ریاست کے طول عرض میں لوگوں کے تئیں آوارہ کتوں کے تشدد میں جس عنوان سے دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہاہے اور روزانہ بنیادوں پرپیش آنے والے ان واقعات کے تئیں انتظامیہ کی خاموشی انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور دلسوز ہے ۔چنانچہہسپتالوں میں رجسٹر کئے جانے والے کتوں کے کاٹنے کے کیسوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بے محابہ اضافہ ہورہا ہے۔ آج بستیوں اور قصبہ جات میں جہاں سے بھی گذر ہوتاہے ، غول درغول آوارہ کتّے لوگوں کے لئے سدراہ بنتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے تواتر کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں راہ گیران کے حملوں کا شکار ہوکر اسپتالوں میں پہنچ گئے ہیں اور کئی ایک تو موت کی کگار پر پہنچ گئے۔ ۔آوارہ کتّے عام طور پر چھوٹے بچوں پر چڑھ دورتے ہیں اور بچے بھی گھبراہٹ کے عالم میں جدھر کو راستہ ملے خود کو بچانے کے لئے اْدھر کی طرف بھاگنے میں عافیت سمجھتے ہیں اور یہ صورتحال بعض اوقات انتہائی رنجدہ سانحات کو جنم دیتی ہےلیکن بارہمولہ کے واقعہ میں جو پچاس کے قریب شہری زخمی ہوئے ہیں، اُن میں بزرگ، جوان اور بچے سبھی شامل ہیں، جو معاملے کی سنجیدگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔آئے روز میڈیا کے توسط سے شہراور دیہات میں آوارہ کتوں کے ذریعہ خونچکانی کے واقعات کی خبریں آتی رہتی ہیںمگر یہ ایک حقیقت ہے کہ انتظامیہ نے ان سانحات کے محرکات کے بارے میں چپ سادھ رکھی ہے۔ آج شہر سرینگر اور دیگر قصبہ جاتمیں آوارہ کتّوں کی تعداد کے بارے میں ثقہ اعداد وشمار دستیاب نہیں تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ضرور لاکھوں میں ہیں اورظاہری طور پر جو تناسب دکھائی دے رہا ہے وہ کسی بھی مہذب سماج میں قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ برسہا برس سے لوکل باڈیز اداروں نے کتّوں کا صفایا کرنے کا کام بند کردیا ہے۔پارلیمنٹ نے اس حوالے سے ایک قانون بنایا ہے ، جس کی رو سے آوارہ کتّوں کی ہلاکتوں پر پابندی تو عائد کردی گئی ہے ،لیکن ان کی تعداد کو قابو کرنے کے لئے نس بندی جیسے دیگر ذرائع استعمال کرنے کی ہدایات موجود ہیں ،مگرریاست کے اندر انتظامیہ نے جہاں ایک جانب بستیوں کے اندر غول در غورل گھوم رہی اس موذی مخلوق کا صفایا کرنے کا کام بند کردیا ،وہیں دوسری جانب بار بار کی یقین دہانیوں اور اعلانات کے باوجود نس بندی کا کوئی منظم پروگرام عمل میں نہیں لایا ،یہ الگ بات ہے کہ جب کہیں پہ کتوں کے کاٹے کی شکایات بار بار سامنے آتی ہیں تو لوگوں کا منہ بند کرنے کےلئے یہ اقدام کیا جاتا ہے ۔ لیکن بہ ایں ہمہ صورتحال دن بہ دن بے قابو ہورہی ہے۔اس پر طرہ یہ کہ شہروں اور قصبوں میں ہزاروں ٹن کوڑا کرکٹ لتھڑاپڑا رہتا ہے، جو انکے فروغ کا ایک اہم سبب ہے۔ فی الوقت یہ ایک حقیقت ہے کہ ریاست میں آوارہ کتّے ایک عوامی مصیبت کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ ایک برس کے دوران وادی میں کتّوں کے حملوں کا شکار ہونے والوں کی تعداد 10ہزار سے زائد رہی ہے ،جس پر انتظامیہ اور حقوق حیوان کی تنظیموں نے کبھی رنج اور تاسف کا اظہار نہیں کیاہے ، بلکہ اس کے برعکس حیوانوں کے حقوق کی تنظیموں نے مختلف اوقات پر ریاستی انتظامیہ پر دبائو قائم کرکے اپنی بات منوانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اگرچہ میونسپل قوانین کے مطابق انتظامیہ کو ایسے کتّوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے ، جو سماج کے لئے مصیبت کا درجہ اختیار کریں ، لیکن عملاً ایسا نہیں کیا جارہاہے۔ خاص کر باؤلے کتوں کے حملوں کے سدباب کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔اگرچہ ماضی میں صوبائی انتظامیہ نے باولے کتّوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کیا گیاتھا ،لیکن حقوق تنظیموں کے دبائو میں آکر یہ حکم فوراً واپس لیا تھا، حالانکہ باولے کتّوں کا دفاع کرنا قطعی طور پر ناقابل فہم ہے۔ تمام تر تحفظات کے باوجود موجودہ صورتحال عوام کے لئے قطعی قابل قبول نہیں ہوسکتی، لہٰذا انتظامیہ کو کوئی متبادل راستہ اختیارکرکے فوری طور پر موجودہ صورتحال کا ازالہ کرنا چاہئے۔اب جبکہ ریاست میں بلدیاتی ادروں کےا نتخابات بھی ہوئے ہیں لہٰذا اُن نمائندگان، جن میں سے متعدد ، خاص کر کشمیر میں،ووٹوں کی برائے نام تعداد سے ہی منتخب ہو کر آئے ہیں، کو اس مسئلے کو اولین ترجیحات میں شامل کرکے اپنی عوامی نمائندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