بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کا شمارریاست کی اہم جامعات میں ہوتاہے جس نے بہت ہی قلیل مدت میں نام کمایاہے لیکن جس طرح اس یونیورسٹی کی پہچان بنی اسی قدر دو سال قبل سامنے آنے والاسکالر شپ اسکینڈل اس کی بدنا می کا سبب بھی بنا ۔ یہ بدنامی اس وجہ سے دو چند ہو رہی ہے کہ دو سال اور چند ماہ کا عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی اس سکینڈل پر ہورہی انکوائری مکمل نہیں ہوپائی اور نہ ہی اس بارے میں کوئی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی ۔ واضح رہے کہ یونیورسٹی میں یہ سکینڈل سامنے آنے کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اور انتظامیہ کو حالات قابو کرنے کیلئے پولیس کا سہارا بھی لیناپڑا لیکن پھر بھی جب حالات ٹھیک نہیںہوئے تو یونیورسٹی انتظامیہ کو درس و تدریس کا نظام ہی کچھ عرصہ کیلئے بند کرنا پڑا تھا ۔ اس احتجاج کے نتیجہ میں یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر اور رجسٹرار کو بھی تبدیل کردیاگیا اور ایک ملازم کو معطل ہوا۔اس معاملے کی تحقیقات کررہی پولیس ٹیم نے یہ یقین دلایاتھاکہ انکوائری کا کام جلد از جلد مکمل کرکے رپورٹ سامنے لائی جائے گی اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہوگی لیکن نہ جانے ایسی کیا رکاوٹیں درپیش ہیں جو پولیس اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی تحقیقاتی عمل کو مکمل نہیں کرپائی ہے اور طلباء و یونیورسٹی کے عملے کو آج بھی اس رپورٹ کا انتظار ہے ،جو دو سال پہلے ہی منظر عام پر آجانی چاہئے تھی ۔تب پولیس نے ایف ایس ایل کے ذریعے جانچ کے لئے نمونے حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر تمام شواہد بھی اکھٹے کرلئے تھے اور یہ اندازہ لگایاجارہاتھاکہ اس سکینڈل میں کئی بڑے نام بھی ملوث ہوسکتے ہیں لیکن افسوسناک طور پر یہ رپورٹ ہی تعطل کاشکار بنادی گئی ہے ۔مالی بے ضابطگیوں والے اس اسکینڈل کی وجہ سے جہاں یونیورسٹی کی شبیہ مسخ ہوئی وہیں طلباء کا حق بھی مار لیاگیا اور سبھی کو یہ امید تھی کہ ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیاجائے گامگر ایسا ابھی تک نہیںہوا جس سے پولیس انتظامیہ پر سوالیہ لگ رہاہے ۔انصاف کا تقاضہ یہ تھاکہ معاملے کی تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ منظر عام پر لائی جاتی اور سب پر یہ واضح ہوجاتاکہ اس معاملے کی کیا حقیقت ہے۔ کوئی اس میں ملوث ہے یاپھر کسی کو سازش کا نشانہ بنایاجارہاہے تاہم تحقیقاتی ایجنسیوں نے ماضی کی روایات برقرار رکھتے ہوئے اس اسکینڈل کے حوالے سے بھی انتہائی درجہ کی لاپرواہی کا مظاہرہ کیاہے ۔اگر تحقیقات مکمل کرکے ملوثین کے خلاف کارروائی کی جاتی تو یقینا اس حوالے سے پائے جارہے شکوک وشبہات دور ہوجاتے اورلوگوں کا اعتماد اس ادارے پر مکمل طور پر بحال ہوجاتالیکن ایسا نہ کرکے پولیس نے اس سوچ کو تقویت دی ہے کہ ضرور دال میں کچھ نہ کچھ کالاہے ۔بلاشبہ پولیس نے تحقیقات مکمل کرنے میں بہت تاخیر کردی ہے لیکن پھر بھی وقت ختم نہیںہوگیا بلکہ ابھی بھی اس بارے میں انکوائری مکمل کرکے رپورٹ منظر عام پر لائی جانی چاہئے جس سے نہ صرف طلباء کو انصاف ملے گابلکہ آئندہ ہرکوئی ایسا کارنامہ انجام دینے سے گریز کرے گا۔اب بھی اساتذہ اور طلباء کو اس بات کا انتظار ہے کہ پولیس رپورٹ سامنے لائے گی اور انہوںنے ایسا نہ ہونے پر احتجاج کا انتباہ بھی دیاہے اس لئے لازمی بن گیاہے کہ پولیس اپناکام ایمانداری سے مکمل کرے اور رپورٹ کو دبارکھے جانے کے بجائے منظر عام پر لایاجائے ۔