ایک ایسے وقت جب قومی تعلیمی پالیسی کے تحت تعلیمی اداروں میں جدت لائی جارہی ہے اور نئے دور کے تقاضوں سے نصاب اور درس و تدریس کے سلسلہ کو ہم آہنگ کرنے کے جتن کئے جارہے ہیں ،جموںوکشمیر کے سرکاری سکولوں میں تدریسی عملہ کی قلت ہنوز ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے اور شہر و دیہات میں یہ ایک سنگین صورت اختیار کرچکا ہے کیونکہ کم وبیش سبھی سکولوں میں تدریسی عملہ کی قلت پائی جارہی ہے ۔دوردراز علاقوں میں یہ صورتحال انتہائی خراب ہے جہاں سینکڑوں بچوں کو پڑھانے کیلئے گنتی کے چند اساتذہ میسر ہیں ۔حالیہ دنوں میں صوبہ جموںکے چناب اور پیر پنچال خطوں سے اسی اخبار میں ہم نے درجنوں ایسی رپورٹس شائع کیں جن میں سکولوں میں تدریسی عملہ کی شدید قلت کو اجاگر کیاگیا ۔گوکہ حکام بار ہا کہتے ہیں کہ قلت دور کی جائے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے کیونکہ نئی بھرتیاں ہی نہیں ہورہی ہیں اور دوسری جانب ٹیچر ترقیاں پاکر ماسٹر اور ماسٹر ترقیاں پاکر لیکچرار گریڈ میں جارہے ہیں اور رہی سہی کسر مدرسین کی مسلسل سبکدوشیاں پوری کررہی ہیں۔
اب یہ امر اطمینان بخش ہے کہ محکمہ تعلیم نے قلیل مدتی بھرتی کا عمل شروع کر دیا ہے جس کے تحت بھرتی ہونے والے اساتذہ کو نویں سے بارہویں جماعت تک کے طلباء کو پڑھانے کیلے 25ہزار روپے ماہانہ کے عوض ایک سال کا کنٹریکٹ دیا جارہاہے۔ اطلاعات کے مطابق دونوں صوبوں میں اس نئی بھرتی مہم کے تحت تقریباً پندرہ سو مدرسین تعینات کئے جارہے ہیں جو اکیڈیمک انتظام کے تحت بھرتی ہورہے ہیں اور تعلیمی سال کے اختتام پر ان کا کنٹریکٹ ختم ہوگا۔اساتذہ کو طلباء کو باٹونی، کیمسٹری، کامرس، اکنامکس، ایجوکیشن، انوائرنمنٹل سائنس، انگلش، جغرافیہ، ہندی، تاریخ، کشمیری، ریاضی، فزیکس، پولیٹیکل سائنس، سوشیالوجی، شماریات، اردو اور زالوجی جیسے مضامین پڑھانے ہوں گے۔گوکہ اساتذہ کی قلت پر قابو پانے کے لحاظ سے اس اقدام کا خیر مقدم کیاجانا چاہئے کیونکہ ا س سے سکولوںمیں تدریسی عملہ کی قلت پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے تاہم دوسری جانب یہ استحصالی اقدام ہے اور یہ عملی طور پر ان اعلیٰ تعلیم یافتہ بیروزگاروں کا استحصال ہے جو نوکری کے متلاشی ہیں۔اس بھرتی عمل کے ذریعے سرکار شاید ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر 25ہزار روپے ماہانہ کے عوض ان سے تدریسی مزدوری کروانا چاہتی ہے ۔یہ بھرتی عمل بادی النظر میں منطق سے باہر ہے کیونکہ ایک مستقل استاد بھرتی ہو نے پر پچاس ہزار روپے ماہانہ لیتا ہے جبکہ عارضی بنیاد پر لگنے والا یہی استاد اس سے نصف پچیس ہزار لے گاجبکہ کام دونوںکا برابر ہے بلکہ تلخ تجربہ یہ ہے کہ سکولوںسے لیکر کالجوں اور یونیورسٹیوں تک ان عارضی بنیادوںپر تعینات کئے جانے والے مدرسین سے تدریس کے نام پر بیگار لی جاتی ہے اور انہیں دن بھر کلاس دینے پر مجبورکیاجاتا ہے۔ بنیادی طور پراساتذہ کو مستقل بنیادوں پر بھرتی کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ مستقل بنیادوں پر اساتذہ کی بھرتی سے زیادہ اثر پڑے گا اور نتیجہ خیز نتائج برآمد ہوں گے۔تاہم اس وقت تک ایک سال کے لئے کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتی جاری رہنی چاہئے کیونکہ مستقل بھرتی عمل میں وقت درکار ہے اور طلاب اتنا انتظار کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے تاہم اجرت میں اضافہ ناگزیر ہے ۔ طلباء کو اپنے سکولوں میں اساتذہ کی کمی کی وجہ سے پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔اساتذہ کی کمی کے ساتھ ساتھ سکولوں کو درپیش دیگر مسائل بھی حل کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ کچھ سکولوں کی عمارتوں میں مناسب کلاس رومز نہیں ہیں اور آٹھ کلاسوں کے طلباء کو صرف تین کلاس رومز میں پڑھانا پڑتا ہے۔بعض اوقات جگہ کی کمی کی وجہ سے طلباء کو کھلی کلاسوں میں جانا پڑتا ہے۔بارش کے دنوں میں کلاسز بند رہتی ہیں۔ کچھ سکولوں میں بیت الخلا کی سہولت نہیں ہے۔یہاں تک کہ کچھ سکولوں میں لیبارٹریز اور لائبریریاں نہیں ہیں۔ سکولوں میں بیت الخلا کی سہولت کے علاوہ کلاس روم، لائبریری اور لیبارٹریز کا ہونا ضروری ہے۔سکولوں کو پینے کا صاف پانی بھی فراہم کیا جانا چاہئے۔ بجلی کی فراہمی اور انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنا ہو گی۔ اس طرح کی سہولیات تمام سکولوں میں ہونی چاہئیں چاہے وہ شہری علاقوں میں ہوں یا دیہی علاقوں میںکیونکہ ان سہولیات کے نتیجہ میں قومی تعلیمی پالیسی کی مکمل عملدرآمد یقینی بنائی جاسکتی ہے ورنہ یہ پالیسی کاغذات تک ہی محدود رہے گی ۔