوشش نہیں کرسکتے ؟ہمیں تسلیم ہے کہ عدالت نے جوفیصلے دئے ہیںان سے آپ کواختلاف ہوسکتاہے مگریہ بھی نہ بھولئے کہ عدالت نے ساری نظیریںخودمسلمانوںکے اپنے تعامل سے پیش کی ہیں۔اسلامی فقہ کے ذخیرہ سے پیش کی ہیںاورقرآن کے ترجموںسے نقل کی ہیں۔ہوناتوچاہیے تھاکہ بورڈ اس بارے میں عدالت کے سامنے اپنے موقف کوبیان کرتا،اپنے دلائل دیتااورعدالتی لڑائی پر ہی اکتفاکرتا۔عوامی مہم چلانااورپوری ملت کواس میں جھونک دینانہ صرف غیرمعقول اورغیرمنطقی رویہ ہے بلکہ صرف اورصرف سیاسی جذباتیت اوربے نتیجہ adventurism معلوم ہوتاہے کیونکہ آخری تجزیہ میں فسطائی قوتیںہی اس سے فائدہ اٹھائیںگی۔بورڈ کے ایک مؤقررکن اورایک مؤقرجماعت کے صدرنے علی گڑھ کی ایک بھری محفل میں یہ بات قبول کی کہ بورڈ کی مشاورتی میٹنگ میںفیصلہ یہی ہواتھاکہ اس کے لیے کوئی عوامی مہم نہیںچلائی جائے گی لیکن وہ چلائی گئی اورابھی بھی جاری ہے۔ کیوں؟کون معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں !!
مسلم پرسنل لاء بورڈاوردوسری مذہبی تنظیمیں’’شریعت خطرہ میں ہے ‘‘کی دہائی دے رہی ہیں،ہمیںبتایاجائے کہ شریعت کس طرح خطرہ میں آگئی ؟ہماری مذہبی قیادت مسلسل مغالطہ آمیز تاثر کیوںدے رہی ہے کہ حکومت اورعدلیہ اختیارِطلاق کا حق ان سے چھین لیناچاہتی ہے؟حالانکہ یہ صریحاًغلط ہے۔عدالت کا سارااعتراض صرف اورصرف طلاق ثلاثہ (یکبارگی )پرہے ۔ اورآرایس ایس کی حمایت یافتہ مسلم مہیلا آندولن نے بھی جودستخطی مہم چلائی تھی وہ بھی صرف اسی کے خلاف تھی۔آپ اس کواس طرح سے کیسے تعبیرکرسکتے ہیںکہ مسلمانوںسے حق ِطلاق چھیننے کی کوشش ہورہی ہے؟مداخلت فی الدین ہورہی ہے ؟اگرفقہ اسلامی کے دوسرے مکاتب فکرمثلاجعفری یااہل حدیث مکتب ِفکرکے نقطہ نظرکوسامنے رکھ کرعدالت کوئی فیصلہ دیتی ہے تویہ مداخلت فی الدین کس طرح ہوگئی ؟کیاجس فقہی مکتب فکرکی نمائندگی آپ کررہے ہیںبس اُسی پرشریعت کا اطلاق ہوگا؟کیا مکاتب ِفقہ کواللہ میاںنے نازل کیاہے جوآپ اس کے لیے دعوت مبارزت دینے نکل پڑے ہیں؟کیاہمارے بزرگوں کونہیں معلوم کہ جولڑائی کسی بودی اساس پر لڑی جارہی ہواس کا انجام کیاہوتاہے ؟جولوگ طلاقہ ثلاثہ (یکبارگی )کے خلاف ہیںان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ متعددمسلم ممالک میںاس کے اندرترمیم کرلی گئی ہے اورلطف یہ ہے کہ ان میںسے کئی ممالک وہ ہیں جوفقہ حنفی پر عمل پیراہیں،مثلاًپاکستان ،مصراورترکی وغیرہ ۔ترکی کے حنفی مفتی (مفتیٔ استنبول )نے بھی طلاق ثلاثہ کوکالعدم قراردے کرایک ماننے کا فتوی جاری کیاہے۔ موجودہ زمانہ کے سب سے بڑے حنفی عالم اورفقیہ شیخ یوسف القرضاوی کی بھی یہی رائے ہے۔ توآخر مسلم پرسنل لاء بورڈ اوردوسری مسلم تنظیموںکے اس رویہ کا کیاجوازہے ؟ممکن ہے کہ آپ ان دلیلوںسے مطمئن نہ ہوںتوآپ کواختیارتھااورہے گا بھی کہ عدالت میں اپناکیس رکھیںاورقانونی طورپر اس لڑائی کولڑیںمگراس کوگلی گلی اورمحلہ محلہ پہنچانے کا حق آپ کوکس نے دیاہے؟او راس سے صرف فریق مخالف سیاسی فائدہ اٹھائے گا۔
