دکنی زبان میں ایک کہاوت بڑی مشہور ہےجب بھی کوئی بے کار بےمطلب دکھاوے کی جھوٹی فکر جتاتا ہے تو لوگ اُس کی شان میں یہی کہاوت کہتے ہیں ’’کی جی میاں دُبلے، دنیا کی فکر زیادہ‘‘ کچھ یہی حال ہمارے وزیراعظم مودی جی کا بھی ہے۔ کوئی وکاس سے متعلق سوال کرتا ہے تو جواب یہی ملتا ہے کہ فی الحال مسلم خواتین کی فکر زیادہ ہے۔ مودی جی کو نہ جانے مسلم خواتین سے کیوں اتنی ہمدردی ہے کہ ہندوستان کے تمام اہم مسائل نظرانداز کر خود کو صرف مسلم خواتین کا مسیحا بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ انہیں اگر کوئی فکر ہونی بھی چاہیے تو جشودہ بین کی ہونی چاہیے ۔دراصل جب سے یہ اقتدار میں آئے ہیں اُس دن سے لے کر انہوں نے صرف بھاشن دئے ، فارن ٹور کئے ، دعوؤں کی مالاجپی ، جب کہ ملک میں لوٹ کھسوٹ ، مہنگائی ، بے روزگاری ، افراتفری ، ہجومی تشدد، فرقہ واریت کا بول بالا ہو ۔انہی’’ اچھے دنوں‘‘ میںبے چارے کسان کے منہ کا نوالا چھین لیا گیا، ملک کی مالی حالت نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے فیصلوں سے خستہ ہوئی۔ ایسے میں یہ حقوق نسواں، آزادی ٔ نسواں کا راگ الاپتے ہوئے تین طلاق جیسے خالص مذہبی معاملے کو سیاسی مدعا بنانا بے وقت کی راگنی نہیں تو اور کیا ہے ؟ ہندوستان کے اصل مسائل کسانوں کی خودکشی ،نوجوانوں کی بےروزگاری ، معصوم بچیوں اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں اور جنسی استحصال کی حرکتیں اور موب لنچنگ۔ ایسے سنجیدہ مسائل کو نظرانداز کرکے صرف اور صرف مسلمانوں کی ذاتی زندگیوں میں تاک جھانک کرنا کسی بھی سربراہ حکومت کو زیب نہیں دیتا۔ اس پر ایک اور ظلم یہ کہ آنے والے دنوں میں ہر ہندوستانی کی نجی سرگرمیوں اور دلچسپیوں کی جاسوسی کرنے کے لئے ۲۰سمبر کو ’’آئی ٹی ایکٹ کے 2000 کے (1) 69 ‘‘کے تحت شہر یوں کے کمپیوٹر کی نگرانی سے متعلق 10 مرکزی ایجنسیوں کو چیکنگ کی اجازت دے دی گئی ہے۔ یہ اقدام ایک طرح سے شہریوں کی نجی آزادی چھین کر انہیں اپنا زرخرید غلام بنانے کا غیرجمہوری ہتھکنڈہ ہے۔
خیر جو وعدے مودی جی نے ملکی عوام سے کئے تھے، سب کے لئے اچھے دن آئیں گے ، پندرہ لاکھ روپے ہر شہری کے بنک اکاونٹ میں جمع کریں گے ، سرحد پر ایک سر کے بدلے دس سر لائیں گے، یہ سب زبانی جمع خرچ ثابت ہو ا۔ خاص کر بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کے تحت عورتوں کو خود مختار بنانا ،ان کےحقوق کا تحفظ کرنا تو کجا کھٹوعہ جموں آصفہ کے حال نے انسانیت کا سر جھکایا ۔ مودی جی کے یہ سارے دعوے محض جملے بازی بن کر رہ گئے اور بھاجپا سرکار کی کہی ہر بات اسی پر اُلٹی پڑگئی، نہ شبری مالا مندر کے معاملے میں ہندو بہنوں کے جذبات سمجھے گئے، نہ ہی بلات کاری ہوس کی شکار مظلوم عورتوں اور بچیوں کو انصاف ملا، نہ نجیب کی ماں کا درد ،اُن کی تڑپ کو سمجھا گیا، نہ اخلاق، پہلوخان اور جنید کے اہل خانہ کو انصاف دیا گیا، نہ ہی گائے کے نام پہ معصوموں کے قتل عمد کے بڑھتے سلسلے کی روک تھام کی گئی، ملک میں انسانیت کےمجرموں کے خلاف کوئی سخت قانون نافذ نہ کیا گیالیکن سچے حق گو نوجوانوں، صحافیوں کو دن دھاڑے قتل کردیا گیا، پر وفیسر کلبرگی اور گوری لنکیش کا سفاکانہ قتل ہمارے سامنے ہے۔ آج ملک میں دہشت گردی اور غنڈہ راج کا خوف اتنا بڑھ گیا ہے کہ قانون کے محافظ کہلانے والے جعلی انکاؤنٹر کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔موجودہ حالات میں سچ کہنا اور سچ سننا سب سے بڑا گناہ بن گیا ہے ، سنگھ پریوار جس رام راجیہ کی بات کیا کرتے تھے ، اس کی بجائے اب آج بھاجپا راؤنوں اور راکھشسوں کا راج چلارہی ہے ۔پانچ سال کی مدت میں ہندوستان میں طرح طرح کے جرائم جتنی تیزی سے بڑھ گئے ہیں، شاید ہی 2014 سے قبل اتنے دیکھے جارہے تھے ۔ اب اپنی ان ناکامیوں اور کہہ مکرنیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر بی جے پی سرکار بابری مسجد اور طلاق ثلاثہ کو 2019 کے انتخابات میں اہم مدعے کے طور اُچھال کر اپنے لئے ایک دھارمک ڈھال کے فراق میں ہے۔ اس کے لئے ملک میں امن وآشتی کا ماحول بگاڑ کر ایک طرف ہندوتوا کے نام پر لوگوں کا استحصال کیا جارہاہے ، دوسری طرف مسلم خواتین کو بھڑکا کر انہیں اپنا ووٹ بنک بنانے کی مسلسل ناکام کوشش کی جارہی ہیں، مگر پریوار مسلم بیزار ایجنڈے کی تکمیل میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو گا، کیونکہ ابھی ملک کی اکثریت اوراقلیتیں صحیح اور غلط میں تمیز کر نےکی پہچان رکھتی ہیں۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ حالیہ اسمبلی انتخابات میںپانچ ریاستوں نے بھاجپا نے منہ کی کھائی اور تین ریاستوں نے اسے تین طلاق دے دیں لیکن اتنا بڑا سبق ملنے کے باوجود پریوار عقل وہوش سے کام لینے سے کتراتاہے۔ لے دے کےاب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بابری مسجد اور تین طلاق سے یہ اپنے لئے سیاسی آکسیجن کشیدہ کر نے میں لگا ہے ۔ بابری مسجد کا معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے ۔اس بارے میں ابھی کچھ بھی حتمی طورکہنا قبل ا ز وقت ہوگا ۔ پل بھر کے لئے یہ مان کر چلیں کہ بھاجپا کو مسلم عورتوں سے سچ میں ہمدردی ہے، مگر پہلے اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے اُنہیں جشودہ بین اور بھاجپا کے کئی منتریوں کی بیویوں کے بارے میں سوچنا چاہئے جو سہاگن ہوکر بھی بیواؤں جیسی زندگی گزاررہی ہیں، انصاف کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ ان بے چاریوں گھر گرہستی کاحق دلایا جائے او جب کچھ اور وقت بچے تو ریڈ لائٹ علاقوں میں رہنے والی اُن بے آسراجسم فروش عورتوں کو اس جہنم سے نکالنا چاہیے تاکہ اُن کا مستقل بہترہو اورپُر وقار ہو ۔ مزید برآں ہماری کئی ایسی غیرمسلم بہنیں ہیں جنہیں آئے دن گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، جن کی زندگی اجیرن بنی ہیں، جنہیں جہیز کے نام پہ زندہ جلایا جارہا ہے، ایسی معصوم عورتوں کے تحفظ کے لئے قانون سخت سے سخت بنانا ضروری ہے۔
