درختوں کی گھنی چھائوںمیں بیٹھ کر وہ سوچتی رہتی۔ ’’کیا میں کبھی دلہن بن پائوں گی؟کیا کوئی خوبرولڑکا میرا رفیق حیات بنے گا؟‘‘
یہ سوا ل آسیہ کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔وہ ہر وقت خدشوں کی ان کالی گھٹائوں سے یہ کہہ کر اُبھرنے کی کوشش کرتی کہ ۔۔
’’ابو تو کہتے ہیں کہ میں گلاب جیسی ہوں۔گو میں بہت خوب صورت ہوں۔خوب صورتی انمول ہوتی ہے۔ پھر بھلا میں کیوں نہ سیج پر چڑھوں گی؟‘‘
آسیہ ہر وقت اپنے دل کو تسلی دیتی رہتی مگر ۔۔۔جوں ہی وہ اپنے جسم پر نظریںدوڑاتی تو کچھ دیر کے لئے یہ کہہ کرسکتے میں آجاتی۔
’’میں تو اپاہج ہوں ۔مجھ سے کون شادی کرے گا۔‘‘
اور آنکھوں سے آنسوں ٹپکنے لگتے۔ پھر اپنے ابو کی نصیحت آمیز باتیں یاد کرکرکے آنسوں پونچھ لیتی۔ آسیہ بھلی چنگی لڑکی تھی۔ ہر وقت مسکراتی رہتی اور سبھوں کو ہنساتی رہتی مگر۔۔۔۔۔۔۔ وہ سیاہ دن ۔اس کی ز ندگی کا وہ سیاہ دن جب اس کے دماغ کے کینوس پرابھر کر آتا تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے۔ اس روز وہ سج دھج کے گھر سے نکلی تھی۔امّی کو دو چار بوسے دئیے۔چھوٹی بہن سے بار بار بغل گیر ہوتی رہی، اُبو کومڑُمڑ ُدیکھ کر کہتی۔
’’ خدا حافظ اُبو۔اپنا خیال رکھنا۔کھانا وقت پر کھانا ۔ ‘‘آسیہ ہنستے کھکھلاتے ہوئے اپنی دھن میں مست گھر سے نکلی تھی۔ بس اسٹاپ پر کچھ دیر کے لئے انتظار کرتی رہی ۔بھیڑ زیادہ تھی اور دھکم پیل میں بمشکل بس میں چڑھی اور کچھ ہی دیر میں کالج پہنچ گئی۔وہ مین گیٹ سے اندر داخل ہونے ہی والی تھی کہ ایک ہینڈ گرینیڈ اس کے بالکل قریب گر کر پھٹا۔آگ کی لپٹیں کئی گز دور تک فضا میں اٹھیں اور اس کی لپیٹ میں آنے والی ہر چیز جل کر بھسم ہوگئی۔ آسیہ کی ٹانگوں میں بارود کے چھرے لگے۔ وہ زمین پر گر پڑی اور اسکے بدن سے خون بہنے لگا۔چاروں طرف بھگدڑ مچ گئی۔ایسا شور وغل بلند ہوا جیسے قیامت بپا ہوئی ہو۔آسیہ سڑک پر گر کر تڑپنے لگی۔ کچھ لوگ سہمے سہمے اس کے ارد گرد جمع ہوگئے اور خون میں لت پت پڑی آسیہ کو اسپتال پہنچا دیاجہاں اس کا ایمرجنسی آپریشن ہوا، جس میں وہ اپنی دونوں ٹانگیں گنوا بیٹھی۔آسیہ ہمیشہ کے لئے اپاہچ بن گئی اور ۔۔۔۔۔۔۔اور ایک خوب صورت جوا ں سال لڑکی بگڑتے حالات کے تھپیڑوں سے بیساکھیوں کی محتاج ہوگئی۔ اس حادثے کے بعد وہ بکھر سی گئی ‘ٹوٹ سی گئی۔اس کے ماں باپ اس کی حالت دیکھ کر پل پل مر رہے تھے۔ والد مبشر صاحب اس حادثے کے بعد ہر وقت اپنی بیٹی کے گردوپیش ہی رہنے لگے۔ وہ اس کو جب کبھی اکیلا دیکھتے توبنا وقت گنوائے اس کے پاس چلے آتے اور اس کودلاسہ دیتے رہتے۔ اس کے چہرے پر مسکان لانے کی کوشش کرتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وقت رہتے اس کے دل کے زخم بھر جائیں گے اور دھیرے دھیرے زندگی معمول کی طرح جینے لگے گی۔ مبشر صاحب کادلاسے سے ہی اس میں زندگی جینے کی امید جگی۔ اب اس حادثے کو گزرے ہوئے کئی برس ہوگئے تھے۔ آسیہ اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔ وہ روزآنگن میں بیٹھتی اور اپنے بیاہ کے بارے میں سوچتی رہتی۔وہ خدشوں اور وسوسوں کے بھنور سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی۔وہ سوچتی۔
