سید رضوان گیلانی
کئی برسوںسے جموں و کشمیر سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹنے جوابدہی اور شفافیت کو برقرار رکھنے کا دعویٰ کیا ہے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہر آنے والے دن تعلیمی فضیلت پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔تاہم، حقیقت یہ ہے کہ محکمے کے چند افراد (اساتذہ) کو محکمہ کی جانب سے جوابدہی اور شفافیت کا دعویٰ کرنے سے استثنیٰ حاصل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جوزونل ایجوکیشن آفیسروں ،چیف ایجوکیشن آفیسروں،نظامت تعلیم اور ایس سی ای آر ٹی کے دفاتر میںطویل عرصہ سے مزے اٹھارہے ہیں۔بعض منتخب اساتذہ، جو اقتدار میں رہنے والوں کے قریب ہوتے ہیں، جوابدہ نہیں ہوتے۔
جموں و کشمیر کے سکولی تعلیم محکمہ میں، ایک بہت ہی غلط رجحان کئی برسوں سے چل رہا ہے، جو محکمہ کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا رہا ہے۔برسوں سے محکمہ نے ایک غلط رجحان شروع کر رکھا ہے جس میں چنندہ اساتذہ کو سکولوں میں پڑھانے کا بنیادی فرض، جس کے لیے انہیں بھرتی کیا جاتا ہے اور انہیں تنخواہ بھی دی جاتی ہے،ادا کرنے کی بجائے دفاتر میں جگہ دی جاتی ہے۔تاہم اعلیٰ افسران کی سرپرستی کی وجہ سے یہ چنندہ اساتذہ کبھی سکولوں میں نظر نہیں آتے بلکہ ہمیشہ دفاتر میں تعینات رہتے ہیں۔ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کے بارے میں عوام کو علم نہیں، کئی برسوں سے ڈائریکٹر سکول ایجوکیشن یا ایڈمنسٹریٹو سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہر افسر کو اس مسئلے سے آگاہ کیا جاتا رہا ہے، لیکن بے سود۔اتنے سال گزر چکے ہیں، اور یہ رجحان محکمے کی ہر سطح پر جاری ہے، جس سے ایک اہم خامی پیدا ہو رہی ہے جو محکمے کے کام کاج کو شدید متاثر کرتی ہے۔
یہ چنندہ افراد یاتو چیف ایجوکیشن آفیسروںکی سفارشات کی بنیاد پر، یا ڈائریکٹوریٹ آف سکول ایجوکیشن کشمیریا سول سیکرٹریٹ کی سفارشات کی بنیاد پر دفاتر میں تعینات کیے جاتے ہیںاور اس عمل میں ان کا سکولوں میں پڑھانے کا بنیادی کام نظر انداز کیاجاتا ہے جس کیلئے انہیں بھرتی کیا گیاہوتا ہے۔ اگر ہم کسی بھی ضلع کی بات کریں تو ہر چیف ایجوکیشن آفیسر یا زونل ایجوکیشن آفیسر کے دفتر میں آپ کو ایسے اساتذہ ملیں گے جو اپنی تقرری کے بعد سے کبھی سکول نہیں گئے۔ جب پو چھاجاتا ہے تو چیف ایجوکیشن آفیسر کا دعویٰ ہوتاہے کہ یہ اساتذہ کی تعیناتیاں نظامت تعلیم کی سفارشات پر مبنی ہیں۔
پچھلے سال ہی بارہمولہ میں ایک ٹیچر نے جوائنٹ ڈائریکٹر کو لکھا کہ محکمہ میں بھرتی ہونے کے بعد سے وہ زونل ایجوکیشن آفس میں کام کر رہا ہے اور جوائنٹ ڈائریکٹر کے دفتر میں تعینات ہونا چاہتا ہے۔ بدقسمتی سے، جوائنٹ ڈائریکٹر نے سی ای او کو نظرانداز کیا اور براہ راست زیڈ آر اوکو خط لکھا کہ استاد کو انکے دفتر کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ میں نے اس مسئلے کو اجاگر کیا جس کی وجہ سے محکمہ کو جوائنٹ ڈائریکٹر سے وضاحت طلب کرنا پڑی۔
دفاتر میں اساتذہ کی تعیناتی کا رجحان اس وقت نمایاں طور پر بڑھ گیا جب جموں و کشمیر میں سابقہ ایس ایس اے، آر ایم ایس اے جیسی مرکزی معاونت والی سکیمیں نافذ کی گئیں۔ اگرچہ یہ سکیم کے بعض اجزاء کو نافذ کرنے کے لیے ہو سکتا تھا، لیکن دفاتر میں تعینات کیے جانے والے اساتذہ کے لیے دو سے تین سال کی ایک مقررہ مدت ہونی چاہئے تھی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ محکمہ نے ان منظور نظراساتذہ کو بغیر کسی حد کے دفاتر میں رہنے دیا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ کی سطح یا انتظامی محکمے کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ منظور نظر اساتذہ اپنی من مانیاں کررہے ہیں۔
