شیخ ولی محمد
تعلیم کانور عام کرنے کے لیے حکومتی سطح پر بہت سارے اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں جن میں ایک اقدام یہ بھی ہے کہ جو علاقہ اقتصادی اور تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ہو ، اسے ایک خصوصی درجہ حاصل ہوتا ہے۔ جیسے بیک وارڈائیریاء (RBA) (Resident of Backward Area)وغیرہ ۔ ان پسماندہ علاقوں اور درج فہرست ذاتوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کیلئے اسکول ، کالج ، یونیورسٹی یا پروفیشنل اداروں میں داخلہ کے لئے نشستیں مختص Reserveرکھی جاتی ہیں جبکہ نوکریوں اور ترقیوںکے حوالے سے بھی ان کے لیے مخصوص کوٹا ہوتا ہے ۔ اس قسم کی خصوصی اور مفید سند Certificateحاصل کرنے کے لیے رہنما خطوط Guide Linesپہلے ہی وضع کیے جاتے ہیں ۔ جن کی روشنی میں شرایط کو پورا کرنے کے بعد ہی یہ اسناد اجراء کی جاتی ہیں۔
اقتصادی اور سماجی طور بچھڑے ہوئے طبقات سے وابستہ لڑکیوں کی شادی جب ان علاقوں اور بستیوں میں کی جاتی ہے جو بیک وارڈ (RBA)نہیں ہوتے اور عملی طور پر وہ اسی بستی کے باشندے قرار پاتیں ہیں ۔ شادی کے بعد جب ان لڑکیوں کے ہاں بچے پیدا ہوتے ہیں تو ان بچوں کو تعلیمی میدان میں فائدہ پہنچانے کیلئے جب انہیں اسکول میں داخل کیا جاتا ہے تو اس وقت ان کی ولدیت بدل دی جاتی ہے۔ کہیں کسی معصوم بچے کے والد کی جگہ ان کے نانا کا نام لکھا جاتا ہے اور کہیں اس کا ماموں باپ بنایا جاتا ہے اور کہیں کسی جگہ اس کا دوسرا رشتہ دار اس کا والدبن جاتا ہے چونکہ بچے کا حقیقی باپ ایک ایسے علاقے کا باشندہ ہوتا ہے جو ریزرویشن زمرے میں نہیں آتا لہذا اس بنیاد پر اس کا بیٹا RBAیا STسرٹیفکیٹ کا حقدار اور دعوے دار نہیں ۔ دوسری طرف والدین جب اسکول ریکارڈ میں اس کی ولدیت کا غلط اندراج کرکے نانا / ماما کو اس کا والد ظاہر کرتے ہیں تو نانا یا ماما خود مخصوص زمرے سے تعلق رکھتے ہیں تو اس صورت میں اس کے منہ بولے بیٹے ( جعلی بیٹے) کو آسانی سے ریزرویشن کی سرٹیفکیٹ مل سکتی ہے۔ فائدہ مند اسناد کے حصول کیلئے یہ طریقہ کار بھی غیر اخلاقی اور غیر شرعی ہے ۔ سرکاری سطح پر کسی بھی اسکیم یا پروگرام سے فائدہ حاصل کرنا شہریوں کا بنیادی حق ہے تاہم اس کے لئے جو لوازمات رکھے گئے ہے ان کو پورا کرنا اخلاقی اور ینی تقاضہ ہے ۔ اس کے برعکس اگر کسی فائدے کے حصول کے لئے رہنما خطوط کو نظر انداز کر کے جھوٹ اور دھوکہ دی کا سہارا لیا جائے تو اخلاقی ، قانونی اور دینی طور پر کسی بھی حیثیت سے ٹھیک نہیں ۔ عالم اسلام کے معروف اسلامی اسکالر علامہ یوسف القرضاوی کہتے ہیں :’’ جس طرح باپ کے لیے اپنی نسبی اولاد کا انکار کرنا جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح جو بچہ اس کی صُلبی اولادنہ ہو اس کو بیٹا بنالینا بھی جائز نہیں ہے ۔ زمانہ جاہلیت میں عرب دوسری قوموں کی طرح اپنا نسب تبنیب کے ذریعہ جس شخص سے چاہتے ملاتے اور آدمی جس لڑکے کو چاہتا اپنا بیٹا بنالیتا اور اس کے حقوق و فرائض بیٹوں ہی کی طرح ہوتے ۔ اسلام کی جب آمد ہوئی تو عر ب سماج میں تبنیت ( لے پالک بنانا) کا یہ طریقہ رائج تھا ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زیدؓ بن حارثہ کو دور جاہلیت میں متبنیٰ بنایا تھا۔ لیکن اسلام نے اس کو اس نظر سے دیکھا کہ یہ ایک خلاف واقعہ چیز ہے ۔ قرآن نے جاہلی نظام کو باطل اور قطعی حرام قرار دیا۔ اﷲ تبارک تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنایا ہے ۔ یہ تمہارے منھ سے نکلی ہوئی بات ہے ۔ لیکن اﷲ تعالیٰ حق بات فرماتا ہے اور صحیح طریقہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ اس کو اس کے باپ کی نسبت سے پکارو کہ یہ اﷲ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے ۔ لیکن اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں ‘‘۔ ( الاحزاب ۴ ، ۵ )
اسلام میں جس طرح با پ کا اپنی اولاد کے نسب سے بلاوجہ انکار کرنا حرام ہے اسی طرح اولاد کا اپنے کو کسی دوسرے نسب کی طرف منسوب کرنا اور اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کو اپنا باپ قرار دینا بھی حرام ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا شمار بدترین منکرات میں کیا ہے جس کے نتیجے میں آدمی خالق اور مخلوق دونوں کی لعنت کا مستحق ہوجاتا ہے ۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا : ’’ جس نے اپنے کو حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا یا اپنے آقا کے علاوہ کسی اور آقا کا غلام ہونے کا دعویٰ کیا تو اس پر ا ﷲ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ قیامت کے دن اﷲ اس سے نہ توبہ قبول کرے گا اور نہ فدیہ‘‘ ( متفق علیہ) حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا : ’’ جس نے اپنے با پ کے علاوہ کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا جبکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرام ہے‘‘۔ ( متفق علیہ )
ضرورت اس چیز کی ہے کہ تعلیمی میدان سے جڑی ہوئی بنیادی چیزوں کو درست کیا جائے ۔ چاہے اسکول میں بچے کا نام ، ولدیت ، تاریخ پیدائش کامسئلہ ہو یا کوئی خصوصی زمرے کی سند اور تعلیمی وظائف کے حصول کا معاملہ ہو ہر وقت سچائی ، دیانتداری اور اخلاق و قانون کو بنیاد بنایا جائے ۔
sheikhwmpub@gmail.com