رواں مہینے کے شروع میں یعنی۳۔۴ ،اپریل 2017کوعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مرکزبرائے فروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہندکی طرف سے پہلاعالمی اسلامی مفاہمتی اجلاس ہوا ،اس اجلاس میںراقم بھی شریک ہواتھا۔اس میںجن امورپر غور وخوض کیاگیا ،وہ یوںتھے:۱۔مسلمان،اہل کتاب اورشبہ اہل کتاب :مستقبل کا منظرنامہ ۲۔ایک نئے علی گڑھ کی صورت گری :کیاایک دوسری علی گڑھ تحریک برپاکرنے کا وقت آگیاہے؟۳۔دینی مدارس میں سائنسی علوم کا مستقبل :ایک نئے قرطبہ ماڈل کا احیاء ۴۔ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء :ایک نئے لائحہ عمل کی تلاش ۔۔۔مؤخرالذکرسیشن سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبندکے ایک بزرگ فاضل مولاناکبیرالدین فوزان قاسمی نے اپنی یہ تحقیق پیش کی کہ نکاح وطلاق اصلاًتعبدی نہیںسماجی مسائل ہیں،اس لیے مسلمانوںکوطلاق ثلاثہ کے سلسلہ میں ایسامعقول موقف اپناناچاہیے جس سے برادران وطن میں ہماری غلط شبیہ نہ بنے ،عدالت اگریکبارگی تین طلاق پرپابندی لگاتی ہے تواس پر پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کے صدرمولانا اصغرعلی امام مہدی سلفی نے ملک کی موجودہ حکومت کی پالیسیوںکے پس منظرمیں مسلم عائلی مسائل کے تحفظ پر زوردیالیکن انہوںنے یہ بھی کہاتھاکہ اس کے لیے عوامی مہم چلانے سے اُلٹاتاثرجاتاہے ،اس لیے اس سے اجتناب کیاجاناچاہیے تھا۔ایڈیٹر’’ملی گزٹ ‘‘ڈاکٹرظفرالاسلام خاںنے بتایاکہ ہندوستان میں رائج مسلم پرسنل لاء دراصل انگریزوںکا نافذکردہ مسلم لاء ہے اوریہ مسلمانوںکی نااہلی ہے کہ وہ ابھی تک اپنے عائلی قوانین کا جامع مجموعہ مرتب کرکے اسے انگریزی میں Coded اندازمیں پیش نہیں کرسکے اورجوکوششیںکی بھی گئی ہیںوہ بہت ناقص ہیں۔ انہوںنے سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ کے ضمن میںمسلم پرسنل لابورڈ کے داخل کردہ حلف نامہ کوبھی نقائص سے پُربتایااورمسلمانوںکواپنے کیس کوغلط طورپر ہینڈلنگ کرنے کے نتائج ِبدسے بھی آگاہ کیا۔اسلامی فقہ اکیڈمی کے نمائندے مولاناامین عثمانی ندوی نے اس سیشن کی صدرات کرتے ہوئے مسلم پرسنل لاء اوراس کوپیش کردہ خطرات وچینلجوںکا ذکرکیا۔انہوںنے مفتیٔ استنبول کے ایک فتوے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ ترکی میں فقہ حنفی رائج ہے لیکن وہاںکے علما نے اس میں حالات کے مطابق ترمیم کی ہے اورطلاق ثلاثہ (یک بارگی )کوایک ہی طلاق کے حکم میں رکھاہے۔ تلخ حقیقت جس کا ہم اعتراف نہیں کررہے ہیںیہ ہے کہ مسلمانوںنے یکبارگی تین طلاق کے استعمال ،حلالہ کے رواج اوراس بارے میں علماکے بے مہارفتووںاوربیانوںسے جوتاثربرادران وطن کودیاہے وہ یہی ہے کہ طلاق عورتوںپر ظلم وزیادتی کا بڑاسبب ہے ۔میڈیانے اس تاثرکومزیدگہراکردیاہے ہمارے علماء،مذہبی تنظیموںاورپرسنل لاء بورڈ نے اس تاثرکے ازالہ کے لیے کچھ نہیں کیاجس کے نتیجہ میں مسلمان عورتیںاپنے معاملات سیکولرعدالتوںمیں لے جاتی ہیں۔
