ہاوورہ کولگام // فورسز کے ہاتھوں کولگام کے ہاوورہ کیموہ گائوں میں گھر کے باہر گولیوں کا نشانہ بننے والی 7ویں جماعت کی رول نمبر 1بارہ سالہ عندلیب علی اپنا سکول کھلنے کے وقت کلاس میں نہیں گئی اور اُس کی حاضری کا کالم خالی رہے گا ۔عندلیب مڈل سکول ہاوورہ کولگام کی ایک بہترین طالبہ تھی جس نے ہمیشہ امتحانات میں اول مقام پایا ،وہ اپنے اساتذہ کیلئے بھی خاص تھی اور اُسے کلاس کی مانیٹر بنایا گیا تھا ۔ اُس کی غیر معمولی صلاحتیں اُسے دیگر ہم جماعتوں سے الگ کرتی تھی۔ اُس کا مقصد ایک استاد بننا تھا اور وہ تدریسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کھیل کود کی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتی ۔ اُس نے کھوکھو وبیڈمینٹن میں بھی سکول کو اعلیٰ مقام دلایا تھا ۔وہ علی محمد کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی ،اُس کا والد ایک غریب کسان ہے ۔اُس کی سب سے بڑی بہن روحی بارہویں جماعت کی طالبہ ہے ۔عندلیب کے اساتذہ اس نقصان پر افسردہ ہیں ۔ سکول کے سوشل سائنس کے ٹیچر معراج احمد کاکہناہے کہ عندلیب نے چھٹی جماعت میں اول مقام حاصل کیا اور وہ ساتویںجماعت کے ٹرم فسٹ کے امتحانات دے رہی تھی ،وہ ایک قابل طالبہ تھی، جسے سب ٹیچر پیارکرتے تھے۔انہوں نے بتایاکہ وہ مباحثوں اور سکول کی دیگر سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ۔ان کاکہناتھاکہ اس کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی ،ہمارے سکول نے ٰایک چمکتے ستارے کو کھودیاہے ۔اس کی ہم جماعتوں کاکہناہے کہ وہ ان کیلئے ایک رول ماڈل تھی ۔رویدہ امین کاکہناہے کہ وہ عندلیب کے بغیر کلاس روم میں کیسے بیٹھیں گی ،وہ بہت اچھی دوست تھی اور پڑھائی میں دوسروں کی مدد کرتی ،اس کے بغیر زندگی نامکمل ہے۔ اس کاسوال ہے کہ عندلیپ کو کیوں ہم سے چھین لیاگیا؟ اوراس کا کیا قصور تھا؟۔عندلیپ کے گھر والوں کے مطابق وہ سنیچر کے روزپڑوس میں رہ رہے انیس سالہ شاکر کوفورسز کے ہاتھوں گولی لگنے کاسن کربعددوپہر گھر سے باہر گئی ،دیگر افراد کی طرح وہ بھی یہ جانناچاہتی تھی کہ باہر کیا ہواہے لیکن جب تک اسے اس کا پتہ چلتا،فوج نے اس پر گولی چلادی ۔اس کے قریبی رشتہ دار شفقت احمد کاکہناہے کہ ہر طرف خون ہی خون تھااور شاکر اور عندلیب کو فرصل ہسپتال پہنچایاگیا تاہم ان کی سانسیں پہلے ہی دم توڑ گئی تھیں ۔