میری بات
ڈاکٹر رافیعہ محی الدین
سہیل سالم جموں وکشمیر کا ایک نمایاں نام ہے،جنہوں نے اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی شاعری، نثر نگاری اور تنقیدی کام نے اردو ادب کو نئی جہتیں دی ہیں۔ سہیل سالم کا اصل نام سہیل عزیز تانترے ہے اور سالم ان کا تخلص ۔ ادبی حلقوں میں سہیل سالم کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق سرینگر کے ریناواری علاقے سے ہیں۔ سہیل سالم نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ایک نظم’’بوڑھی ماں ‘‘ کے عنوان سےکیا ہے ۔ان کی شاعری میں ایک الگ ہی رنگ اور انداز ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری کا ایک خاصہ یہ ہے کہ وہ پیچیدہ موضوعات کو بھی آسان اور عام فہم انداز میں پیش کرتے ہیں۔ سہیل سالم کا پہلا افسانہ ’’ریزہ ریزہ خواب ‘‘ کے عنوان سے اخبار ‘کشمیر عظمیٰ میں 2016ء میں شائع ہوا ہے۔ ان کے افسانے مختلف موضوعات پر مبنی ہوتے ہیں۔ وہ ایک اچھا افسانہ نگار ہے جو اپنی انفرادیت اور فنی صلاحیتوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ سماجی مسائل کو براہ راست بیان نہیں کرتا ہے بلکہ علامتی انداز میں پیش کرکے قارئین کے ذہن پر دیرپا تاثر چھوڑجاتا ہے،جس کی مثال ہمیں ان کے ایک افسانے ’’گمشدہ ماضی کاحال ‘‘ میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ افسانے سے لئے گئے چند سطور :
’’آس پاس کی کہانیوں کو جمع کر کے اس نے ان تمام کہانیوں کونذر آتش کردیا۔اب جو کہانیاں دم توڑ چکی تھیں،انھیں آہستہ آہستہ دفن کیا جا رہا تھا۔کچھ زخمی کہانیاں بکھری پڑی تھیں۔ان زخمی کہانیوں کو نمائش گاہ میں رکھنے کی جب تجویز پیش کی گئی توکچھ عرصہ کے بعد ہی وقت کے دیوتاؤں نے ایک نمائش گاہ کی بنیاد ڈالی جس میں صرف زخمی کہانیوں کی نمائش ہوتی تھی‘‘۔ اس افسانے کا موضوع خود شناسی اور اپنی کہانی کی تلاش ہے۔ کردار اپنی کہانی کو ڈھونڈنے کے لئے نمائش گاہ میں جاتا ہے اور آخر کار اپنی اصل کہانی کا پتہ لگاتا ہے۔افسانے میں کئی علامتیں ہیں جو گہرے معنی رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر، ’’زخمی کہانیاں‘‘ ہمارے ماضی کے تجربات اور زخموں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ’’نمائش گاہ‘‘ ہمارے ذہن اور زندگی کی نمائندگی کر تی ہے جہاں ہم اپنی کہانیاں پیش کرتے ہیں۔
کہانی میں علامتیں، استعارات اور کنایوں کا استعمال اس کی خوبصورتی کو بڑھاتا ہے۔افسانے کا اختتام کردار کے اپنی کہانی کے انتخاب پر ہوتا ہے، جو کہ ’’گم شدہ ماضی کا حال‘‘ ہے۔ یہ اختتام کہانی کے مرکزی موضوع کو تقویت دیتا ہے کہ ہماری کہانی ہمارے ماضی کے تجربات اور زخموں سے بنی ہوتی ہے۔
سہیل سالم نہ صرف ایک شاعر اور افسانہ نگار ہے بلکہ حال ہی میں ان کا ایک ناول ’’ابن مریم کی واپسی ‘‘ کے عنوان سے بھی منظر عام پر آیا ہے۔ان کی نثری تحریریں موضوع کی اعتبار سے اہم ہیں اور ان کے انداز تحریر نے قارئین کے دلوں میں خاص مقام بنایا ہے۔ ان کی نثر میں ایک سادگی اور روانی ہے جو قارئین کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
سہیل سالم کی تنقیدی خدمات بھی قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے اردو ادب کی تنقید میں نئے معیارات متعارف کروائے ہیں۔ ان کی تنقید میں ایک توازن اور انصاف پسندی نظر آتی ہے جو ان کے کام کو ممتاز کرتی ہے۔ ایک نقاد اور مبصر کے نام سے بھی ادبی حلقوں میں ان کی خاص پہچان ہیں ۔
سہیل سالم کی تصانیف میں ’’حرف شیرین‘‘،’’تبسم ضیاء کے افسانے‘‘،’’جموں وکشمیر کی خواتین افسانہ نگار‘‘،’’سوزِ عمر‘‘،’’نقش نوشاد‘‘اور ایک ناول’’ابن مریم کی واپسی ‘‘شامل ہیں۔
سہیل سالم کی ادبی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے نوجوان مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لئے بھی بہت کام کیا ہے ۔جس کی مثال ہمیں ان کے شائع کردہ ’’کوہ ماراں‘‘ نامی سہ ماہی رسالہ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس رسالے میں بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ ساتھ نئی نسل کی تحریریں بھی شائع ہوتی رہتی ہے۔
’’کوہ ماراں ‘‘ کے اب تک 14شمارے شائع ہوچکے ہیں ۔
سہیل سالم ایک اچھے مضمون نویس بھی ہے۔ ان کے مضامین میں موضوعاتی گہرائی اور تحریر کی روانی ہوتی ہے۔ وہ اپنے مضامین میں مختلف موضوعات پر گہرائی سے بحث کرتے ہیں اور نئے خیالات اور سوچ کو فروغ دیں کر قارئین کو غور و فکر کی دعوت بھی دیتا ہے۔سہیل سالم کے مضامین کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ انہیں سادہ اور عام فہم زبان میں لکھتے ہیں۔ ان کی تحریر میں ایک خاص قسم کی روانی اور شوخی ہوتی ہے جو قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ سہیل سالم کو کئی انعامات اور اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔جن میں فرید پربتی میموریل ایوارڈ، عمر مجید یوا پرسکار، نگینہ انٹرنیشنل ایوارڈرشید فراش ایوارڈ اور رابندر ناتھ ٹیگور انعام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
   الغرض سہیل سالم کی شخصیت اور کام نے اردو ادب کو ایک نئی جہت دی ہے۔ ان کی محنت، لگن اور اردو زبان و ادب سے بے لوث محبت نے انہیں اردو ادب کی دنیا میں ایک ممتاز مقام دلایا ہے۔ امید ہے ان کی خدمات اردو ادب کی دنیا میں آئندہ بھی روشن ستارے کی مانند رہیں گی۔
 
								 
			 
		 
		 
		 
		 
		 
		 
		