سہ طلاق کو قابل سزا جرم بنانے میںمودی حکومت نے جو آرڈی ننس جاری کیا وہ صرف ہندوتو ووٹ بنک کو رجھانے کا ایک سیاسی moveہےلیکن اسے مسلم خواتین کے ساتھ ہمدردی کا نام دیا گیا ہے جوکہ محض ایک بے دلیل دعویٰ ہے ۔ یہ قانونی داؤ پیچ اور آئینی حقو سے چھیڑچھاڑ ملک میں بسنے والے تمام مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مسلمان تو مسلمان ہر وہ شخص جس کا ملکی آئین اور جمہوریت پر بھروسہ ہے ،جو ملک کو ترقی کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے، جوامن اور بھائی چارہ چاہتا ہے ، جو محب وطن ہونے کو اپنے ایمان کا حصہ مانتا ہے ،اس کی نظر میں یہ قانون ملک کے آئین و دستور کے ساتھ بھونڈا مذاق اور ایک غیر جمہوری اقدام ہے ۔ ایک طرف تو مرکزی حکومت عورتوں سے ہمدردی کا دعویٰ کرتی ہے، حقوق نسواں کی دہائی دیتی ہے ، وومنز ایمپاورمنٹ کی قسمیں کھاتی ہےاور دوسری طرف لاکھوں مسلم خواتین کے جذبات کو مجروح کرتے ہوئے اُن پر بہت بڑا ظلم اور ایتاچار کررہی ہے ۔ اس سے یہ بات صاف طور واضح ہوجاتی ہے کہ عورتوں کی بھلائی کو لے کر مودی جی نے جو بھی دعوے کئے تھے وہ سبھی کھوکھلے تھے ۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں اس احساس نہیں کہ صرف جملے بازیوں سے کسی کا کچھ بھلانہیں ہوتا، پھر بھی اگر بالفرض انہیں سچ میں مسلم خواتین سے ہمدردی ہوتی تو آج انہیں یہ آرڈیننس جاری کروانے کی کیا ضرورت پڑتی جب کہ انہوں نے سر کی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح ہندوستان بھر میں سہ طلاق کو قابل سزا جرم بنانے کی حکومتی تجویز کے خلاف باپردہ خواتین نے پرامن احتجاج کیا تھا۔اس کے باوجود مودی سرکار نے شریعت اسلامی میں دخل در معقولات کر کے وہ کام کیا جو بہرحال مسلم اقلیت کوناقابل قبول ہے۔ شریعت ناقابل تبدل ہے کیونکہ یہ کسی انسان کا قانون نہیں بلکہ یہ اللہ کا دیا ہو ا وہ اَٹل اصول ہے جس پر چلنے سے خود فرد اور معاشرے کی فلاح یابی مشروط ہے ۔ چو نکہ ہندوستان کے آئین نے تمام شہریوں کو برابری کے حقوق دئے ہیں، چاہے وہ مذہبی حقوق ہوں یا ذاتی آزادیاں ۔ ان آزادیوں کے احترام کی ایک جیتی جاگتی مثال یہ ہے کہ چند دن قبل ہم جنس پرستی جیسے قبیح فعل تک کو بعض مسخ شدہ فطرت رکھنے والے شہریوں کی مانگ کو پیش نظر رکھ کر عدالت عظمیٰ نے جائز قرار دیا۔ باوجودیکہ عدالتی فیصلہ فطرت اور سماجی شرافت و تہذیب کے خلاف ہے مگر آئینِ ہند میں دئے گئے شہریوں کے فنڈمنٹل رائٹس کاپالن کر تے ہوئے ایک microscopic ہم جنس پرست طبقہ کے لئے یہ غلط کام شخصی حق سمجھ کر قبول کیا گیا ۔ شریعت مسلمانوں کی زندگی کہ شہ رگ ہے ،اس میں نہ کوئی مسلمان نہ کوئی غیر مسلم ، نہ کوئی پارلیمنٹ نہ کوئی اقوا م متحدہ ردوبدل کر نے کا اختیار رکھتا ہے لیکن مودی حکومت نے پچیس کروڑ کے عقائد اور جذبات کو لتاڑ تے ہوئے یہ آرڈی ننس جاری کر کے خدائی قانون کو نہیں بلکہ آئین ِ ہند کی روح کو پامال کیا ۔ آرڈی ننس کی رُوسے جو کوئی شوہر اپنی بیوی کو سہ طلاق شرعی دے وہ تین سال تک جیل جائے گا۔ بالفاظ دیگر شوہر اور بیوی میں نبھاہ نہ ہورہاہو تو فطرت اور فہم وشعور کو نظر انداز کر کے انہیں قید وبند کے خوف سے جبراًایک دوسرے کے سا تھ ٹانک دو، بھلے ہی ان کی زندگیاں جہنم زار بنیں یا دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے سے گلوخلاصی پانے کے لئے کوئی انتہائی اقدام کر نے پر مجبور ہوجائے ۔ طلا ق ثلاثہ پر سہ سالہ جیل کی سزا مرد کے بیوی بچوں کے لئے کفالت کسی کے ذمہ ہوگی؟ جیل سے چھوٹنے کے بعد میاں بیوی کی اَن بن کس طرح دور ہوگی ؟ جیل سے کیا مرد کے دل میں بیوی کی نفرت پلے گی یا محبت ؟ اس بات کی کیا ضمانت کہ مابعد جیل ان کے درمیان ناچاقیاں کسی ناخوشگوار واقعہ پر منتج نہ ہو ؟ مختصر الفاظ میں یہ آرڈٰی ننس مرض کا علاج نہیں بلکہ اسے دوچند کر نے کا ایک دوہری چال ہے تاکہ متعلقہ مسلم گھرانوں میں پانی پت کی لڑائیاں ہوتی رہیں ۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ موجودہ سرکار حقوق نسواں کے نام پہ صرف اور صرف سیاست کر رہی ہے اور خواتین کو انصاف دلانے کو لے کر جو بڑی بڑی باتیں کی جارہی ہیں خاص کر طلاق، خلع، حلالہ کو لے کر ،وہ سب ڈھکوسلا ہے، اربا ِب ِ حکومت کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم مسلم خواتین کی محافظت کے لئے ہمارا اسلام کافی ہے ۔ ہمارے دین میں ایک عورت کو وہ تمام حقوق دئے گئے ہیں جس کی مثال دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ملتی ہے.۔زیادہ دور کیوں جائیں، دن رات ایک ساتھ زندگی گذار نے والے غیر مسلم برادران ِوطن کی سماجی اور گھریلو زندگی پر ہی ایک سرسری نظر ڈا لیں گےتو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس سماج میں زیادہ تر سسرال میں بیوی کو پیر کی جوتی بنا کر رکھا جاتا ہے ، سچ کہیں تو اس کی حیثیت پسماندہ طبقے سے بھی نچلی صف میں ہوتی ہے ،اس کو اپنا پتی ایک گوشت پوست والا عام انسان نہیں بلکہ دیوتا سمجھنا ہوتا ہے ، چاہے وہ جہیز کالالچی ہو ،بے وفا ہو ، شرابی کبابی ہو ، بیوی کے حقوق کا مخالف ہو ، اس کی مار پٹائی کر تاہو، اپنے بچوں کی جائز ضروریات کو پورا نہ کرنے کا عادی ہو ۔یہ بات ماضی اور حال سے ثابت ہوتی ہے کہ اس سماج کی بیواؤں کو خاوند کے مرنے کے بعد منحوس اور ڈائن جتا کر دنیاداری سے جڑی تمام رسم و رواج سے دور کردیا جاتا ہے ،یہاں تک کہ بعض جگہوں پران خواتین کے سرکے بال بھی مونڈ دئے جاتے ہیں۔ ماضیٔ بعید میں بیواؤں کو شوہروں کےساتھ ہی چتا پر زندہ جلا یا جاتا یعنی ستی کیا جاتا۔اس ظالمانہ اور وحشیانہ رسم کو مغل بادشاہوں نے غیر قانونی قرار دیا مگر1987اور2006 میں ستی کے دوبدنام زماں واقعات کو انسانیت کا سر شرم سے جھکادیا ۔ پہلا واقعہ راجستھان دیوریلا میں وقوع پذیر ہو جہاں اٹھارہ سالہ روپ کنور کواپنے پتی کی چتا پر اس کے سسر اور دیور نے جبراً ستی کر دیا اور انہیںنو سال بعد جیل سے بّری کیا گیا۔ ستی کادوسراواقعہ وسطی مدھیہ پردیش کے تُسلی پر گاؤں میں پیش آیا جہاں پانسٹھ سالہ( ایک رپورٹ کے مطابق چالیس سالہ ) جنک رانی نامی بیوہ نے اپنے پتی کی چتا پر خود کو ستی کیا۔ اس کے برعکس اسلام نے خاوند کے گذر جانے کے بعد بھی عورت کو دوبارہ اپنی ازدواجی زندگی عدت گزرنے کے ساتھ ہی شروع کرنے کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ مردوزَن کے لئے بلا عذر شرعی تجرد کی زندگی کو ناپسند کیا ہے ۔ یہی معاملہ طلاق شدہ عورت کا بھی ہے کہ اسے چاہے کہ ایک ظالم وجاہل مرد سے علیحدگی اختیار کر نے کے بعد اپنی شادی شدہ زندگی نئے سرے سے شروع کر ے۔اسلام کی ان بے مثال نورانی تعلیمات کے نمونوں سے دنیا کے دیگر تمام مذاہب وعقائد لگ بھگ خالی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ دیگر دھرموں کے لوگ ان ممانعتوں سے کہیں چوری چھپے اور کہیں اعلانیہ بغاوتیں کر تے رہتے ہیں ۔
ہمارے پردھان منتری مودی جی ہمیشہ رام راجیہ کی بات کرتے ہیں،مگر خود ان کی شریک ِحیات جشودہ بہن کی زندگی آج بھی معلق ہے ۔ نہ وہ خود کو شادی شدہ کہہ سکتی ہیں نہ مطلقہ ۔ اول خویش بعد درویش کے مطابق دوسروں کے جورو کو حقوق دلوانے سے قبل انہیں انصاف اور ادھیکار دیا جانا چاہیے ۔ بھارت کی مہیلاؤں کو کیا خاک انصاف ملے گا جہاں ہندو عورتوں کو آج بھی مبینہ طور ستی پرتھا کی رسم کے چلتے بہت کم ہی سہی مگربیواؤں کو زندہ جلایا جارہا ہے ۔ سماجی بندشوں کا یہ حال ہے کہ ایسی کوتاہ نصیب عورتوں کو موزوں لباس پہننے کی بھی اجازت نہیں ہوتی، دیوداسیوں کا نام دے کر ان کا جنسی استحصال کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بے چاری دلت عورتیں روز برہمنوں کی بربریت کا شکار ہورہی ہیں۔ اسی طرح کے دیگر جان لیوا مسائل اور مصائب غیر مسلم سماج میں عورتوں کو درپیش ہیں جنہیں ایڈریس کر نے کی بجائےمودی سرکار ہماری شریعت پر انگلی اٹھانے کی بے جا جسارت کر رہی ہے ۔ یہ بھی ذرا دیکھیں کہ آج طلاق ثلاثہ پر فضول ہنگامہ کیا جارہا ہےاور انصاف کی واضح تلقین کے ساتھ مسلم مردوں کی چار شادیوں پر اعتراضات کئے جار ہے لیکن مہابھارت کھول کر دیکھئے تو پتہ چلے گاکہ دروپدی کی شادی بیک وقت پانچ مرووں سے کردی گئی تھی۔ کیا وہ ظلم اور اتیا چارنہیں تھا؟مختصر یہ کہ مسلم خواتین کی زیادہ فکر نہ کریں بلکہ ملک کے جو اہم معاشی اور اقتصادی مسائل ہیں ان پہ فوری توجہ دیں تاکہ ہمارا محبوب وطن ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔رہی بات مسلم خواتین کی تو الحمدللہ اول تو وہ خود بیدار وہوشیار ہیں ، دوم ہمارے اکابر علماء موجود ہیں جن کی رہنمائی میںہم تا قیامت اپنے شرعی احکامات پرزندگی بسر کریں گے، اور کبھی کوئی مسئلہ پیش آیا تو ہمیں اپنے اکابر علماء پہ پورا یقین ہے کہ وہ ہمارے شرعی مسائل کا حل قرآن و سنت کی روشنی میںلازماً دیں گے۔ بے شک تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں ہماری صفوں میں انگلیوں گنے جانے کے قابل ایسے کچھ مسلم مردو خواتین گذرے ہیں جنہوں نے اپنے حقیر ذاتی مفادات کی خاطر اپنا ضمیر بیچ کھایا ، دینی احکا مات سے غداریاں کیں ہے، یہ لوگ چاہے جو بھی ہوں دونوں جہاں میں ذلیل و خوار ہوں گے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہر ایک دین دار، تعلیم یافتہ اور شریعت سے باخبر مسلم جوڑا اچھی طرح جانتا ہے کہ اسلام نے مرداورعورت کو پہلے ہی بجا طور اپنے اپنے دائرے میں ایمپاور کیا ہواہے ، لہٰذا اُنہیں غیروں کی تقلید کی کوئی حاجت ہی نہیں ۔ رہے الٹی کھوپڑیوں والے بے توقیر جوڑے جو جان بوجھ کر اپنی ازدواجی زندگی میں حماقتیں کرکے اسے برباد کریں ، بیشک ان کی زندگیاں اور عزتیں دونوں جہانوں میں پامال ہوں گی، اِلا کہ وہ فوراً تائب ہوجائیں۔ یاد رکھئے ان کی آپسی لڑائی جھگڑوں کی سب سے بڑی وجہ ہمیشہ ان کی لاعلمی اور جہالت ہوتی ہے ، یہ دین سے دور ہوتے ہیں، اسلام کے احکامات سے بےخبر اور شریعت سے پوری طرح ناواقف ہوتے ہیں ، اس وجہ سے انہیں اندازہ نہیں کہ اصل ناری شکتی اسلام میں ہے۔ بہر حال مسلم پرسنل لا میں سیندھ لگانے کے لئے آرڈی ننس کا جو اجراہوا اس پر مسلمانان ِ ہند ہی نہیں بلکہ تمام جمہوریت پسند قوتیں مرکزی حکومت کے خلاف چراغ پا ہیں اور چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف سنگھ پریوار کا ایجنڈا ترک کر کے گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیا جائے اور دستورکی عطاشدہ آزادیوں سے مسلم کمیونٹی کو کسی حال میں بھی محروم نہ کیا جائے ۔ان گھمبیر حالات سے بہتر طریقے سے نپٹنے کے لئے مسلمانوکو چاہئے کہ ڈگری کالج جو مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کو مارل ایجوکیشن یعنی دینیات سے بہرہ ور کیا جائے ، انہیں باشعور شہری ا ور ذمہ دار ہندوستانی بنانے کے لئے علم وآگہی اور اخلاقی تربیت سے لیس کیا جائے ، انہیں نجی اور خانگی زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کیا جائے ، انہیں قبل ازوقت ورز مرہ زندگی کے لئے درکار شرعی احکامات ، ازدواجی زندگی کے حقوق (شوہر کے حقوق بیوی پر اور بیوی کے حقوق شوہر ) کے تعلق سے باخبر کیا جائے اورانہیں پختہ ذہنی تربیت دے کر ا سے قابل بنایا جائے کہ وہ دین اور دنیا کے مطالبات پر حق وانصاف پر عمل درآمد کریں ۔ یہ سب ہو اتو نہ صرف انشاءاللہ ہمارامستقل روشن ہوگا بلکہ سہ طلاق کا آرڈی ننسں ایک ایسا کاغذ ی گھوڑاثابت ہوگا جس کا ہماری دنیوی زندگی کے فیصلوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