یہ اساتذہ سکولوں سے دور رہ کر نہ صرف بچوں کے مستقبل کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ کورپشن کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ ثقافتی رابطہ کار کے طور پر کام کرنے والے اساتذہ اور دوسرے سیلوں میں تعینات اساتذہ کے خلاف متعدد شکایات ہیں۔ بدقسمتی سے حکام ہر بار ان مسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔اساتذہ کے تبادلوں کا معاملہ ہو یا کوئی اور مسئلہ، دفاتر میں بیٹھے یہ اساتذہ معمول کے عمل میں ہیرا پھیری کے ذریعے ہر کام میں مداخلت کرکے کورپشن کو فروغ دیتے ہیں۔
چند ہفتے قبل یہ بات سامنے آئی تھی کہ متعدد اضلاع کے چیف ایجوکیشن آفیسران کی جانب سے نظامت تعلیم کشمیر کو جمع کرائے گئے اساتذہ کے ریشنلائزیشن کے احکامات میں ہیرا پھیری کی گئی تھی اور سی ای او آفس اورنظامت تعلیم میں تعینات اساتذہ نے سی ای اوز کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز میں نام تبدیل کر دیے تھے جس سے اساتذہ کا ریشنلائزیشن کا مقصدہی فوت ہو گیا۔ اس اقدام کو سٹیک ہولڈروں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن محکمہ بے حرکت رہا، جس نے ان بااثر اساتذہ کو دفاتر میں اپنا کام جاری رکھنے کے لیے بچا لیا۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کوئی کارروائی یا تحقیقات شروع نہیں کی گئی کہ سی ای اوز کی طرف سے پیش کردہ تجاویز میں نام کیسے تبدیل کیے گئے۔فہرست میں مبینہ طور پر تبدیلیاں ان اساتذہ اور سی ای اوز اور نظامت تعلیم کشمیر کے دفاتر میں موجود دیگر کلریکل عملہ نے کی تھیں۔
یہ رجحان برسوں سے جاری ہے اور سربراہان ان اساتذہ کو دفتروں میں ان کے غلط کاموں پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
یہ گندگی صرف چیف ایجوکیشن دفاتر یا نظامت تعلیم کشمیرتک محدود نہیں ہے بلکہ ایس سی ای آر ٹی اورڈائٹس میں بھی موجود ہے۔ ایک بار جب کسی استاد کو ان دفاتر میں تعینات کیا جاتا ہے، تو وہ سٹیٹ کونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹرائننگ میں ایک خاص وقت گزارنے کے بعد کبھی بھی سکولوں میں واپس نہیں آتے ہیں۔
مثال کے طور پر، ایک رہبر تعلیم ٹیچر جوسٹیٹ کونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹرائننگ(سابقہ SIE) میں کئی سال سے تعینات رہا ہے، اب ایک انچارج لیکچرار ہے اور یہاں تک کہ سٹیٹ کونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹرائننگ کے سرکاری دستاویزات پر ایک سینئر اکیڈمک آفیسر کے طور پر درج ہے۔ تاہم یہ استاد اب ایک دہائی سے کبھی کسی اسکول میں نہیں گیا اور نہ ہی بچوں کو پڑھایا۔ ان جیسے اساتذہ کو محکمہ کی طرف سے کبھی جوابدہ نہیں ٹھہرایا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے انہیں سکولوں سے دور رہنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
پچھلے سال سکولی تعلیم محکمہ نے لیکچراروں کا ردوبدل جاری کیا جس میں وسطی کشمیر کے ایک ڈائٹ میں تعینات چند لیکچرار شامل تھے۔ زیر بحث لیکچراروں کو اس وقت کے ڈائٹ پرنسپل نے ریلیو نہیں کیا۔ سوال کرنے پر ڈائٹ پرنسپل نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ڈائٹ ان دو لیکچراروں کے بغیر نہیں چل سکتا جو وہاں تعینات تھے۔ اس طرح کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح افسران نے اساتذہ اور لیکچراروںکے ایک مخصوص گروپ کو سکولوں سے دور رکھنے کے لیے لابی ازم پیدا کیا ہے۔ایسے بہت سے اساتذہ ہیں جوسٹیٹ کونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹرائننگ اور ڈائٹس کے دفاتر میں حکام کی آشیرواد سے مزے لوٹ رہے ہیںاورسکولوں سے دور رہتے ہیں۔ یہ اساتذہ اور لیکچرار اکثر محکمانہ خزانے پر ملک کے مختلف حصوں کا سفر کرتے پائے جاتے ہیں۔