مذکورہ بالاامورکوذہن میں رکھتے ہوئے آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ کی دستحطی مہم ،اورچنددن قبل بورڈ کے اس فیصلہ پر کہ طلاق ثلاثہ یکبارگی دینے والے کا سماجی بائیکاٹ کیاجائے گا،یہ سوال اٹھنالازمی ہے کہ بائیکاٹ کی جوبات کہی جارہی ہے کیاوہ قابل عمل بھی ہے؟بائیکاٹ کون کرے گا؟اتنے بڑے ملک میں کون اس کا فیصلہ کرے گا؟عام طورپر کھاپ پنچایت،برادری کی پنچایت وغیرہ جہاںہوتی ہیںوہ اپنے درمیان بعض لوگوںکا سماجی بائکاٹ کردیتی ہیںاورمحدودعلاقہ ہونے کی وجہ سے وہ کامیاب ہوجاتاہے۔مسلم پرسنل لابورڈکوئی کھاپ پنچایت نہیںہے۔نہ وہ کسی برادری کی پنچایت ہے نہ اس کے پاس کوئی قوت نافذہ ہے توآخریہ بائیکاٹ کا فیصلہ کس بنیادپر لیاگیاہے ؟
بورڈ کی دستخطی مہم بھی سراسرردعمل کا شاخسانہ معلوم ہوتی ہے کہ آرایس ایس کی حمایت یافتہ مسلم مہیلاآندولن نے طلاق ثلاثہ کے خلاف دستخطی مہم چلائی تھی اوردعویٰ کیاتھاکہ 50ہزارخواتین کے دستخط انہوںنے اپنے موقف کی حمایت میں اکھٹاکئے ہیں،آپ نے اپنی طاقت کامظاہرہ کرنے کے لیے مجبورومقہورمسلمان خواتین کودہائی دی کہ دیکھو’’تمہارادین وایمان خطرہ میںہے، میدان میں نکل کرآجاؤ‘‘۔(جس فارم پرمسلمان خواتین سے دستخظ لیے گئے ہیںاس میں طلاق ثلاثہ ،حلالہ اورخلع جیسے کسی مسئلہ کا ذکرہی نہیں،بس ایک مبہم جملہ پر دستخط لے لیے گئے ہیں) اوریوںآپ نے جارحانہ مہم چلاکرپانچ کروڑ یااس سے بھی زیادہ دستخط اکھٹاکرلیے!!سوال یہ ہے کہ اس پوری کھکھیڑاُٹھانے کا فائدہ کیاہے؟اگرعدالت عالیہ نے آپ کے پریشرمیں آنے سے انکارکردیااورطلاق ثلاثہ کوکالعدم قراردے دیاجیساکہ بظاہرقرائن اسی کی طرف اشارہ کررہے ہیں،توآپ کیاکریںگے ؟ظاہرہے کہ شاہ بانوکی طرح کوئی جارحانہ مہم پھرچلے گی ،ملک میں موجودپولرائزیشن اورمضبوط ہوجائے گا اوربعدمیںاس کا خمیازہ بے چاری ملت کوبھگتناپڑے گا۔بابری مسجد بچاؤکی مہم چلانے والی مسلمان قیادت کیابابری مسجدکا انہدام روک پائی ؟اب آرایس ایس اوراس کے مسلمان گماشتوںنے بھی کھل کرمسلم پرسنل لاء بورڈ کوچیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیاہے ۔یوںآخری تجزیہ میں یہ ساری لڑائی مسلم پرسنل لاء بورڈ اورآرایس ایس کے مابین ہوتی نظرآرہی ہے جس کا سیاسی فائدہ بے جی پی اٹھائے گی ۔ دین وشریعت کومفت میںبیچ میںگھیسٹاجارہاہے !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ َ مضمون نگارمترجم ،مصنف اورماہنامہ افکارملی فی الوقت مرکزبرائے فروغِ تعلیم وثقافت مسلمانانِ ہندعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے بحیثیت ریسرچ ایسوسی ایٹ وابستہ ہیں۔