آوازِ خلق
ندیم خان
جموں و کشمیر میں گزشتہ کئی ہفتوں سے سڑا ہوئے ، بدبودار اور مشکوک گوشت اور اس سے تیار کئے گئے کباب، رستے اور گوشتابوں کی برآمدگی سےوادی کشمیرمیں تشویش لہردوڑگئی ہے۔ظاہرہے کہ وادی کشمیر میں کافی مقدار میں گوشت استعمال ہورہا ہے اور لگ بھگ یہاں 61000 ٹن گوشت کی سالانہ کھپت ہورہی ہے۔ یہاںکے ہوٹلوں، ریستورانوں اور بازاروں کے پکوانوںمیں اسی مضر صحت پیکڈ گوشت کے استعمال، منظرِ عام آنے سے لوگوں کے ہوش اُڑ گئے ہیں،اور عوام الناس میں یہ باتیں عام ہورہی ہیں کہ کیا کشمیر میں بڑھتی ہوئی بیماریوں کی اہم وجہ یہی گوشت ہے؟جس کا پردہ اب فاش ہوچکا ہے۔ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ہزاروں کلو گرام سڑا ہوا پیکڈ زہریلا گوشت اور اس سے تیار کئے گئے مختلف قسم کے پکوان فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ نے ضائع کردئیے ہیں۔ چنانچہ ہمنے اس سلسلے میںمشہور و معروف معالج اور قلمکار ڈاکٹر نصار احمد ترالی سے بھی بات کی تو انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر میں سڑے بدبودار گوشت کی برآمدگی یقیناً ایک لمحہ فکریہ ہے اور بحیثیت ایک معالج کے میں یہ مشورہ دوں گا کہ گوشت کا استعمال کم سے کم کیا جائے تاکہ آئے روز بیماروں سے ہم خود کو بچا سکیں۔بقول اُن کے وادی کشمیر میں کینسر جیسی جان لیوا بیماری کا عام ہونا اشارہ دیتا ہے کہ ہم بنا تحقیق کے سڑے ہوئے گوشت، چکن اور مچھلیوں کا استعمال کرتے ہیں، اگر ہمیں ان بیماریوں سے محفوظ رہنا ہے تو ہمیں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ وادی کشمیر میںعرصۂ دراز سے بازاروں میں سڑے ہوئے بدبودار گوشت کی فراہمی کو لیکر شکایات موصول ہو رہی تھیں تاہم اب حقیقت سامنے آنے کے بعد عوامی شکایات کی تصدیق ہوئی ہے اور جو بھی کاروائی جموں و کشمیر، فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ یا پھر میونسپل کونسل کی جانب سے کی گئی ہے وہ ایک اچھی پہل ہے۔ لیکن اب یہ بھی دیکھنا ضروری ہوگا کہ آخر یہ سڑا ہوا مہینوں پرانا گوشت کہاں سے آرہا ہے اور اس کو عام لوگوں تک کون پہنچارہا ہے۔ اُن کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اس معاملے پر عالم دین مولوی قطب الدین کا یہ ماننا ہے کہ جموں و کشمیر کے بازاروں میں مضر صحت گوشت کی فراہمی کی اصل وجہ خوف خدا اور تصور آخرت نہ ہونا ہے۔ بقول اُن کے ہر مذہب دھوکہ دہی، چاپلوسی، مکاری اور جعلسازی کے خلاف ہے، اس لئے ان چیزوں کا ہونا کسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے۔ سماجی سطح پر بھی اس بدعت پر قابو پانے کے لیے اقدامات وقت کا تقاضا ہے۔ وہیں کمشنر فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ سمیتا سیٹھی نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ وادی کشمیر میں سڑا ہوا گوشت ملنے کے بعد محکمہ فوڈ سیفٹی نے اپنی مہم میں تیزی لائی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے ایک دو مہینے قبل فوڈ زبنانے والے لوگوں کیلئے ایک اہم جانکاری کیمپ کا انعقاد کیا تھا اور اس میں لوگوں سے واضح کیا گیاتھا کہ پروسڈ فوڈ چاہئے وہ وازوان یا اور کوئی چیز ہو، کو کیسے سٹور کیا جانا چاہیے۔ اُنہیںیہ بھی بتادیا گیا تھا کہ قواعد و ضوابط پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اسی طرح جموں و کشمیر کے تمام کاروباریوں کو پہلے ہی یہ بتایا گیا تھا کہ فوڈ پیکٹ پر تاریخ، معیاد ختم ہونے کی تاریخ، بیچنے والی کمپنی کا نام ، سٹوریج کی تاریخ سمیت دیگر تفصیلات ہونا لازمی ہے، چاہے وہ گوشت، چکن، مچھلی یا پھر اور کوئی کھانے پینے کی اشیاء ہو۔بقولِ اُن کے تربیتی پروگرام ختم ہونے کے ایک ماہ بعد ہم نے اُن کا جائزہ لینے کیلئے مختلف ٹیمیں بنا کر وادی کشمیر میں خصوصی مہم شروع کی، جس کے نتیجے میں ہمیں مختلف علاقوں میں 7000 کلو گرام سڑا ہوا گوشت ملا۔ اس دوران ہمیں مہینوں تک سٹور کئے ہوئے بدبودار سڑے ہوئے گوشت پر کسی کی مہر نہ لیبل اور نہ ہی دیگر کوئی نشان ملا۔ یہی وجہ ہے کہ وادی کشمیر کے تقریباً ہر ضلع میں سڑے ہوئے گوشت کے انبار مل رہے ہیں۔ جو لوگ کارروائی سے بچنے کیلئے اب سڑکوں اور ندی نالوں میں پھینک کر ان کو ضائع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ آپ کو بتا دیں کہ اس معاملے میں ابھی سڑا ہوا گوشت وادی کشمیر بیچنے والوں کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں چل سکا ہے، کیونکہ گوشت کے ڈبوں پر کوئی لیبلنگ سیل یا پھر نشان نہیں ہے۔ کشمیر کی عوام اس امید میں ہے کہ یہ سڑا ہوا گوشت کشمیر میں لانے والوں کا ہر حال میں پتہ لگایا جانا چاہیے تاکہ کسی گوشت مافیا کو لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے کا کوئی موقع نہ ملے۔ اس دوران یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ وادی کشمیر میں یہ دھندا جسے اب گوشت مافیا کا نام دیا جارہا ہے،کافی عرصہ سے چل رہا تھا ۔ تعجب تو یہ بھی ہے کہ یہ سب انتظامیہ کی ناک کے نیچے سے بہت تیزی سے آگے بڑھتا چلا جارہا تھا، اور محکمہ فوڈ کی غفلت شعاری سے ابھی تک لاکھوں لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ ہوا ہے۔ گُزشتہ کئی ہفتوں میں وادی کشمیر کے زکورہ میں 1300، بارہمولہ 560، بانڈی پورہ 670، اننت ناگ 400، پلوامہ 50، کاکہ پورہ 400، نوگام 1100، لسجن 120، صفاکدل 2500 کباب، پارمپورہ 200، گاندربل 150، اور سرینگر میں 350، کلو گرام غیر معیاری سڑا ہوا گوشت ضبط کیا گیاہے۔ اس حوالے سے ہم نے بارہمولہ میں عام ریڈی والوں سے بات کی جو ہر روز اپنی ریڈی لگا کر چکن، رستے، گوشتابے، کباب، مچھلیاں، روغن جوش اس کے علاوہ اور بھی مختلف اقسام گوشت سے تیار شدہ چیزیں بیچتے ہیں۔تو انہوں نے بتایا کہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے جانور کو حلال طریقے سے ذبح کرکے اس کے گوشت کی مختلف چیزیں بناکر بیچتے ہیں۔ ہم شام کے وقت یہ سب تیار کرتے ہیں اور پھر صبح سویرے اپنی ریڈی لگا کر اس کو بیچتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا مال پورا دن میں ختم ہو جاتا ہے، اس لیے ہم کو گوشت کو سٹوریج کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور جب سے سڑے ہوئے گوشت کا معاملہ کشمیر میں سامنے آیا ہے تب سے ہمارا کاروبار بھی رُک گیا ہے کیونکہ کہ اب لوگوں میں ڈر کا ماحول ہے۔ کوئی بھی شخص پکا ہوا گوشت ہم سے خریدنے کے لئے تیار نہیں ۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ جموں وکشمیر انتظامیہ جلد از جلد اس گوشت مافیا کا پردہ چاک کردے تاکہ یہ پتہ لگ سکے کہ آیا یہ سڑا ہوا گوشت آخر کہاں سے آ رہا تھا۔ تاکہ ہم اپنا روز گار بحال کرسکیں۔ اس حوالے سے مولوی محمد عمر فاروق نے وادی کشمیر میں سڑے گلے گوشت کی بھاری تعداد دیکھ کر شدید تشویش اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت فوری طور پر اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں، سخت کارروائی اور معاشرتی احتساب کرے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ کی کارروائی کے دوران بغیر لیبل، مشتبہ اور گلے سڑے بدبودار گوشت کی ضبطی نہ صرف عوامی اعتماد کے ساتھ سنگین خیانت ہے بلکہ یہ شریعت، سماجی اقدار اور ملکی قوانین کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔کیونکہ عوام کو حرام یا مضر صحت سڑے گلے گوشت کھلانا ظلم ہے اور اس گھناؤنے مافیا میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق فوری اور سخت سے سخت طرسزادی جانی چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال کی بڑی وجہ انتظامیہ کی غفلت تو نہیں ہے، کیونکہ وادی کشمیر میں اس حوالے سے قوانین تو بہت ہی سخت ہیں لیکن ان قوانین پر پوری ایمانداری سے عمل نہیں کیا جارہا ہے۔ بوسیدہ سڑا ہوا گوشت بیچنے والوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی صورت میں ان کا حوصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ وہیں عوام میں بھی آگاہی کی کمی دکھائی دے رہی ہے۔ عام لوگ صرف اور صرف قیمت دیکھ کر گوشت خرید لیتے ہیں، یہ گوشت کتنے عرصے کا ہے اس پر توجہ نہیں دیتےہیں۔
اس پیچیدہ مسئلے کا تدارک عوام الناس کی بھی ذمہ داری ہے۔ جموں و کشمیر کی ایل جی انتظامیہ، غیر سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر کے لوگوں کو مل کر اس سنگین مصیبت سے نجات پانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس سڑے ہوئے اور بوسیدہ گوشت کے اس جان لیوا مافیا کا پردہ چاک کرنے کے لئے ایک یا دو ہفتوں کی یہ مہم کافی نہیں ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جموں و کشمیر انتظامیہ اور متعلقہ محکمہ خصوصاً کشمیر فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ ایک واضح اور بامقصد حکمت عملی کو اپنائیں اور اس معاملے میں جو بھی افراد ملوث ہیں ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائے۔
رابطہ۔ 9596571542