سڑک حادثات کا کچھ تو تدارک کریں!

جموںوکشمیر کی سڑکیں موت کا کنواں بنتی چلی جارہی ہے ۔ اب سڑک حادثات اس تواتر کے ساتھ رونما ہورہے ہیں کہ حساب رکھ پانا مشکل ہوچکا ہے ۔ہر روز یوٹی میں سڑک حادثات کے دوران دو چار انسانی جانوں کا اتلاف معمول بن چکا ہے اور بیچ بیچ میں بڑے حادثات بھی مسلسل رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں ہلاکتیں کافی زیادہ ہوتی ہیں۔ایسا ہی ایک حادثہ گزشتہ روزرا م بن ضلع میں قومی شاہراہ پر کیلا موڈ کے نزدیک پیش آیا جس میں5 افراد ہلاک جبکہ11دیگرزخمی ہو گئے۔جموں وکشمیر میں سال 2021کے دوران5452ٹریفک حادثات رونما ہوئے جس دوران774افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ6972افراد زخمی ہوگئے۔اب جہاں تک رواں سال کا تعلق ہے تو مئی ماہ کے اختتام تک جموں وکشمیر میں کل ملا کر2465سڑک حادثات رونما ہوئے ہیںجن میں334اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں جبکہ3300افراد زخمی ہوگئے ہیں۔محکمہ ٹریفک کی جانب سے منظر عام پر لائے گئے اعداد وشمارکے مطابق جموںوکشمیر میں تشدد آمیز اور ملی ٹینسی کے واقعات میں اتنے افراد نہیں مارے جاتے جتنے ہر سال ٹریفک حادثات میں اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن کے دوران مرکزی سرکارنے جموںوکشمیرمیں تشدد آمیز واقعات میں ہلاک ہونے والے افراد کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہوئے بتایاتھا کہ جموںوکشمیر میں2021میں 75افراد تشدد آمیز واقعات کے دوران مارے گئے جن میں 40عام شہری اور 35سیکورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں۔ دیگر شاہرائوں کے ساتھ ساتھ سرینگرجموںقومی شاہراہ پر تواتر کے ساتھ رونما ہونے والے خونین حادثات نے ایک بار پھراس شاہراہ کی تعمیرو و تجدید کیلئے ایک موثر اور تخلیقی منصوبے کے تحت اقدامات کرنے کی ضرورت کا احساس اجاگر کیا ہے۔ دنیا بھر میں شاہرائوں کو ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایک اہم ترین شاہراہ جو اس خطے کو باقی دنیا سے جوڑنے کا واحدزیر استعمال زمین ذریعہ بھی ہے، دردناک اموات کی علامت بن کررہ گئی ہے۔یہ حادثے اور ان میں ہوئی اموات دراصل دہائیوں سے اس موت کی شاہراہ پر ہونے والے لاتعداد حادثات اور ہزاروں اموات کا تسلسل ہے۔

 

ویسے بھی ہمارے یہاں سڑک حادثات صرف سرینگر۔ جموںقومی شاہراہ تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ کہنا بے جا بھی نہیں ہوگا کہ یہ واحدخطہ ہے جہاں اوسطاً زیادہ لوگ سڑک حادثات کی نذر ہوجاتے ہیں ۔یہاں رونما ہونے والے حادثات کی شدت بذات خود ٹریفک نظام میں بدترین خامیوں کی موجود گی کا برملا ثبوت ہے۔ عمومی طور پر ہمارے یہاں حادثات کے اسباب سڑکوں کی تنگ دامانی،ہر گذرنے والے دن کے ساتھ بڑھتا ہوا ٹریفک دبائو ،قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کا بلا روک ٹوک سلسلہ،جعلی ڈرائیونگ لائسنز یا ڈرائیونگ لائسنز کی اجرائی کا ناقص نظام وغیرہ جیسی چیزیں ہیں۔محکمہ ٹریفک کا غیر متحرک ہونا ستم بالائے ستم کے مترادف ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کرتب باز ی کے نتیجہ میں ادھ کھلے پھول نہیں مرجھا جاتے ۔نابالغ بچوںکا گاڑیاں یا موٹر سائیکل چلانا معمول بن چکا ہے اور نتیجہ کے طور بیشتر اموات ان نونہالوں کی ہی ہوتی ہیں جو انتہائی تشویشناک ہے۔ایسا نہیں کہ محکمہ ٹریفک میں قابل اور کام کرنے والے لوگ نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے ٹریفک محکمہ شدید افرادی قلت اور جدید سہولیات کی محرومی سے دوچار ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں شہروں اور قصبہ جات میں ہی ٹریفک محکمے کی موجود گی محسوس ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں محکمہ ٹریفک اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف کرنے میں سراسر ناکام ثابت ہورہا ہے۔مثلاً ٹریفک قوانین اور ضوابط سے متعلق عوام کو تسلسل کے ساتھ جانکاری فراہم کرنا محکمہ ٹریفک کا ایک مسلسل کام ہونا چاہیے تھا،لیکن اس ضمن میں بہت معمولی توجہ دی جاتی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ٹریفک نظام کو سر نو ترتیب دینا وقت کی ایک اہم ضرورت بن گیاہے ۔نظام ٹریفک کو سنوارنا ایک مسلسل عمل ہے کیونکہ مسائل تو بہرحال ہمیشہ موجود رہیں گے۔ ٹریفک دبائو تو بڑھتا ہی جائے گا۔ ایسا پوری دنیا میں ہورہا ہے۔ بلکہ ہماری آس پاس کی ہی ریاستوں میں جتنا ٹریفک دبائو ہے ہمارے یہاں اسکے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیکن ان ریاستوں کے پاس نظام ہم سے بہتر ہے اور وہ تسلسل کے ساتھ نئے نئے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔جموں۔ سرینگرقومی شاہراہ یا دوسری سڑکوںاور شاہرائوں کی اہمیت اور حیثیت تو بہر حال ہمیشہ اپنی جگہ موجود ہے۔ضرورت ان سڑکوں پرسفرکو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کی ہے۔متمدن قوموں کی ترقی کا راز بھی ہی ہے کہ وہ ہمہ وقت مسائل کا حل تلاش کرتے رہتے ہیں۔

 

کیا ہم بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات پر قابوپانے کیلئے سڑکوں پر سفر کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے منصوبے مرتب کریں گے یا پھر اسی طرح حادثات میں ہونے والی اموات کو دیکھتے رہیں گے؟۔یقینا ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھنا حل نہیں ہے اور حکومت ضرور عملی اقدامات کرے گی تاہم یہ اکیلے حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ سماج کے ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم ٹریفک قوانین کا پالن کریں اور اپنے نابالغ بچوں اور جائز طریقے سے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کئے بغیر اپنے بالغ بچوں کو گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے کی قطعی اجازت نہ دیں ۔اگر سرکار اور عوام مل کر اپنی ذمہ داریوںسے عہدہ برآ ں ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ سڑکوںپر موت کا یہ کھیل بند ہوجائے ورنہ ہم یونہی شور مچاتے رہیں گے اور سڑکوں پر انسانی جانوںکے اتلاف کے نتیجہ میں گھروں کے گھر اجڑتے رہیں گے۔