جموں//وادی میں اسکولوں کو جلائے جانے کے واقعات کو بد ترین دہشت گردی قرار دیتے ہوئے وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ایسے جرائم کے مرتکب افراد کو بخشا نہیں جائے گا۔ محبوبہ مفتی نے کشیدگی کی شکار وادی کشمیر کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے دنوں میں ایک اچھی خبر ملے گی ۔وزیراعلیٰ نے وادی میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس اُن سے اچھی طرح سے نمٹ رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحدوں پر جاری کشیدگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کے حل کا کوئی راستہ نکالا جانا چاہئے۔ سرمائی راجدھانی میں دربار مؤ دفاتر کھلنے کے موقعہ پر ریاستی پولیس کے چاک و چوبند دستہ کی طرف سے دئیے گئے گارڈ آف آنر کا معائینہ کرنے کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے خطاب کے دوران وزیراعلیٰ نے وادی میں اسکولوں کا پراسرار طور پر نذر آتش ہونے کے واقعات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات میں ملوث کئی ایک شرپسندوں کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ انہوں نے کہا ’’کئی ایک اسکول نذر آتش کئے جاچکے ہیں۔ یہ بہت ہی افسوس ناک صورتحال ہے جس کو گذشتہ تین ماہ سے زائد عرصہ کے دوران پیدا کیا گیا۔ اس کے دوران کاروبار تھوڑا بہت چلتا رہا۔ دکانیں کھلی رہیں۔ باقی کاروبار بھی چلتا رہا۔ اس کشیدگی کا سب سے بڑا خمیازہ اسکولوں اور تعلیم کو بھگتنا پڑا۔ اس صورتحال کے باعث کشمیر سے کئی بچے جموں پڑھائی کے لئے آئے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ اسکول بھی جل گئے ہیں۔ اسکول جلانے میں ملوث کچھ شرپسندوں کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آنے والے ایک ہفتے میں ہمیں ایک اچھی خبر ملے گی‘‘۔ وزیراعلیٰ نے وادی میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس اُن سے اچھی طرح سے نمٹ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’عسکریت پسندی ہمیشہ سے ہی تشویش کا باعث رہی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ جو مقامی جنگجوہیں بالخصوص جنہوں نے حالیہ ایام میں جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے، کو اپنے گھروں کو واپس لایا جائے۔ پچھلے 25 برسوں سے ہمارے فورسز اور پولیس نے عسکریت پسندی کو ڈیل کیا ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ وہ صورتحال سے بہ آسانی نمٹیں گے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ جب ہزاروں کی تعداد میں جنگجو تھے تو ہماری فورسز نے کامیابی سے انہیں ٹھکانے لگا دیا اب جب کہ ان کی تعداد250یا 300رہ گئی ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سوپور کے عمر خالق میر عرف سمیر ، جس نے حال ہی میں پولیس کے روبرو سرینڈر کیا ہے ، کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس کے خلاف کو ئی سنگین الزام نہیں ہے ، اس نے تین ماہ قبل ہی جنگجوئوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی تھی، ہم کوشش کریں گے کہ وہ معمول کی زندگی بسر کر سکے ۔حزب کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ملی ٹینٹوں کے صفوں میں شامل ہونے والے نوجوانوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ غیر ملکی عسکریت پسندوں سمیت ریاست میں کل200سے 300جنگجو سرگرم ہیں۔ ہند پاک تعلقات کا ذکرکرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ ہندوستان نے ہر دفعہ پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن وہاں سے مثبت جواب نہ ملا۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم پچھلے ساڑھے تین ماہ سے داخلی سطح پر بے چینی کا سامنا کررہے ادھر پاکستان کی طرف سے کی جانے والی گولہ باری نے پچھلے ایک ماہ سے لوگوں کے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے کیوں کہ دونوں ممالک کے درمیان تلخیوں کا براہ راست اثر جموں کشمیر پر پڑتا ہے‘ ‘۔دیرینہ معاملات کو حل کئے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سرحدوں پر موجود کشیدگی کی وجہ سے فورسز اہلکار اور عام شہری ہلاک و زخمی ہو رہے ہیں، سرحدی عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑا ہے ، سکول بند پڑے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جموں میں سرحدوں پر امن لوٹ رہا ہے پچھلے تین روز سے کوئی بھی تازہ فائرنگ نہیں ہوئی ہے ۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ پاکستان کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ قیام امن دونوں ممالک کیلئے اشد ضروری ہے ۔انہوں نے تمام تنازعات کے حل کے لئے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے فارمولہ کو واحد متبادل قرار دیتے ہوئے کہاکہ واجپائی جی ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ آپ دوست بدل سکتے ہیں ، پڑوسی نہیں ، اور پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرتے ہوئے ہندوستان کو اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ کرگل جنگ کے باوجود ہندوستان پاکستان نے مفاہمت کا راستہ اپنایااور جنگ بندی معاہدہ طے پایا جو 2008تک نافذ العمل رہا ، وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اسی فارمولہ پر عملدرآمد کرتے ہوئے ہند پاک تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کی، رسم حلف برداری میں پاکستانی ہم منصب کو مدعو کیا اس کے بعد لاہور کا دورہ کیا لیکن بدقسمتی سے پاکستان نے اس پر مثبت رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ دریں اثنا جموں وکشمیر میں دربار مو کی ڈیڑھ صدی پرانی روایت کے تحت گرمیوں کے چھ ماہ سری نگر میں رہنے کے بعد تمام دربار مو دفاتر بشمول گورنر، وزیر اعلیٰ اور کابینی وزراء کے دفاتر پیر کو یہاں کڑے سیکورٹی حصار میں کھل گئے۔ یہ دفاتر سری نگر میں 27 اکتوبر کو بند ہوئے تھے۔ سیول سکریٹریٹ پہنچنے پر وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو جموں وکشمیر پولیس کے ایک دستے کی جانب سے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔نائب وز یر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ ،وزارتی کونسل ، وزیر اعلیٰ کے مشیر ، چیف سیکرٹری ،ڈی جی پی ،ایڈمنسٹریٹیو سیکرٹریوں اورپولیس و سول انتظامیہ کے علاوہ سول سیکرٹریٹ کے ملازمین نے وزیراعلیٰ کا استقبال کیا۔ بعدمیں وزیراعلیٰ نے سول سیکرٹر یٹ میں کئی دفاتر کا دورہ کیا۔ انہوںنے ڈائریکٹر ایسٹیٹس سے ملازمین کو دی گئی رہائشی سہولیات اوردفتری جگہ کے بارے میں جانکاری حاصل کی۔ اس کے بعد وزیرا علیٰ اپنی دفترگئیںاور اپنا معمول کا کام کاج شروع کیا۔