’’میں اکیلی ان حالات کا شکار نہیں ہوں ۔مجھ جیسی سینکڑوں لڑکیاں اس کی بھینٹ چڑھی ہیں۔کوئی بھری جوانی میں بیوہ ہوچکی ہے۔ کسی کا مرد لاپتہ ہے۔ کسی کا بیٹا سلاخوں کے پیچھے جیل میں سڑ رہا ہے۔ایسی حالت میں ہر ایک کو سہارے کی ضرورت ہے۔کسی نہ کسی کو پہل کرنی ہوگی۔‘‘
آسیہ اپنے ابو سے جب محوگفتگو ہوتی تو بڑی دانائی کی باتیں کرتی رہتی۔ایسا لگتا جیسے وہ سارے سماج کی واحد خیر خواہ ہو۔کہتی۔
’’ابو فریدہ آنٹی کے چار بچے ہیں ۔ میاں کو زمین نگل گئی ۔گھر میں کوئی کمائو نہیں۔وہ کیسے گھر گرہستی چلاتی ہوگی۔‘‘
مبشر صاحب سمجھاتے ہوئے اس سے کہتے۔’’بیٹی رزق دینے والا تو اللہ ہے وہ کسی کو بھوکا نہیں سلاتااور ہاں ہمارے مذہب میںزکوٰۃ سسٹم رائج ہے جس کی رو سے ہر غریب‘محتاج کی مدد کی جاتی ہے۔‘‘
’’ابو یہ کہنے کی باتیں ہیں۔ جمیلہ آنٹی کو دیکھو جب سے اس کا میاں گم ہوگیا ہے، کیسے گھر گھر جاکر برتن صاف کرکے چار پیسے کما لیتی ہے۔ اگر لوگ زکوت دیتے تویہ نوبت نہ آجاتی۔‘‘
کچھ توقف کے بعد پھر کہتی ہے۔ ’’ابو سارہ آنٹی کا بیٹا جب سے پکڑا گیا ہے کیسے در در کی ٹھوکریں کھاتی رہی ہے۔ اکیلے ہی بیٹے کی تلاش میں ایک پولیس اسٹیشن سے نکل کر دوسرے میں چلی جاتی ہے۔ کوئی اس کی مدد کے لئے آگے آیا۔ ابھی تک بیٹے سے ملا قات بھی نصیب نہیں ہوئی ہے۔ یہ بھی خبر نہیںکہ اس کا بیٹا کس جیل میں بند ہے۔ میاں تو چلے تھے قوم کی نائو کنارے لگانے۔‘‘
مبشر صاحب بیٹی کی باتیں سن کرمن ہی من سوچتے۔’’یہ ہمارے سماج کا حقیقی روپ ہے رشتوںکا خون سفید پڑ گیا ہے۔ سماجی اقدار کا جنازہ نکل رہا ہے۔ دینے والے ہاتھ سُن ہوگئے ہیںپھر عتاب کی شکار ان انگنت بہو بیٹیوں کی فکر کون کرے گا۔‘‘
پھربیٹی کی توجہ ان باتوں سے ہٹاتے ہوئے اس سے کہتے۔’’تمہاری چھوٹی بہن ناز نینؔ اس سال امتحان میں اوّل آنی چائیے۔‘‘
وہ فوراًجواب میں کہتی۔’’کیوں نہیں ۔وہ دن رات محنت جوکرتی ہے۔انشاء اللہ ضرور اوّل آئے گی۔آپ فکر نا کریں۔‘‘
مبشر صاحب کو ہر وقت اپنی بیٹی کی فکر کھائے جارہی تھی۔وہ سوچتے۔’’ موت اور گاہک کا کوئی اعتبار نہیں۔یہ کب آئیں ۔کوئی خبر نہیں۔ہمارے بعد کون بیٹی کا سہارا بنے گا۔ناز نین ؔتو سسرال چلی جائے گی۔‘‘پھر سر پکڑکر بیٹھ جاتے اور اندر ہی اندر خون کے آنسوں روتے۔دست بدعا ہوکراللہ سے التجا کرتے۔
’’ خدایا میری بیٹی کی زندگی سنوار دے۔کوئی تو سہارا ہو۔‘‘
کچھ وقت گزر گیا ۔قریب کے ایک رشتہ دار نے آکر رشتے کی بات چھیڑتے ہوئے کہا۔’’میں نے نازنین بیٹی کے لئے ایک اچھا لڑکا دیکھا ہے۔ پڑھا لکھا‘ صوم صلوات کا پابند ۔ صاحب ثروت لوگ ہیں۔آپ کہیں تو میں بات کر وں۔‘‘
مبشر صاحب نے کچھ غور وفکر کے بعدکہا۔’’آپ کی تجویز بجا ہے۔ نازنین ؔ بیٹی نے اب پڑھائی مکمل کر لی ہے اس کا بیاہ تو ہونا چاہیے مگر۔۔۔۔!