جو اساتذہ محنت سے کام کرتے ہیں اور جو سکولوں میں اپنا خون پسینہ بہا رہے ہیں وہ اپنے کام کے لیے جوابدہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بورڈ امتحانات میں خراب نتائج آنے کی صورت میں انکریمنٹ روک دی جاتی ہے۔ ان کی حاضری کے حوالے سے بھی سخت اقدامات کیے جاتے ہیں۔ تاہم سٹیٹ کونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹرائننگ یا سی ای او دفاتر میں تعینات اساتذہ کی ایسی کوئی حاضری یا جوابدہی کے تقاضے نہیں ہیں۔ وہ کبھی بھی تدریس کے اپنے بنیادی کام کے لیے جوابدہ نہیں ہوتے ہیں۔
کلاس 8ویں ٹرم دوم کے امتحان کے دوران ایک حالیہ واقعہ نے ان اساتذہ کی کوتاہیوں کا انکشاف کیا، کیونکہ یہ پتہ چلا کہ سوالناموںمیں فونٹ کا سائز بہت چھوٹا استعمال کیا گیا تھا۔ اس واقعے نے سٹیٹ کونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹرائننگ کے اسیسمنٹ سیل پر سوالیہ نشان لگا دیا جسے یہ بااثر اساتذہ چلاتے ہیں، جو امتحان بھی ٹھیک سے نہیں کرا سکے۔
گو کہ ا نتظامی محکمہ اور ڈائریکٹوریٹ آف اسکول ایجوکیشن نے اساتذہ کو دفاتر سے فارغ کرنے کے لئے بار بار سرکلر جاری کیے ہیں، تب بھی ان تمام سرکلر ہدایات پر زمینی طور پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔ اس اقدام نے انتظامی محکمے کے کام کاج پر سوالات اٹھائے ہیں جو ان احکامات کو زمینی طور پر نافذ نہیں کروا پا رہے ہیں۔
بااثر اساتذہ کوسٹیٹ کونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹرائننگ میں اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت دینے پر سٹیک ہولڈروں کی تنقید کے درمیان سکولی تعلیم محکمہ نے پچھلے سال سٹیٹ کونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹرائننگ میں نئے اساتذہ کی تعیناتی کا عمل شروع کیا۔ لیکن انتخابی عمل کے دوران وہی پرانے اساتذہ اور لیکچرار جو کئی سال سے سٹیٹ کونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹرائننگ میں تھے ڈیپوٹیشن کے لیے منتخب کیے گئے اور سٹیٹ کونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹرائننگ میں ان کے پچھلےبرسوں کے ڈیپوٹیشن کو شمار نہیں کیا گیا۔
اگر محکمہ واقعی شفافیت اور جوابدہی کو اہمیت دیتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ زونل ایجوکیشن افسروں،چیف ایجوکیشن افسروں،نظامت تعلیم کشمیر،سٹیٹ کونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹرائننگ اوردیگر دفاتر میں تعینات ان تمام اساتذہ کو ان کے سکولوں میں واپس بھیجے اورسکولوں میں ان کی تدریسی صلاحیتوں کی بنیاد پر ان کا جائزہ لے۔بدقسمتی سے محکمہ اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔
محکمہ کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ سٹیٹ کونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹرائننگ سمیت دفاتر میں تعینات تدریسی عملے میں ردوبدل کرے اور اگر ضرورت ہو تو دفاتر میں بنائے گئے ان سیلوں کو چلانے کے لیے نئے چہروں کو تعینات کیا جائے۔اس سے سب کا احتساب ہو گا اور سکولوں میں تعلیمی کلچر بھی بہتر ہو گا۔ امید ہے کہ دانش غالب آئے گی اور اس ضمن میں کچھ ٹھوس کیاجائے گا۔