کشمیرعظمیٰ نے اپنے صفحہ اول پر بے شمار رپورٹوں اور انہی سطورمیںکشمیر میں کتوں کی خونچکانی سے متعلق ارباب بست وکشاد کو جگانے کی کوشش کی تھی لیکن حسب روایت حکام نے نہ ہی ہماری رپورٹوںکو درخور اعتناء سمجھا اور نہ ہی ان گنت اداریوں میں صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرنے کی کوشش جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ہمارے سگانِ شہر و دیہات کو جیسے انسانی خون کا چسکہ لگ چکا ہے اور محض ایک ہفتہ میں 2انسانی جانیں کتوںکی خونچکانی کی وجہ سے تلف ہوگئی ہیں۔گزشتہ روزیعنی اتوار کوجہاںبڈگام کے ماچھو علاقے میںآوارہ کتوں کے ایک جھنڈ نے پانچ شہریوںپر حملہ کرکےایک 70سالہ شخص کوجاں بحق اور چار کو شدید زخمی کردیا ،وہیں اس سے پانچ روز قبل یعنی گزشتہ سوموار کو اونتی پورہ میں آوارہ کتوں نے ایک 8سالہ کمسن بچی کی جان لی تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ ان ہلاکتوںکے بعد بھی یہاں کی انتظامیہ اس مصیبت سے نجات دلانے کے لئے کی کوئی منظم کوشش نہیں کررہی ہے۔اگر ایسا ہوتا تو شاید ہسپتالوں میں رجسٹر کئے جانے والے کتّوںکے کاٹنے کے کیسوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ نہیں ہوتا۔آج وادیٔ کشمیر کی تقریباً تمام بستیوں اور قصبہ جات یہاں تک کہ سرینگر کی سمارٹ سِٹی میں بھی غول در غول آوارہ کتّے لوگوں کے لئے سدراہ بنے ہوئے ہیں۔گزشتہ ایک دہائی کے دورا ن تواتر کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں راہ گیر اِن کے حملوں کا شکار ہوکر ہسپتالوں میں پہنچ گئے ہیںاور کئی ایک کی موت بھی ہوچکی ہے،جبکہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ میڈیا کے توسط سے آئے روز شہر سرینگر کے ساتھ ساتھ مضافات و دیہات میں آوارہ کتّوں کے ذریعہ خونچکانی کے واقعات کی خبریں آتی رہتی ہیںجبکہ ہر شاہراہ آوارہ کتّوں کی آماج گاہ بن چکی ہیں۔ روزانہ کہیں نہ کہیں شہرو گام کے کسی نہ کسی علاقے میں کتوں کے حملوں میںلوگ لہولہان ہو کر علاج و معالجہ کے لئےہسپتالوں میں پہنچ جاتے ہیں،جن میں بچے اور بزرگ بھی شامل ہوتے ہیں لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہاں کی انتظامیہ ان سانحات کے محرکات کے بارے میں تسلسل کے ساتھ چپی سادھے ہوئی ہے۔اس وقت شہر سرینگر میں آوارہ کتّوں کی تعداد کے بارے میں مکمل اعدادوشمار دستیاب تونہیں ہیں لیکن ظاہری طور پر جو تناسب دکھائی دے رہا ہے ،وہ نہ صرف ہیبت ناک و تشویش ناک ہے بلکہ زمینی سطح پر آوارہ کتوںکی ہڑبونگ اور خونچکانیاںایسی خوفناک داستانیں بن چکی ہیں،جو فوری توجہ کی متقاضی ہیں۔ برسہا برس سے بلدیاتی اداروں کی طرف سے کتّوں کا صفایا کرنے یا ان کی آبادی کو قابومیں لانے کاکوئی ٹھوس منصوبہ سامنے نہیں آیا،بلکہ دکھائی یہی دیتا ہے کہ ان اداروں نے اس معاملے پر کام کرنا ہی بند کردیا ہے ۔پارلیمنٹ نے اس حوالے سے جو قانون بنایا ہے ،اُس کے تحت آوارہ کتّوں کی ہلاکتوں پر پابندی تو عائد ہےلیکن ان کی تعداد کو قابو کرنے کے لئے جو ہدایات موجود ہیں،اُن کو بھی بالائے طاق رکھا گیا ہے۔ بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود کتوں کی نس بندی کا بھی کوئی منظم پروگرام بھی عمل میں نہیں لایا جاتاہے۔یہ الگ بات ہے کہ جب کہیں پہ کتّوں کے کاٹنے کی شکایت بار بار سامنے آتی ہے تو دکھاوے کے لئےیہ اقدام کیا جاتا ہےلیکن بہ ایں ہمہ صورت حال دن بہ دن بے قابو ہورہی ہے۔فی الوقت یہ ایک حقیقت ہے کہ وادیٔ کشمیر میں آوارہ کتّے عوام کے لئے خوفناک اور جان لیوامصیبت کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔اگرچہ میونسپل قوانین کے مطابق انتظامیہ کو آدم خورکتّوں کے خلاف کاروائی کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے لیکن عملاً ایسا نہیں کیا جارہا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو درپیش اس موذی مصیبت سےنجات دلانے کی کوشش کی جائے اور جلداز جلد کوئی متبادل راستہ اختیار کرکے فوری طور پر کتوںکی خونچکانی کا سلسلہ بند کرنے کے اقدامات کئے جائیں ورنہ سگانِ شہر و دیہات انسانی آبادی کیلئے ایک نئے اور سنگین خطرہ کے طور ابھر سکتے ہیں۔