گودی الیکٹرانک میڈیا کے شور ش پسند اینکر وں کا شور وغوغا کر کے مسلم خواتین کو شریعت ا سلامی میں دئے گئے فخریہ رتبے پر مضحکہ خیز تبصرے کر نا،کسی بھی ایرے غیرے کو اسٹوڈیو میں بلاکر اسلامی شریعت میں دخل در معقولات کر نے کی اجازت دینا ، شرعی قوانین میںسنگھ پریوار کی منشا کے مطابق ردوبدل کر نے کی ناقابل برداشت تجویزیں دینا بھاجپا کا ایک زہر ناک سیاسی کھیل ہے جومسلم خواتین کو ناقابل قبول ہے ۔ ہم جانتی ہیں کہ اس کھیل کے پیچھے کتنے مذموم مقاصد کا رفرماہیں ۔ چنانچہ مسلم پر سنل لا بورڈ کی ہدایت پر مسلم خواتین کا سیلاب ہندوستان کی کئی ریاستوں میں تحفظ شریعت کے حق میں اُمڈ پڑا تھا ۔ سروں کےاس سیلاب نے واضح کیا تھا کہ اسلام کانظام طلاق و خلع میں کسی انسان کی دخل اندازی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا ۔ نیز مرکز کے مجوزہ قانون بابت سہ طلاق کے خلاف ہمارے وہ 5 کڑور دستخط بھی گواہی دیتے ہیں کہ ہم اسلامی قانون کے پابند ہیں اور ان دستخطوں سے ہمارا یہ دینی جذبہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہندتو وادی طلاق کو مدعا بناکر تمام مسلم اُمہ کو بدنام کر ر ہے ہیں ۔ دو چار لالچی عورتوں کے لئے پوری قوم مسلم کے ساتھ ناانصافی کیوں ہو؟پہلےطلاق آرڈیننس لاکر، پھر سہ طلاق بل پیش کرکے ہمارے پاکیزہ جذبات کو سیکولر ملک کی موجودہ فرقہ پرست سرکار بار بار حماقت آمیز ٹھیس پہنچارہی ہے ۔ یہ سرکار خالص اپنے سیاسی مفاد کے لئے اپنے بےتکے فیصلوں کو جبرا ًہم پر تھوپنا چاہتی ہے، حالانکہ ہندوستانی آئین ہمیں پوری پوری آزادی دیتا ہے کہ ہم اپنے شرعی قوانین کے مطابق اپنی زندگی گذاریں، بول چال، کھانے پینے، پہناوے سے لے کر ازدواجی زندگی تک سب چیزیں شریعت ، مسلم روجاات اور مذہبی روایات کے عین مطابق انجام دیں ۔ ایک سیکولر ملک میں سرکاری سطح پر متعصبانہ سوچ رکھنا اور آئین وقانون کی دھجیاں اڑانا ملک کے جمہوری وجود سے غداری ہی کہلائے گا ۔ ہندوستانی آئین کو ماننا اوراس پر من وعن عمل کرنا عوام سے لے کروزیراعظم تک کے لئے شرط اول ہے اور اگر کوئی اس کی مخالفت کرنے کی جرأت کرے تو بے شک وہ دیش کا غدار ہوگا بھلےوہ کوئی بھی بڑی سے بڑی ہستی ہو یا عوام آدمی ۔ ملک میں وزیراعظم کی مدت ِکارصرف پانچ سال تک محدودہے لیکن ملکی آئین ایک لافانی شئے سے جس پر ملک کا سارانطام منحصر ہے اورہندوستان کے سیکولرازم ،اس کی روح ، اس کی اصل پہچان آئین ہی ہے، جس کے بنا سیکولر اور جمہوری ملک کی تشکیل ناممکن العمل ہے ۔اس لئے مودی سرکار کو چاہیے کہ سہ طلاق بل جیسےغیر ضروری مدعوں پر وقت ضائع کر نےکی بجائے سچر کمیٹی کی سفارشات کے عین مطابق مسلم بچیوں کے لئے مفت اعلیٰ تعلیم کا بندوبست کروئے، ہر شعبے میں انہیں میرٹ کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرے اور ہر جاتی برادری سے وابستہ لڑکیوں کے مکمل تحفظ کے لئے غنڈوں موالیوں پر لگام کسے تاکہ ملک میں خواتین آزادی کی کھلی ہوا میں سانس لیتے ہوئے خود کو محفوظ محسوس کرسکیں ، کسی بھی مسلم طالبہ کو صرف حجاب کی وجہ سے امتحان دینے یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم نہ کرے جیسا کہ حال ہی میں کئی جگہ ایسی شرم ناک حرکتیں کی گئیں۔اگر مودی سرکار نے اس طرح کے حالات ملک میں نہ لائے تو وہ وقت دور نہیں جب ہندوستانی عوام مودی جی کو ہی تین طلاق دے کر ان سے چھٹکارا پانے کی سعی کر یں گے ، پھر نہ طلاق کا مدعا کام آئے گا نہ مسلم خواتین سے جھوٹی ہمدردی کا ڈھونگ کوئی رنگ لائے گا ۔