نیوز ڈیسک
سرینگر حریت(گ) ،جماعت اسلامی اور سیول سوسائٹی گروپ کشمیر سنٹر فار سوشل اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹیڈیز نے ایک بار پھر وادی میں اسکولی عمارات کی آتشزدگی کی مسلسل وارداتوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا یہ تخریبی کارروائیاں کرنے والے کسی بھی حال میں تحریک کے بہی خواہ نہیں ہوسکتے۔ حریت کے مطابق ایسے واقعات جان بوجھ کر تحریک کو بدنام کرنے کے لیے عملائے جاتے ہیں، تاکہ ان سے یہ تاثر دینے کی مذموم کوشش کی جائے کہ یہ تحریک، آزادی کے لیے نہیں، بلکہ تخریب کاری ہے۔ حریت(گ)نے ان اطلاعات پر بھی دُکھ کا اظہار کیا کہ آج پوری وادی مصائب اور مشکلات سے دوچار ہے، اسکولی بچوں سے لیکر تاجربرادری تک ہر کوئی اس منظم اور ہمہ گیر تحریک میں شامل ہوکر اپنا حق ادا کررہے ہیں، کچھ نوجوان بھارت کی مختلف ریاستوں میں کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہیں، ہمیں اگرچہ کسی نے نجی معاملات میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہے، لیکن ہمار ا دشمن معمولی حرکات کو بھی بڑھا چڑھا کرپیش کرکے تحریک میں خلفشار پیدا کرنے کی سازشیں کرتا رہتا ہے۔ حریت نے ایسے تمام نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ تحریک کے وسیع مفاد میں ایسی کسی بھی حرکت سے اجتناب کریں جس سے ہمارے دشمن کو ہمارے خلاف بات کرنے کا موقعہ فراہم ہو۔ادھرجماعت اسلامی نے کہا ہے کہ شمالی، وسط اور جنوبی کشمیر میں پر اسرار طور پر اسکولی عمارتوں کو نذر آتش کرنے کی وارداتیں قابل تشویش ہیں اور اس طرح کی تخریبی کارروائیاں، پُر امن عوامی جدوجہد کو بدنام کرکے دنیا کی توجہ یہاں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے ہٹانے کی ایک دانستہ کوشش محسوس ہورہی ہیں۔رواں عوامی تحریک کے دوران جن ظلم و زیادتیوں کا شکار کشمیری عوام کو بنایا گیا ،اُس سے انسانیت کانپ اُٹھتی ہے۔ اِن تمام مظالم کا کشمیری قوم بڑی ہی دلیری کے ساتھ مقابلہ کررہی ہے اور کسی بھی سطح پر کم ہمت اور پست حوصلہ نہیں ہورہی ہے، جس پر مظلوم کشمیری عوام خراج تحسین کے مستحق ہیں، البتہ گزشتہ چند ہفتوں سے قومی کاز کو نقصان پہنچانے کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے، جس کی وجہ سے عوامی سطح پر تشویش پیدا ہوئی ہے۔جماعت کے مطابق تعلیمی اداروں کو خاکستر کرنے کی ان تمام کارروائیوں سے کشمیری سماج میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے اور بحیثیت قوم ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے۔ جماعت کا کہنا ہے کہ جو لوگ اسکولی عمارتوں کو نذر آتش کرنے کی ان کارروائیوں میں ملوث ہیں وہ کسی بھی سطح پر کشمیریوں کی پُرامن عوامی تحریک کے ہمدرد نہیں ہوسکتے ہیں۔جماعت اسلامی جموں وکشمیر اسکولوں کو نذر آتش کرنے کے ان سانحات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عوام سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں اسکولی عمارتوں کا حفاظت اُسی طرح کریں جس طرح اپنے گھروں کی کرتے ہیں، اور اُن عناصر سے باخبر رہیں جو قومی جائیداد کو نشانہ بناکر عوامی تحریک کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ سیول سوسائٹی گروپ کے سی ایس ڈی ایس نے کشمیر میں سکولی عمارتوںکو نذ آتش کرنے کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کو افسوناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے چند دنوں کے اندر وادی میں 26سکولوں کو نذ آتش کیا گیا ہے ۔ تنظیم نے سکو لی عمارات کو نذر آتش کرنے والے طاقتوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سکول جلانے والے چاہئے سرکاری ایجنٹ ہو ںیا سماج دشمن، مگر اس سے سماج پر کافی گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ کے سی ایس ڈی ایس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہلاکتیں، نوجوانوں کی بصارت چھینا اور انہیں معزور بنانا، فصلیں تباہ کرنا، گھروں کو نظر آتش کرنا جیسے کافی نہیں تھا اور اب ہماری نوجوان نسل کو علم کے نور سے آرستہ کرنے والے سکولوں کو نذ آتش کیا جارہا ہے۔ کے سی ایس ڈی ایس نے کہا ہے کہ سکولوں کو جلانے سے نوجوان نسل مکمل طور پر تباہ ہوجائیگی اور اس لئے حکومت کو سکولوں کو کھولنے اور امتحانات منعقد کرانے کے معاملے کو سیاست سے دور رکھنا چاہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو طالب علموںکی آواز سنی چاہئے جو امتحانات کے انعقاد کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں ۔ بیان میں ،مزید کہا گیا ہے کہ ہر کوئی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ حکومت امتحانات نومبر میں کرانے پر بضد کیوں ہے جبکہ پچھلے چار مہینے سکول بند رہنے کی وجہ سے بچے سکولوں میں پڑھائی نہیں کرپائے۔ کے سی ایس ڈی ایس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت نوجوان نسل کے خلاف جنگ شروع کرکے کیا ظاہر کرنا چا ہتی ہے اور مقررہ تاریخوں پر ہی امتحانات کرنے پر کیوں بضد ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ امتحانات مارچ میں منعقد کرنے سے آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا، اگر امتحانات مارچ اپریل میں منعقد کئے جائیں اور سٹیٹ بورڈ آف سکول ایجوکیشن امتحانات کے نتائج مقرر وقت پر ظاہر کرے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو پہلے امتحانات کیلئے مقرر کردہ داخلوں سے دست بردار ہونا چاہئے اور دوسرا ان تمام سماج دشممن کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لانی چاہئے جو سکولوں کو جلانے میں ملوث ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو مقامی لوگوں، محلہ مسجد کمیٹیوں اور سکولوں کے پڑوس میں رہنے والے لوگوں کو نظر گزر رکھنے کی درخواست کرنی چاہئے تاکہ سکولوں کو نذ آتش ہونے سے بچایا جاسکے اور بچوں کے اس قیمتی ورثے کو بچایا جاسکے۔