ریاستی انتظامی کونسل کی طرف سے حال ہی میں 228سکولوں کادرجہ بڑھانے کو منظوری دی گئی جس سے کئی علاقوں کوجہاں ان کا جائز حق ملاتو وہیں کئی علاقے اس عمل میں نظرانداز بھی ہو گئے ہیں، جہاں کے لوگ سراپا احتجاج ہیں اور وہ منصفانہ بنیادوں پر سکولوں کا درجہ بڑھانے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔واضح رہے کہ ریاستی انتظامی کونسل نے دو ہفتے قبل ریاست کے مختلف اضلاع کے 228سکولوں کادرجہ بڑھانے کو منظوری دی۔ 87تعلیمی اداروں کو ہائی سکول سے ہائراسکینڈری سکول کادرجہ دیاگیاجن میں 42جموں جبکہ 45سکول کشمیر صوبہ میں واقع ہیں ۔ اسی طرح سے انتظامی کونسل نے 123مڈل سکولوں کادرجہ بڑھانے کو بھی منظوری دی جن میں سے 58جموں جبکہ 65کشمیر صوبہ میں واقع ہیں ۔اس کے علاوہ مرکزی معاونت والی سکیم سماگرہ شکشا کے تحت 18سکولوں کادرجہ بڑھایاگیا ۔گورنر انتظامیہ کے اس اقدام پر ایک طرف کچھ علاقوں میں جشن منایاجارہارہے تودوسری طرف نظرانداز کئے گئے علاقوں کے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔خاص طور پر خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں نظرانداز کئے گئے علاقوں میں زبردست غم وغصہ پایاجارہاہے اورمقامی لوگوںکا الزام ہے کہ یہ فیصلے غیر منصفانہ بنیادوں پر ہوئے ہیں اور کچھ مستحق علاقوں کو نظرانداز کردیاگیاہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ پہاڑی علاقوں میں ایک ہائر اسکینڈری سکول سے دوسرے ہائراسکینڈری سکول تک میلوںکافاصلہ ہوتاہے اور اسی طرح سے دور دور تک کہیں مڈل تو کہیں ہائی سکول نہیں ملتے ۔ایسے حالات میں طلباکو پہلے تو ہائی سکول اور پھراس کے بعدہائراسکینڈری سکول کی تعلیم کیلئے گھنٹوں پیدل سفر طے کرناپڑتاہے۔اگرچہ حالیہ کچھ برسوں سے کئی تحصیل صدر مقامات پر کالجوں اور دیگر علاقوں میں ہائراسکینڈری سکولوں کے قیام سے بہت بڑی تعداد میں طلباکی مشکلات کاازالہ ہواہے تاہم اب بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں مزیدہائی اور ہائراسکینڈری سکولوں کی ضرورت ہے۔ا ن دونوں خطوں کے جغرافیائی خدوخال پہاڑی ہیں،جہاں کے طلباکو ہائی سکول کے بعد کی تعلیم کیلئے یاتو گاڑیوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں یاپھردشوار گزار راستوں سے ہوکر گزرناپڑتاہے اور ان کا زیادہ تر وقت سکول آنے اور جانے میں بیت جاتاہے لہٰذا وہ اس مسابقتی دور میں شہروں کے طلبا کے ساتھ تعلیمی میدان میں مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہیں بن پاتے۔بے شک حکومت تعلیمی شعبے کو ترجیح دے رہی ہے اور دور افتادہ اور پہاڑی علاقوں میں کئی نئے اداروں کا قیام عمل میں لایاگیاہے تاہم لوگوں کی شکایت ہے کہ یہ ادارے منصفانہ بنیادوں پر قائم نہیں ہوئے اورنہ ہی ان کے قیام کے وقت آبادی ،محل وقوع اور جغرافیائی محل وقوع کے حقائق کو مد نظر رکھاگیا۔جیساکہ ہر زمانے میں تعلیم کو ہرشعبے پر فوقیت دی گئی ہے ،ریاست جموں وکشمیر میں بھی اس شعبے کو بہر صورت سب سے زیادہ اہمیت ملنی چاہئے جس کیلئے ضروری ہے کہ طلباکو بنیادی ڈھانچہ فراہم ہو اور اداروں کے قیام کے ساتھ ساتھ ان میں بنیادی سہولیات جیسے پانی و بجلی کی فراہمی ،طلباکے بیٹھنے کیلئے عمارت کا انتظام اور ہر ایک سکول میں بیت الخلاکی تعمیر کو یقینی بنایاجاناچاہئے۔ساتھ ہی ضرورت کے مطابق نظرانداز کئے گئے علاقوں میں نئے تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں تاکہ دور دراز اور پہاڑی اضلاع کے طلباکو بھی مقامی سطح پر تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل سکے اور انہیں اپنا زیادہ تر وقت سکول آنے اور جانے میں نہیں بلکہ درس و تدریس پر صرف کرنے کےلئے میسر آسکے۔خاص طور پر پہاڑی اور دور درازخطوں، خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب، کو ترجیح دی جائے اورسکولوں کے قیام کے وقت انصاف کے سبھی تقاضے پورے کئے جائیں۔