ہمارے سماج میں بعض گھرانے ایسے ہیں کہ جن میں خواہ مخواہ کے گھریلو جھگڑے اور فضول باتوں پر لڑائیاں روزہ مرہ کہانی ہو تی ہے ۔ اس خانگی جنگ کے مرکزی کردار ساس سسر ، دیور ننداوربہو بیٹا ہوتے ہیں جو بلا سوچے سمجھے ایک دوسرے کے خلاف سردو گرم جنگ چھیڑ کر اپنی زندگیاں اجیرن کر کے رکھتے ہیں ۔ کہیں ساس بد خوئی پرا ُترآتی ہے اور کہیں بہو ساس کی تذلیل کو اپنی فتح سمجھتی ہے، کہیں شوہر اپنی بیوی کے لئے ظالم بنتا ہے اور اپنے والدین کی غلطی کی طرف داری کرتا ہے اور کہیں بیٹا خود جورو کاغلام ہوکر والدین کی ناک میں دم کر کے رکھتا ہے ۔اسی طرح گھر کی بہو کے خلاف بسااوقات دیوار ، دیورانی ، نند وغیرہ بھی کہیں مثبت اور کہیں منفی کردار ادا کر کے اس جنگ میں الجھ جاتی ہیں ۔ اس گھر گھر کہانی کی بابت کچھ ساہ سی باتیں عرض کرنے کی جسارت کروں گی،
ہمارے یہاں عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ شادی کے بعد لڑکی کے ذمے اپنے والدین کی خدمت کے حوالے سے شریعت کی طرف سے عائد کردہ حقوق ساقط ہو جاتے ہیں ۔اب وہ جس گھر کی بہو ہے وہاں کے والدین کو اپنے والدین کا درجہ دے ،اُن کی اسی طرح خدمت کرے، اس کا شوہر بھی اس سے یہی تقاضا کرتا ہے اور معاشرہ بھی۔ اور تو اور والدین بھی اسے یہی تلقین و نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ اب ہمارا حقوق و فرائض والا رشتہ تمام ہوا خوشی خوشی مہمان کی حیثیت سے آؤاور رخصت ہو۔جہاں تک شوہر کے والدین کی خدمت کا تعلق ہے براہِ راست یہ فرض بہو پر عائد نہیں ہوتا لیکن چونکہ اللہ نے اس پر شوہر کی اطاعت فرض کر دی ہے، لہٰذا اگر شوہر اُسے ا پنے والدین کی معقول وجائز اور بے لوث خدمت کا حکم دے تو یہ خدمت اس پر فرض ہو جاتی ہے۔
دوسری طرف اگر ہم والدین کی خدمت کے حوالے سے اسلام کے احکام کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شریعت نے والدین کی خدمت میں بیٹے اور بیٹی کی کوئی تخصیص نہیں رکھی یا کوئی ایسا دینی حکم شریعت میں موجودہے ہی نہیں کہ شادی شدہ بیٹی کے اوپر سے والدین کی خدمت ساقط ہو جاتی ہے۔جیسا یہ فرض بیٹے پر عائد ہے ویسا ہی بیٹی پر بھی خواہ وہ شادی شدہ ہو ۔یہ اور بات ہے کہ بیٹی اور بیٹے کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے۔بیٹے کے پاس اس سعادت کو حاصل کرنے کے مواقع بیٹی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ بیٹی شادی کے بعد اپنے شوہر کی اور اپنے گھریلو حالات کی پابند ہوتی ہے۔یہی عرف ہے اور شریعت میں اس کا لحاظ رکھا گیا ہےلیکن دوسری طرف یہ بات شوہر کے سوچنے والی ہے کہ میری بیوی میرے والدین کی خدمت میرے حکم کی اطاعت میں انجام دے رہی ہے ۔اصلاً اپنے والدین کی خدمت شوہر کی ذمہ داری پر ہے لیکن بیوی اس کی اطاعت میں دراصل اس کے فرائض کی نیابت کر رہی ہے تو اللہ کی طرف سے میری بیوی پر اس کے اپنے والدین کی خدمت کی جو ذمہ داری عائد ہے، اُس کی ادائیگی کے لیے میں اس کو سازگار حالات مہیا کروں۔اس کو موقع فراہم کروں کہ وہ بھی اپنے والدین کی خدمت اور دل جوئی کرسکے۔اب یہ خدمت اور دل جوئی ہر عورت اپنے اپنے حالات کے مطابق کرے گی ۔اگرتو وہ دوسرے ملک یا شہر میں رہتی ہے تو اس کے لیے روز روز آنا ظاہر سی بات ہے ممکن نہیں ہو گا تووہ کم ازکم اپنے والدین کو فون تو کر سکتی ہے۔اگر وہ ضرورت مندہیں تو اُن کی مالی مدد کر سکتی ہے ۔اپنے گھر بیٹھ کر ان کے کپڑے سی کر ان کو بھیج سکتی ہے ۔اُن کی دوائیاں خرید سکتی ہے۔مختصراً یہ کہ اپنے گھریلو حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی گھر کی بیٹی اور کسی گھر کی بہو نے اپنی یہ ذمہ داری کیسے ادا کرنی ہے، یہ اُسے نے خود سوچنا ہے اور اس کے لیے ساز گار حالات مہیا کرنا شوہرکی ذمہ داری ہے۔
والدین کی خدمت کے حوالے سے کچھ بیٹیاں شادی کے بعد خود بھی غافل سی ہو جاتی ہیں۔اپنے معاشرے کی عمومی سوچ کے زیراثر ان کا خیال ہوتا ہے کہ یہ بیٹوں کی ذمہ داری ہے ۔وہ اپنے والدین کے گھر سسرال کی تھکاوٹ اُتارنے آتی ہیں اور بعض بیٹیاں میکہ جاتی ہی اس لئے ہیں کہ وہاں اپنے سسرالیوں کی غیبتیں اور عیب چینی کر یں ،اپنے لیے خصوصی مہمانوں والا پروٹوکول کا بندوبست کرائیں،اپنے حقیقی مسائل یا فرضی مصائب سنانے کے لیے انہیں ماں کی صورت ایک بہترین سامع چاہیے ہوتا ہے، حالانکہ اگر وہ اس سوچ سے میکے آئیں کہ مجھے اپنے والدین کی خدمت کا موقع مل رہا ہے ،میں اس کو ضائع نہ کروں تو وہ اپنی ذمہ داری انہیں اپنا دُکھڑا سنائے بغیر احسن طریقے پرادا کر سکتی ہیں۔والدین کے ہفتے بھر کے کپڑے استری کر کے رکھ دیں ،جو کھانے فریز ہو سکتے ہیں مثلا کباب وغیرہ وہ بنا کر فریز کر دیں۔ان کے پاؤں دبا دیں ۔عام طور پر اگر بھابھی والدین کے کام کر تی ہے تو کچھ ذمہ داری خود بھی اُٹھالیں۔یادرکھیں ! والدین کی خدمت ایک سعادت ہے جس کو میسر آ گئی وہ خوش قسمت ہے۔
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ والدین کو عموماً بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں سے زیادہ جذباتی وابستگی محسوس ہوتی ہے،تو بیٹیوں کو اپنے گھریلو حالات کو مد نظر رکھتے ہوئےاس حوالے سے اپنی ذمہ داری یاد رکھنا چاہیے۔ حکم خداوندی ہے :اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا (23)اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے (24)سورہ الاسراء