تاریخِ عالم کا مطالعہ کرنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب نے معاشرے میں رہنے کے لیے کچھ اصول بنائے ہیں اور افراد کو آپس میں پیار اور محبت سے رہنے کا درس دیا ہے۔ ہر مذہب نے بنی نوع انسان کو بتایا کہ زندگی کا اصل مقصد دوسروں کو سہولیات فراہم کرنا اوران کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔الحمد للہ جب ہم دینِ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مذہبِ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اس کی بنیاد میں ہی تمام انسانوں سے محبت کا عنصر شامل ہے۔
بنی آدم اعضائے یک دیگر اند
کہ در آفرینش زیک جوہر اند
چوں عضوے بہ درد آورد روزگار
دیگر عضوہا را نماند قرار
ہماری وادیٔ کشمیر جسے جنتِ بے نظیر کہاجاتا ہے، سوئے اتفاق ان دنوں مذہبی منافرت کی دلدل میں عجیب وغریب ہچکولے کھارہی ہے، شہر سرینگر میں دو خاندانوںکے شادی کے معاملے کو الیکٹرانک میڈیا اور نفرت کے سوداگروں نے مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان نفرت کی بنیاد بنا کر اس طرح پیش کیا ہے جیسے ہم ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوں، حالاں کہ اسلام ایک فطری، آفاقی اور عالم گیر مذہب ہے اور قیامت تک زندہ رہنے کے لیے آیا ہے، یہ مذہب ہر زمانے اور ہر دور کی تحقیقات کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ مذہب تیر و تلوار سے نہیں بلکہ اخلاقِ عظیمہ، اخلاقِ کریمانہ اور اخلاقِ حسنہ سے پھیلا ہے، اسلام میں زبردستی کسی کا مذہب تبدیل کرنےکی کوئی اجازت و گنجائش نہیں ہے ۔
سرینگر میں سکھ کمیونٹی کی ایک فیملی کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ گرچہ بادی النظر میں بھائی چارے کی فضاکو مکدر کرنے میں انتہائی دکھ بھرا اور پریشان کن ہے مگر اس واقعے کی آڑ میں جس طرح میڈیا نے اسے نفرت کا مرکز بنا کر پیش کیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ یہ حادثہ یا واقعہ نہیں ہے بلکہ بالارادہ و عمداً اسے ایشو بنا کر ماحول کو زنگ آلود کیا جارہا ہے ۔
اب یہ بات حقیقت بنتی جارہی ہے کہ جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں تو جمہوریت کے دعوے دار غیر جمہوری رویہ اپنا لیتے ہیں ۔ انسانی حقوق پامال اور معاشرتی قدریں بے حال دکھائی دیتی ہیں۔ ہندو مسلم نفرت کو ہوا دی جاتی ہے، انتحابات کے ایشو گرچہ بجلی پانی سڑک، ہیلتھ اور روزگار ہونے چاہیے مگر افسوس نفرت، توڑ پھوڑ اور پر امن طریقے سے رہ رہی اقلیت و اکثریت کو منافرت کی دلدل میں ڈال کر انتخابات کا ایندھن بنایا جاتا ہے۔
پہلے تو اسلام میں طاقت کے ذریعہ ’’محض شادی کی خاطرمذہب تبدیل کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے جس کا واضح ثبوت قرآن کی آیت لا اکراہ فی الدین‘‘ ہے، جب کہ اسلام قبول کرنے والے شخص کا تمام دباؤ کے بغیر اسلام قبول کرنے کے مبارک عمل کو شریعت انتہائی احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ شہر سرینگر میں پیش آنے والا یہ واقعہ دو فیملیز کا معاملہ ہے جب کہ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا موجودہ صورت حال میں جلتی پر تیل کا کام کررہا ہے اور اسے مذہبی ٹکراؤ کی طرف لے جارہا ہے ،جس کے لیے ہمیں بھائی چارے کو قائم رکھتے ہوئے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سکھ کشمیری برادری کا اہم حصہ ہیں اور کسی کو بھی مذہب اسلام میں رہتے ہوئے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے عقائد کی بے عزتی اور سب وشتم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ صدیوں سے ریاست جموں وکشمیر میں اجتماعی ہم آہنگی برقرار ہے جب کہ سکھ کمیونٹی جموں وکشمیر کی قدیم ثقافت ، اخلاق اور فرقہ وارانہ بھائی چارے کا ایک اہم جزو وحصہ ہیں۔ ریاستی انتظامیہ کا فوری فرض ہے کہ میڈیا میں دکھائی جانے والی خاتون کی بخوشی ورضامندی اسلام قبول کرنے کی وائرل ویڈیو بھی دیکھے اور غیر جانب داری کے ساتھ فیصلہ فرمائے کہ کہیں اس معاملے کو جان بوجھ کر ایشو تو نہیں بنایا جارہا ہے، پھر جبر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے اور تمام مجرموں کے خلاف مقدمہ درج کرے اور ریاست کے نازک معاشرے کو مزید انتشار میں تقسیم کرنے کے گیم پلان کو روکنے کے لئے تفرقہ بازی کرنے والے افراد کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرے اور ایسی کسی بھی سرگرمی کی اجازت نہ دی جائے جو رجموں و کشمیر کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے خطرے کا سبب بنے۔
اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے
جموں وکشمیر ولداخ میں مذہبی ہم آہنگی اہم کردار ادا کر سکتی ہے ، آج ہمیں قبولیت اور اشتراک کا پیغام تمام مذاہب کے ماننے والوں کے مابین پھیلانے کی ضرورت ہے، یہ ایک پُرامن اور ترقی پر گامزن ہونے والی ریاست کے لیے اشد ضروری ہے ۔ مختلف مذہبی جماعتیں اور فرقے، جو اس وقت منقسم ہیں، اُنہیں من حیث الانسانیت ساتھ ملانے کی اشد ضرورت ہے-جموں و کشمیر حقیقی معنوں میں اسی صورت ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے جب ہم دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے شانہ بشانہ کھڑا کر کے چلیں گے۔
اس صورت حال کے پیش نظر تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ رواداری، امن، صبر اور بین المذاہب ہم آہنگی کی حکمتِ عملی پر عمل کریں، جموں وکشمیر مذہبی ہم آہنگی، سخاوت اور بھائی چارے کے لیے سارے عالم میں معروف ہے، امرناتھ یاترا اور ویشنو دیوی میں آنے والے یاتریوں کو جو گلہ بان آج بھی اپنے گھوڑوں اور کندھوں وپالکیوں پر بٹھا کر گوفہ تک لے جاتے ہیں وہ اسی ریاست جموں وکشمیر کے مسلمان ہیں جنھوں نے حالات کے زخموں سے چور اور زخمی ہونے کے باوجود کبھی بھی بھائی چارے کو نظر نہیں لگنے دی ۔
آج وقت کی ضرورت ہے کہ ہم تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ انصاف اور یکساں سلوک کریں، کثیر مسلم ریاست کی حیثیت سے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کسی بھی طرح کے امتیازی سلوک، عدم توازن اور اُنہیں نظرانداز کرنے کے ہم متحمل نہیں ہیں اور نہ ہی ہمیں ہمارے مذہب نے یہ حکم دیا ہےبلکہ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ہمیں تعلیمی اداروں، یونیورسٹیوں، مدارس وکالجز میں سیمیناروں، میڈیاورک شاپس کرنے کی ضرورت ہے جب کہ جلسوں کے ذریعے بین المذاہب ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دینا انتہائی ضروری ہے ۔
موجودہ دور میں امت مسلمہ بالخصوص جموں وکشمیر کے مسلمانوں بشمول راقم الحروف کو درپیش مشکلات، مصائب اور مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لیے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تعلیمات قرآن کی روشنی میں اجتماعی طور پر اپنے ہر قسم کے گناہوں، کوتاہیوں اور بداعمالیوں سے توبہ کرنی چاہئے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے اور اُن سے محبت رکھتا ہے۔ ؎
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت
�������