’’اس میںاگر مگر کرنے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔بیٹی جوان ہوئی ہے جتنی جلدی ہوسکے بیاہ ہونا چاہیے۔‘‘وہ بولا۔
’’تم سمجھ نہیں رہے ہو ۔میری بڑی بیٹی تو آسیہ ہے، پہلے اس کا سوچنا پڑے گا۔زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ۔کب آنکھ بند ہوجائے ۔کوئی خبر نہیں۔آسیہ کس کے سہارے رہے گی۔خیر ہم اس پر سوچیں گے تم پھر کبھی آنا۔‘‘
اس کے جانے کے بعد مبشر صاحب پھوٹ پھوپ کر رونے لگے۔ اس سے آسیہ کی فکر کھائے جا رہی ہے۔خود سے بڑ بڑانے لگے۔’’آسیہ اپاہج ہے، اس نمود ونمایش کے دور میں کون اس سے قبول کرے گا۔ آج کل کے لڑکے الٹرا ماڑرن ہیں، ا نھیں ایسے ساتھیوں کی تلاش ہوتی ہے جو ان کے ساتھ پارٹیوں میںجا سکیں، باہوں میں باہیں ڈال کر ان کے ساتھ ڈانس کرسکیں۔ایسے میں میری اپاہج بیٹی کا ہاتھ کون تھامے گا۔‘‘
مبشر صاحب کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ کریں تو کیا کریں۔رات دن اسی سوچ میں ڈوبے رہتے ۔آخر کون ایک اپاہج لڑکی سے شادی کرے گا۔‘‘
کچھ دنوں کے بعد وہ آدمی پھر آیا۔مبشر صاحب اپنی بیٹیوں کے ساتھ بات چیت کررہے تھے، بیوی بھی موجود تھی۔وہ گویا ہوا۔
’’اب آپ نے کیا فیصلہ کیا؟میں نازنین بیٹی کے رشتے کی بات چھیڑدوں۔‘‘آسیہ نے اپنی بہن کو گلے سے لگا کر کہا۔
’’ ہاں ہاں کیوں نہیں ۔ میر ی پیاری بہن دلہن بنے گی۔میں سے وداع کروں گی۔‘‘
’’میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جائوں گی دیدی۔‘‘اور نازنین ہچکیاں لے لے کر رونے لگی وہیں ان کی ماں رو رو کر کہنے لگی۔۔
’’کل کو ہم مر جائیں گے تو آسیہ کا خیال کون رکھے گا۔‘‘
اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی اور ایک خوبرو لڑکا، جو رشتے میں آسیہ کا خالہ زاد بھائی ہے، کمرے کے اندر آکر یوں مخاطب ہوا۔
’’میں نے آپ کی ساری باتیں سن لی ہیں۔ آسیہ اپاہج ہے اس کے ساتھ کوئی غیر شخص شادی کے لئے آمادہ نہیں ہوجائے گا۔لیکن ۔۔۔میں تو آپ کا اپنا ہوں ۔ میں نہیں تو اور کون! میںآسیہ کے ساتھ بیاہ کروں گا۔ ‘‘
’’سچ بیٹے‘ مبشر صاحب کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔اس نے حامی بھر لی۔تو سب کے چہرے چمک اُٹھے۔
دلنہ بارہمولہ،موبائل نمبر:-9906484847