غور طلب ہے کہ طلاق دئے بغیر بیوی کو یونہی پھینکنے کا مطلب ہےاُسے تاعمر حقیقی خوشیوں سے دور قیدیوں جیسی زندگی گذارنے پہ مجبور کرنا ہے ۔ کیا کسی عورت کا ایک جاہل، پاگل، عیاش ، احساس ِذمہ داری سے عاری مرد کے ساتھ زبردستی زندگی گذارنے سے بہتر ہے خلع یا طلاق لے کر بیوی اپنے نامراد شوہر سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی نئی زندگی کی شروعات کرے۔ اس لئے مظلوم بیوی کے حق میں شریعت میں طلاق وخلع زحمت نہیں بلکہ رحمت ہے، اور پھر جب ہندوستان کے قانون میں سیکولرازم کے نام پہ اڈلٹری ،ہم جنس پرستی ،لیو ان ریلیشن شپ جیسے ناجائز فعل کو جائز وحلال قرار دیا گیا تو طلاق جیسے شرعی قانون کو جرم کے زمرے میں پیش کرنا مردوں کے ساتھ ساتھ اُن خواتین پر بھی بہت بڑا ظلم ہے جو اپنی شادی شدہ زندگی سے پریشان، ناخوش ہیں، مجبوری کے رشتے میں جانوروں کی طرح بندھے ہوں۔ بہتر ہے ایک دوسرے کو آزاد کر کے دونوں نئی زندگی کی شروعات کر نے میں پابہ زنجیر نہ بنیں۔اگر باہم دگر جدا ہونے کا ایسا معقول اور مبنی بر انصاف انتظام قانون میں نہ ہو تو اس میاں بیوی کی زندگی کا انجام بے حد خوف ناک ہونا طے ہے۔ ہندوستان میں ناجائز رشتے پروان چڑھیں، خواتین ذہنی اذیت کا شکار بنیں ، مجبور ہوکر خودکشیاںکر جائیں، کیا اس نرگ سے بہتر یہ ہے کہ تنسیخ نکاح کر کے دونوں اپنی اپنی راہ لیں مگر ہاں یہ اقدام تمام مصالحانہ کوششوں میں ناکامی کے بعد بادل نخواستہ یا بہ کراہت قلب ہونا چاہیے۔ حال ہی میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق مسلمانوں سے کئی سوگنا زیادہ طلاقیں غیر مسلموں میں ہوتی ہیں، جہاں مردوں نے جانوروں کی طرح بیویوں کے گلے میں منگل سُوتر اور مانگ میں رسمی سندور تو لگادیا پھر چند روز بعد بنا طلاق دئے سڑنے کے لئے انہیں مائکے میں چھوڑ دیتے ہیں ۔ ان بے بس عورتوں کو منحوس کلٹا کہہ کر اپناسماج بھی دھتکارتا ہے اور یہ زیادہ تر گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ اس جہالت وحیوانیت کے برعکس ہمارا پیارا اسلام ایک عورت کے تحفظ، اُس کی عصمت اور بہترمستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اُسے دوسری شادی کی آزادی دے کر عزت کی زندگی گذارنے کی تلقین کرتا ہے۔اس لئے آج کی تاریخ میں اگر کسی کو ہمدردی کی ضرورت ہے تو وہ مسلم خواتین نہیں بلکہ ہندو بہنیں ہیں ۔ کاش اسلام کے قانونِ طلاق دیگر مذہب میں بھی طری طلاق ہوتا تو آج ہماری کئی غیر مسلم بہنیں عزت کی زندگی بسر کر رہی ہوتی ۔جہاں بیوی کو بلاوجہ طلاق دینے والا شوہر گناہ گار ہے ، وہاں طلاق دئے بغیر بیوی کو چھوڑنے والا شوہر اُس سے بھی بڑا گناہ گار ہے ۔ لہٰذا اگر سہ طلاق دینے والا شخص تین سال قید کی سزا کا حق دار ہے تو طلاق دئے بغیر صرف اپنے نام کا ٹھپہ اس پر لگاکر اسے چھوڑنے والا پتی اس سے بھی بڑی سزا کا حق دار ہونا چاہیے ۔اگر قانون کی نظر میں ہر ایک شہری مساوی درجے کاحامل ہے تو ہر اُس شخص کے لئے یکساں سزا برابرہونی چاہیے اور ہر گنا ہ گار سزا کا حق دار ہوتا ہے، تبھی جاکر صحیح معنوں میں انصاف ہوگا ۔اب کوئی یہ بھی فیصلہ کرے کہ جشودہ بین کے گناہ گار شوہر نامدار کو کون سی سزا ملنی چاہئیے ؟